جنوری کی21 تاریخ کو کرم ایجنسی کے شہر پارا چنار کی سبزی منڈی میں بم دھماکے میں 25 افراد شہید اور 65 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ شہید ہونے والوں کی زیادہ تعداد غریب چھابڑی فروشوں اور مزدوروں پر مشتمل تھی جو ہر روز صبح کے وقت پھل اور سبزیوں کے نیلام کے موقع پر جمع ہوتے ہیں۔ جان سے ہارنے والے ان افراد میں دو بچے بھی بتائے جاتے ہیں۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق بم پھلوں یا سبزیوں کے کسی کریٹ میں چھپایا گیا تھا اور جب اپنے روز مرہ معمول کے مطابق خریداروں کی ایک بڑی تعداد جمع ہو گئی‘ تو ریموٹ کنٹرول کے ذریعے بم کو اُڑا دیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق دو کالعدم دہشت گرد تنظیموں یعنی لشکر جھنگوی العالمی اور تحریک طالبان پاکستان کے ایک گروپ نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کر لی۔ یہ دونوں تنظیمیں بلوچستان میں بھی دہشت گردی کے واقعات میں ملوث پائی گئی ہیں۔ عالمی دہشت گرد تنظیم 'القاعدہ‘ کے علاوہ ان کا پاکستان کی کالعدم مگر سرگرم فرقہ وارانہ تنظیموں سے بھی گہرا رابطہ بتایا جاتا ہے۔
پارا چنار‘ پاکستان کے شمال مغربی قبائلی علاقہ جات ''فاٹا‘‘ کی کرم ایجنسی کا ہیڈ کوارٹر ہے، جس کی افغانستان کے اُن تین صوبوں سے سرحد ملتی ہے جو افغان طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔ اسی لیے ماضی میں دونوں طرف سے دہشت گرد بآسانی ایک دوسرے کے علاقوں میں آ جا سکتے تھے۔ کرم ایجنسی کا سب سے بڑا مسئلہ فرقہ وارانہ دہشت گردی ہے اور 21 جنوری کا بم دھماکہ اپنی نوعیت کا پہلا یا واحد واقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل بھی وہاں تین بڑے دھماکے ہو چکے ہیں، جن میں تازہ ترین دسمبر 2015 ء کا دھماکہ ہے جس میں تقریباً اتنے ہی افراد شہید ہوئے تھے۔ مقامی حکام کے مطابق گزشتہ تقریباً 13ماہ سے کرم ایجنسی میں امن اور سکون کی موجودگی سے پارا چنار اور ایجنسی کے دیگر حصوں میں رہنے والے لوگوں کی روز مرہ مصروفیات نارمل صورت اختیار کر چکی تھیں، بلکہ ایجنسی کی شیعہ اور سنی آبادی کے درمیان ایک عرصہ سے جو کشیدگی چلی آ رہی تھی اس میں بھی نمایاں کمی آ چکی تھی۔ لیکن امن اور بھائی چارہ کے دشمنوں کو یہ فضا پسند نہیں آئی اور اسے تباہ کرنے کے لیے انہوں نے ایک دفعہ پھر دو درجن سے زیادہ افراد کو شہید کرنے کے علاوہ درجنوں کو شدید زخمی کر دیا۔ پارا چنار کا یہ سانحہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کی بدترین مثال ہے۔ اس میں ملوث کچھ عناصر نے تو خود اپنے آپ کو بے نقاب کر دیا ہے، لیکن ان کے دیگر ساتھی اب بھی پس پردہ ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان کے چہروں پر سے کب پردہ اُٹھتا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ پارا چنار میں دہشت گردی کا یہ واقعہ اُس وقت رُونما ہُوا جب مُلک میں گزشتہ دو سے زیادہ برسوں سے جاری نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کے لیے مہم جاری ہے اور جون 2014ء سے جاری فوجی آپریشن''ضرب عضب‘‘ کے نتیجے میں دہشت گردوں کے مکمل قلع قمع کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ کوئی حکام اعلیٰ سے پوچھے کہ اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ اتنی ہی کامیابی سے جاری ہے جتنی وہ دُنیا کو بتاتے ہیں تو پھر پارا چنار کا یہ واقعہ کیسے رُونما ہوگیا؟ پاکستان کا کوئی شہری دہشت گردی کے خلاف اپنی فوج‘ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والی فورسز کی قربانیوں سے انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن جن حلقوں پر پاکستانی عوام کی جان اور املاک کے تحفظ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اُن سے جائز طور پر پوچھا جا سکتا ہے کہ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ دہشت گرد جب چاہیں‘ جہاں چاہیں اور جسے چاہیں اپنی مذموم کارروائیوں کا نشانہ بنانے اور پھر صاف بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں؟ حالانکہ لاتعداد تجزیوں اور تحریروں میں ان تنظیموں کی آئوٹ ریج اور نیٹ ورک کی نشان دہی کی جا چکی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی اقوام متحدہ اور کئی ادارے اِن کے بارے میں اطلاعات فراہم کرنے اور ان کے سدِباب کے لیے پاکستان کے حکام کو مدد اور تعاون کی پیش کش کر چُکے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے ہمسایہ ممالک جو خود اس مسئلے سے بری طرح دوچار ہیں، پاکستان کے ساتھ معلومات کے تبادلے بلکہ اشتراکِ عمل کے لیے تیار ہیں۔ ہمارے دوست ممالک یا وہ ممالک جن کے ساتھ ہم بین الاقوامی سطح پر انسدادِ دہشت گردی میں کولیشن پارٹنر ہیں، پاکستان کی توجہ اس قسم کے اقدامات کی اشد ضرورت کی طرف مبذول کرواتے رہتے ہیں، لیکن ہمارے حکمران بدستور ڈینائل موڈ میں ہیں اور اُنہیں کوئی پروا نہیں کہ بیرونی دنیا میں ان کے بارے میں کیا تاثر پایا جاتا ہے یا اندرون ملک حالات کس طرف جا رہے ہیں۔ اگر حکومت نے کوئٹہ کمیشن کی رپورٹ کی سفارشات کی روشنی چند اقدامات کئے ہوتے تو پارا چنار جیسے سانحہ سے بچا جا سکتا تھا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ حکومت خصوصاً وزارت داخلہ جو بنیادی طور پر ملک میں امن و امان کے قیام کے لیے بین الصوبائی اقدامات کی ذمہ دار ہے‘ کو اس قسم کی رپورٹ یا سفارشات سے کوئی دلچسپی نہیں۔ کوئٹہ کمیشن رپورٹ کے علاوہ ملک کے کئی ادارے جن میں پنجاب کا کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (CTD) بھی شامل ہیں بھی اپنی رپورٹس میں واضح کر چکے ہیں کہ دہشت گرد تنظیمیں اور گروپ نہ صرف آپس میں مِل جُل کر کارروائیاں کرتے ہیں بلکہ ان کے ملک کی کالعدم فرقہ وارانہ تنظیموں سے بھی قریبی تعلقات ہیں۔ صوبائی حکومتوں کی پولیس کی طرف سے انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے نتیجے میں یہ روابط ثابت ہو چکے ہیں، لیکن مرکزی حکومت کو یہ روابط نظر نہیں آتے، بلکہ وفاقی حکومت کی جانب سے کالعدم تنظیموں کو دہشت گردی کے الزام سے بری کر دیا ہے۔ اس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں ابہام میں اضافہ ہوا ہے۔
صدر‘ وزیراعظم اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنمائوں نے پارا چنار میں دہشت گردی کے اس واقعہ کی پر زور مذمت کرتے ہوئے اسے ان عناصر کی کارروائی قرار دیا ہے جو پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔ اسی قسم کے بیانات گزشتہ برس اگست میں کوئٹہ کے سول ہسپتال میں خونریز دھماکہ کے موقع پر بھی جاری کئے گئے تھے۔ لیکن سپریم کورٹ کے جج قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت تحقیقاتی کمیشن نے اس پر جو رپورٹ پیش کی وہ ہمارے حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں، مگر پارا چنار کے واقعہ کی جو تفصیلات میڈیا کے ذریعے سامنے آئی ہیں‘ اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اُس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ مثلاً رپورٹ میں صاف لکھا ہے کہ انسداد دہشت گردی کی ایک وجہ حکومتی اداروں میں تعاون کا فقدان اور بعض کالعدم تنظیموں کے خلاف، جو خود متعدد دہشت گردی کی کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہیں کے خلاف فوری اور موثر کارروائی میں سُست روی ہے۔
پاکستان گزشتہ دس برس سے زائد عرصہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔ اس میں ہمارے پچاس ہزار سے زائد شہری اور پانچ ہزار کے قریب سکیورٹی اراکین جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ ملک میںدہشت گردوں کی بدستور موجودگی اور انہیں اپنے اہداف کو آسانی سے نشانہ بنانے میں کامیابی کا اصل سبب یہ ہے کہ ملک میں ابھی تک ایسا کوئی کائونٹر ٹیررزم بیانیہ سامنے نہیں آیا جس پر پوری قوم کا اتفاق رائے ہو۔
کالعدم تنظیموں کے بارے میں حالیہ بحث اس مسئلے کی طرف پوری طرح اشارہ کرتی ہے کہ ہمارے ملک میں دہشت گردی اور اس سے موثر طور پر نمٹنے کے معاملے پر مرکز اور صوبوں کے درمیان اتفاق رائے ہے اور نہ تعاون کی فضا قائم ہے۔ اگر کسی صوبے میں ایک کالعدم تنظیم کے رہنمائوں کا داخلہ بند ہے تو دوسرے میں انہیں جلسہ کرنے‘ جلوس نکالنے اور اشتعال انگیز تقاریر کرنے کی نہ صرف کھلی چھٹی ہے‘ بلکہ اُنہیں ان سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے سرکاری طور پر سہولیات بھی مہیا کی جاتی ہیں۔