کراچی کی طرح اب پنجاب میں بھی رینجرز دہشت گردی کے خلاف صوبائی انتظامیہ اور پولیس کی معاونت کے لیے تعینات کئے جا رہے ہیں۔ اس کا باقاعدہ فیصلہ چند دن پیشتر اسلام آباد میں ہونے والے ایک اجلاس میں کیا گیا تھا‘ جس کی صدارت وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نے کی اور اس میں نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ناصر خاں جنجوعہ‘ سیکرٹری داخلہ اور ڈی جی رینجرز پنجاب نے بھی شرکت کی تھی۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 147 کے تحت حکومت پنجاب کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے وفاقی حکومت نے پنجاب میں ابتدائی طور پر 60 دن کے لیے رینجرز کی تعیناتی کا اعلان کیا ہے۔ صوبائی حکومت کی درخواست پر اس مدت میں توسیع کی جا سکتی ہے۔
رینجرز‘ وفاقی حکومت کے زیر انتظام ان نیم فوجی سکیورٹی فورسز میں شامل ہیں‘ جنہیں ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے کسی بھی صوبائی حکومت کی مدد کے لیے بھیجا جا سکتا ہے‘ لیکن ان کی تعیناتی ایک طرف معینہ مدت کے لیے ہوتی ہے اور دوسری طرف ان کے اختیارات کے استعمال اور کارروائیوں کے لیے قواعد و ضوابط موجود ہیں۔ اسلام آباد سے جاری ہونے والے اعلان کے مطابق رینجرز پنجاب میں پاکستان رینجرز ایکٹ کی دفعہ 7 اور 10 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء کی دفعہ 5 کے تحت صوبائی حکومت کی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں یعنی پولیس اور محکمہ انسداد دہشت گردی (کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ) کو مدد فراہم کریں گے۔ ان فرائض کی انجام دہی میں رینجرز کو وہی اختیارات حاصل ہوں گے جو پولیس کو حاصل ہیں لیکن وہ صوبائی پولیس کے متوازی فورس کی حیثیت سے کام نہیں کریں گے بلکہ صرف ہنگامی صورت میں ہی رینجرز کی مدد طلب کی جائے گی‘ اور جن علاقوں میں رینجرز کی آپریشن کی اجازت ہو گی‘ وہ باقاعدہ نوٹی فائی کیے جائیں گے۔
رینجرز کا نام لیتے ہی عام آدمی کے ذہن میں کراچی کا نقشہ آ جاتا ہے جہاں رینجرز تقریباً ساڑھے تین برس سے دہشت گردوں‘ بھتہ خوروں‘ ٹارگٹ کلرز اور دیگر جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ اگرچہ کراچی میں بھی رینجرز کو انہی قوانین اور آئینی دفعات کے تحت کارروائی کرنے کا اختیار ہے‘ جن کے تحت پنجاب میں بھی رینجرز کارروائیاں کریں گے؛ تاہم کراچی اور پنجاب کی صورتحال میں بہت فرق ہے۔ رینجرز اور پولیس کے موجود آپریشن سے پہلے کراچی میں امن و امان کی صورت حال اتنی ابتر تھی کہ سپریم کورٹ کو 2011ء میں از خود نوٹس لے کر صوبائی حکومت کو لا اینڈ آرڈر بحال کرنے کی واضح ہدایات جاری کرنا پڑی۔ اس کے علاوہ کراچی کی پیچیدہ صورت حال میں متعدد ایسے عوامل کارفرما تھے جو پنجاب میں موجود نہیں ہیں‘ مثلاً سندھی اور اردو بولنے والوں کے درمیان کشمکش نے کراچی کو ہی نہیں بلکہ پورے سندھ کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کراچی میں سندھیوں‘ مہاجروں کے علاوہ بلوچوں‘ پختونوں اور پنجابیوں کی موجودگی نے شہر کے لسانی مسئلے کو اور بھی پیچیدہ‘ اور فرقہ وارانہ تشدد کی وارداتوں نے کراچی کے مسئلے کو مزید مشکل بنا دیا ہے‘ اور اس صورتحال سے کالعدم تنظیموں نے فائدہ اٹھا کر صورتحال کو مزید بگاڑ دیا تھا۔ اسی طرح سپریم کورٹ میں لا اینڈ آرڈر صورتحال پر سماعت کے دوران پیش کی گئی شہادتوں کے مطابق کراچی میں سرگرم بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے مسلح عسکری ونگ قائم کر رکھے ہیں‘ جن کے درمیان تصادم نے شہر کی صورتحال کو خطرناک بنا دیا تھا۔
پنجاب میں ایسی صورت حال نہیں ہے۔ نہ تو یہاں لسانی
بنیادوں پر منظم باہمی دست و گریبان سیاسی پارٹیاں ہیں اور نہ صوبے کی بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو ڈرانے دھمکانے یا تشدد کا نشانہ بنانے کے لیے مسلح جھتے قائم کر رکھے ہیں‘ لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ پنجاب دہشت گردی سے پاک سرزمین ہے۔ یہاں بھی دہشت گردوں‘ ان کو مالی امداد اور دیگر سہولتیں فراہم کرنے والوں نے اڈے قائم کر رکھے ہیں‘ بلکہ دہشت گردی اور اس کی بنیاد انتہا پسندی کے مسئلے کا ہمہ پہلو اور عمیق جائزہ لینے والوں کا موقف یہ ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ تشدد اور دہشت گردی میں ملوث تنظیموں سے پنجاب میں اپنے ہیڈکوارٹر قائم کر رکھے ہیں جو ان کے لیے مالی امداد اور نئے ریکروٹ کا اہتمام کرتے ہیں۔ اسی لیے پنجاب میں بھی کراچی جیسے آپریشن کی ضرورت پر زور دیا جاتا رہا ہے۔ چند سیاسی پارٹیوں‘ جن میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف نمایاں ہیں‘ نے پنجاب میں رینجرز کی تعیناتی کا مطالبہ زیادہ زور و شور سے کیا تھا‘ لیکن اس مطالبے کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ یہ سیاسی بنیادوں
پر اٹھایا جا رہا تھا۔ پیپلز پارٹی نے کراچی اور سندھ میں رینجرز کی تعیناتی کی خود درخواست کی تھی‘ لیکن انہیں اعتراض یہ تھا کہ رینجرز اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کر رہے ہیں اور وہ صوبائی انتظامیہ کو اعتماد میں لیے بغیر سرکاری دفتروں اور لوگوں پر چھاپے مارنے میں مصروف ہیں۔ صوبائی حکومت کے نزدیک یہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت سے امتیازی سلوک ہے اور اس کی ذمہ دار وفاقی حکومت ہے جو پنجاب میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور ان کی رسد کے ذرائع کو ختم کرنے کے لیے فوج یا رینجرز کے کسی آپریشن کی اس لیے اجازت نہیں دیتے کہ وہاں مرکز میں برسر اقتدار مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔ جہاں تک پاکستان تحریک انصاف کا تعلق ہے وہ پنجاب میں رینجرز کے آپریشن کے ذریعے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے اس دعویٰ کی قلعی کھولنا چاہتی ہے کہ ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں پنجاب میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجاب میں پولیس کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تقاضوں کے مطابق تربیت دی گئی ہے اور جدید ہتھیاروں سے لیس کیا گیا ہے۔
ان وجوہ کی بنا پر پنجاب میں اب تک رینجرز کی تعیناتی اور آپریشن کو ضروری نہیں سمجھا گیا تھا‘ لیکن 13 فروری کو چیئرنگ کراس لاہور میںپولیس کو ٹارگٹ کرنے والے خود کش دھماکے نے پنجاب میں امن و امان اور دہشت گردی کے خطرے کا ایک بالکل نیا اور تشویشناک نقشہ پیش کیا۔ جتنی آسانی سے ایک خود کش حملہ آور چھ سے آٹھ کلو بارودی مواد سے بھری ہوئی جیکٹ پہن کر ہجوم سے گزر کر پولیس افسران کے پاس پہنچنے میں کامیاب ہوا‘ اس سے یہ عیاں ہو گیا کہ پولیس‘ پنجاب حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے صوبے میں سکیورٹی کی اصل صورتحال سے بالکل ناواقف ہیں۔ لاہور کے خود کش حملے نے نہ صرف صوبے کے عوام کو تشویش میں مبتلا کر دیا بلکہ اس سے انتظامیہ کی بھی آنکھیں کھل گئیں اور انہیں پتہ چلا کہ صوبے اور خاص طور پر شہری علاقوں میں سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے اب تک جو اقدامات کیے گئے‘ وہ ناکافی ہیں۔ لاہور کے دھماکے نے وزیر اعلیٰ اور ان کی انتظامیہ کو یہ سبق سکھایا ہے کہ پنجاب میں دہشت گردی کا خطرہ کم نہیں ہوا‘ بلکہ صوبہ ان کی ہٹ لسٹ پر ہے اور حال ہی میں وفاقی حکومت کی طرف سے چند کالعدم تنظیموں کو نئے ناموں کے ساتھ سرگرم ہونے سے روکنے کے لیے جو اقدامات کیے گئے‘ ان کے پیش نظر ملک میں دہشت گردوں کے حملوں کا خدشہ اور بھی بڑھ گیا ہے۔ پنجاب حکومت اب اس بات پر بھی قائل نظر آتی ہے کہ ایک مستحکم جمہوری اور عوام کی نمائندہ حکومت ہونے کے باوجود صوبے میں دہشت گردی کے خلاف وہ اکیلے کامیاب جنگ نہیں لڑ سکتی اور اسے وفاق کی مدد حاصل کرنا پڑے گی؛ چنانچہ 19 فروری کو لاہور میں پنجاب اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ صوبے میں امن و امان کے قیام اور دہشت گردی کی بیخ کنی کے لیے پنجاب میں رینجرز تعینات کیے جائیں گے۔ حکومت کے اعلان کے مطابق پنجاب میں رینجرز کا آپریشن حال ہی میں فوج کی طرف سے شروع کئے جانے والے ملک گیر آپریشن ''ردالفساد‘‘ کا حصہ ہو گا‘ اور چونکہ اپنی سمت اور مقاصد کے اعتبار سے آپریشن ''ردالفساد‘‘ ایک بہت وسیع آپریشن ہے اس لیے پنجاب میں بھی رینجرز کے آپریشن میں ٹارگٹ کی فہرست لمبی ہو گی۔ یہ بھی امید کی جا سکتی ہے کہ پنجاب میں رینجرز کا آپریشن سندھ کی طرح صوبائی اور وفاقی حکومت کے درمیان متنازع صورت اختیار نہیں کرے گا اور اسے اپنے اہداف کے حصول میں کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے کراچی اور سندھ میں آپریشنز سے حاصل کردہ اسباق کو پیش نظر رکھا جائے گا۔