"DRA" (space) message & send to 7575

پاکستان اورمسلم ممالک کا ملٹری اتحاد

پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان کے ایک بیان کے مطابق پاکستان سعودی عرب کی قیادت میں تشکیل پانے والے 34ملکی فوجی اتحاد کا باقاعدہ رکن بن گیا ہے۔ سعودی عرب نے اس اتحاد کے قیام کا اعلان15دسمبر 2015کو کیا تھا اور اس میں شامل جن 34ممالک کا نام لیا گیا تھا۔ ان میں پاکستان بھی شامل تھا۔ تاہم اس وقت پاکستان کی طرف سے اس اتحاد میں شمولیت پر حیرانگی کا اظہار کیا گیا تھا۔ پاکستان کے اعلیٰ حکام نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے ابھی اس اتحادمیں شمولیت کا حتمی فیصلہ نہیں کیا۔ اس کی وجہ غالباً ملک میںممکنہ منفی ردعمل تھا کیونکہ عام تاثر یہ تھا کہ مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس کے خطوں میں موجودہ سیاسی کشمکش کے تناظر میں یہ اتحاد امریکہ اور اسرائیل کے ایما پر ایران کے خلاف قائم کیا جا رہا ہے تاہم سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے اس ملٹری اتحاد کے بطور کمانڈر انچیف تقرری سے یہ بات سامنے آ چکی تھی کہ پاکستان اور سعودی عرب اس مقصد کے لیے رابطے میں ہیں۔ دفتر خارجہ کے بیان نے ان قیاس آرائیوں کی تصدیق کر دی ہے۔
اگرچہ اس فوجی اتحاد کے خدو خال ابھی واضح طور پر پیش نہیں کئے گئے ‘ نہ ہی اس کا کوئی ڈھانچہ سامنے آیا ہے تاہم مغربی دنیا میں اس اقدا م کو نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری اسلامی دنیا میں آئندہ اہم سیاسی تبدیلیوں کا پیش خیمہ قرار دیا جا رہا ہے۔ بعض حلقوں نے اسے امریکہ اور یورپی ممالک پر مشتمل ''نیٹو‘‘ کے مماثل قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں شامل تمام 34ممالک اسلامی ممالک کی تنظیم برائے تعاون او آئی سی کے بھی رکن ہیں۔ یاد رہے کہ او آئی سی کے قیام(1969ء) میں بھی سعودی عرب کے شاہ فیصل نے لیڈنگ کردار ادا کیا تھا مگر دوسری طرف یہ بات بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ او آئی سی کے باقی23ممالک اس اتحاد میں شامل نہیں ہیں اور ان میں الجیریا ‘ ایران اور عراق جیسے اہم اسلامی 
ممالک بھی شامل ہیں۔ اسی طرح اس اتحاد کو ''نیٹو‘‘ سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی۔ نیٹو یعنی نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن 1949ء میں ابتدائی طور پر 12ممالک کے درمیان ایک معاہد ے کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا تھا۔ بعد میں اس کی تعداد پندرہ ہو گئی اور اب نیٹو میں امریکہ ‘ کینیڈا سمیت یورپ کے 29ممالک شامل ہیں۔ نیٹو کا ایک باقاعدہ اور مربوط سٹرکچر ہے اور اس کے ایک آرٹیکل کے مطابق نیٹو کے کسی ایک رکن پر حملہ تمام ممالک پر اجتماعی حملہ تصور کیا جاتا ہے۔''نیٹو‘‘ کا مقصد بھی واضح تھا ‘دوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی یورپ پر کسی بھی روسی حملے کو روکنا۔ جہاں تک اسلامی اتحاد کے مقصد کا تعلق ہے اس کے بارے میں ابھی تک جو کہا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اس کا مقصد انسدادِ دہشت گردی ہے لیکن سعودی عرب کے نائب ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلیمان نے کہا ہے کہ اس کا مقصد ہر اس فریق کا مقابلہ کرنا ہے جو ''اتحاد‘‘ کے راستے میں رکاوٹ بن کر کھڑا ہو گا۔ اسی طرح وزیر خارجہ عبدالجبار کے ایک بیان کے مطابق اتحاد کے سامنے تمام آپشنز کھلے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ القائدہ اور داعش کے مقابلے کے علاوہ سعودی عرب اس اتحاد کو اپنی سالمیت اور مفاد کے تحفظ کے لیے ہر اس قوت کے خلاف استعمال کر سکتا ہے جو اس کے راستے میں آنے کی کوشش کرے گی۔ اس بنا پر اکثر مبصرین اس رائے کے حامی ہیں کہ سعودی عرب اس اتحاد کو جزیرہ نما عرب اور خلیج فارس کے خطوں میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔ ان مبصرین کی رائے میں گزشتہ چند برسوں کے دوران ہی مشرق وسطیٰ ‘ شمال مغربی افریقہ اور خلیج فارس کے علاقوں میں چند ایسے واقعات اور تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جن کی وجہ سے سعودی عرب تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا اور پوری اسلامی دنیا میں معزز ترین مقام رکھنے والا ملک ہونے کے باوجود اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتا ہے۔ ان
واقعات میں 2011ء میں شروع ہونے والی عوامی احتجاج کی تحریک جسے ''عرب سپرنگ‘‘ (Arab Spring) بھی کہا جا سکتا ہے سعودی عرب کے لیے خصوصی طور پر تشویش کا باعث ہے کیونکہ اس کے اثرات تیونس ‘ لیبیااور مصر سے لے کر یمن اور بحرین تک محسوس کئے جا رہے ہیں۔ دوسری وجہ ... عراق اور شام میں ''داعش‘‘ کی پیش قدمی اور وسیع علاقوں میں قبضہ کرنے کے بعد ''خلافت اسلامیہ‘‘ کے قیام کو بھی سعودی عرب اپنی سالمیت کے خلاف ایک سنگین خطرہ تصور کرتا ہے کیونکہ ''داعش‘‘ نے دیگر عرب ملکوں کے علاوہ سعودی عرب کے خلاف بھی اقدامات کا اعلان کر رکھا ہے شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت سے برسرپیکار حزب مخالف کی فوجوں کو سعودی عرب کی براہ راست حمایت حاصل ہے اور انہیں صدر بشار الاسد کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے سعودی امداد بھی فراہم کی جا رہی ہے۔ لیکن چھ برس سے زائد عرصہ کی کوششوں کے باوجود اُسے شام میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ عراق میں ایک شیعہ حکومت کے قیام اور یمن اور بحرین میں شیعہ آبادی کی طرف سے حکومت کے خلاف احتجاج اور بغاوت کو بھی سعودی عرب اپنی سالمیت کے لیے خطرہ سمجھتا
ہے۔34اسلامی ملکوں پر مشتمل''اسلامی فوجی اتحاد‘‘ کے قیام سے قبل سعودی عرب نے ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے مصر اور خلیج فارس کی عرب ریاستوں مثلاً متحدہ عرب امارات قطر‘ اور بحرین سے مل کر چند اقدامات کیے تھے ۔ ان میں 2013میں جی سی سی کے رکن ممالک میں اندرونی خلفشار اور بغاوت پر قابو پانے کے لیے جی سی سی پولیس کا قیام اور 2015ء میں سعودی عرب اور مصر کی مشترکہ کمانڈ کے تحت 40,000افراد پر مشتمل اینٹی ٹیرر فورس کی تشکیل بھی شامل تھی لیکن سعودی عرب کی نظر میں یہ اقدامات موثر ثابت نہیں ہو سکے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ سعودی عرب اور مصر کے درمیان علاقائی سلامتی کے بارے میں نقطہ نظر کا اختلاف ہے۔ مصر کے لیے یمن کے مقابلے میں لیبیا کے حالات زیادہ تشویش ناک ہیں۔ بعض ذرائع کے مطابق مصر کی موجودہ حکومت نہ صرف یمن میں عرب ممالک کی مشترکہ فوج کی مداخلت کے خلاف تھی بلکہ شام میں بھی صدر بشار الاسد کی حکومت کو ختم کرنے کی سعودی عرب کی پالیسی کی حامی نہیں ہے۔ اس وقت یمن میں سعودی عرب کی قیادت میں ایک مشترکہ عرب فوج حوثی قبائل کی بغاوت کو کچلنے میں مصروف ہے، لیکن متحدہ عرب امارات اور بحرین کے علاوہ اس مشترکہ آپریشن میں کوئی عرب ملک بھر پور کردار ادا نہیں کر رہا‘ اور تمام بوجھ سعودی عرب کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ یمن کی صورت حال سے سعودی عرب مطمئن نہیں اور اسے اپنی حکمت عملی کے تحت پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے سعودی عرب حوثی قبائل کی بغاوت کو جلداز جلد اور مکمل طور پر ختم کرنا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے سعودی عرب ایک ایسی فورس کے قیام کی کوشش کر رہا ہے جسے نہ صرف زیادہ سے زیادہ اسلامی ملکوں کی حمایت حاصل ہو بلکہ ایک فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے
لیے ضروری وسائل اور قوت کی مالک بھی ہو۔ بعض مبصرین اسلامی فوجی اتحاد کو اس وقت یمن میں لڑنے والی مشترکہ عرب فوج کی ہی ایک وسیع شکل قرار دیتے ہیں ۔ پاکستان نے اس سے قبل یمن میں اپنی فوج بھیجنے سے انکار دیا تھا‘ لیکن اب نہ صرف اس اتحاد کی باقاعدہ رکنیت قبول کر لی ہے‘ بلکہ اپنی فوج کے ایک سابق سپہ سالار جنرل(ریٹائرڈ) راحیل شریف کو اس کی مشترکہ فوج کی قیادت سنبھالنے کی بھی اجازت دے دی ہے۔ ملک کے اندر اس اقدام پر سخت تنقید کے جواب اور اپنے اقدام کے جواز میں موجودہ حکومت جو دلائل پیش کر رہی ہے‘ وہ وہی ہیں جو پاکستان کے سابق حکمرانوں نے آج سے ساٹھ سال قبل معاہدہ بغداد(بعد میں سینٹو) میں شمولیت کے دفاع میں پیش کئے تھے۔ اس وقت بھی یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان کا یہ فیصلہ اسلامی اتحاد کی منزل کی طرف ایک قدم ہے۔ حالانکہ یہ سراسر جھوٹ تھا۔ پاکستان نے 1955میں معاہدہ بغداد میں شمولیت امریکہ کے دبائو میں آ کر اختیار کی تھی اور تاریخ گواہ ہے کہ ملک کو اس غلط اور عاقبت نا اندیشانہ فیصلے کی وجہ سے سخت سیاسی اور سفارتی نقصان اٹھانا پڑا‘ قائد اعظم کی ہدایات کے تحت مسئلہ فلسطین پر عرب موقف کی دو ٹوٹ اور بھر پور حمایت کر کے پاکستان نے اپنی آزادی کے بعد ابتدائی برسوں میں عربوں کی جو محبت اور خیر سگالی حاصل کی تھی‘ وہ سب ختم ہو گئی اور عرب ممالک پاکستان کو بھی امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس اور اسرائیل کی صف میں کھڑا ایک مخالف ملک تصور کرنے لگے۔ اب بھی پاکستان ایک ایسے فوجی اتحاد میں شمولیت اختیار کرنے جا رہا ہے جس کے بارے میں خود پاکستان کے دفتر خارجہ کے مطابق ابھی تک ٹی او آر طے نہیں ہوئے۔ یہ ایک ایسا اتحاد ہے جس کا ابھی تک نہ صرف کوئی مقصد واضح طور پر سامنے آیا ہے اور نہ کسی آپریشنل پلان کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کی اس میں شمولیت ناقابل فہم ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں