مُلک کے آئندہ قومی انتخابات میں ابھی تقریباً ایک سال کا عرصہ باقی ہے لیکن لگتا ہے سیاسی پارٹیوں نے انتخابی مہم کا آغاز ابھی سے کر دیا ہے۔ اگرچہ لیبل عوامی مسائل مثلاً لوڈشیڈنگ ‘ پانی کی کمی‘ کرپشن اور روزمرہ استعمال کی اشیا کی عدم دستیابی کا استعمال کیا جا رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ہو یا پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ (ن) ہو یا جماعت اسلامی اورایم کیو ایم سبھی پارٹیاں جلسے‘ جلوسوں ‘ ریلیوں اوردھرنوں کے ذریعے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے علاوہ رائے عامہ کواپنے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ جماعت اسلامی‘ جس نے گزشتہ ایک ہفتے سے زائد عرصہ سے کراچی الیکٹرک کے خلاف دھرنا دے رکھا تھا‘ کا دعویٰ ہے کہ اس سرگرمی سے سیاست کا کوئی تعلق نہیں‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی کراچی میں اپنے کھوئے ہوئے مقام کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس کے امیرسراج الحق صاحب بھی ملک کے مختلف حصوں میں جلسے جلوسوں اوردھرنوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کرپشن اور موجودہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے 28اپریل کو اسلام آباد میں جلسہ کر کے اپنی مہم کا آغاز کیا تھا۔ تحریک کے چیئرمین عمران خان کے مطابق اس مہم کا مقصد وزیر اعظم نواز شریف کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنا ہے۔ اسلام آباد کے بعد عمران خان نے کراچی میں ایک ریلی سے خطاب کیا۔ اس کے علاوہ دواورتقاریب میں شرکت بھی کی۔ ماضی کے برعکس عمران خاں نے اس دفعہ کراچی میں زیادہ عرصہ یعنی دو دن کے لیے قیام کیا اور جاتے ہوئے وعدہ کر گئے کہ وہ پاکستان کے اپنے سب سے بڑے شہر اور کاروباری مرکز کا پھر دورہ کریں گے۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو دیکھ کر پیپلز پارٹی بھی میدان میں کود پڑی ہے۔ ایک طرف وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اندرون سندھ مختلف مقامات پر جلسے اور جلوسوں سے خطاب کر رہے ہیں‘ تو دوسری طرف سابق صدر آصف علی زرداری پنجاب اورخیبر پختون خوا میں پارٹی اجتماعات سے خطاب کر رہے ہیں۔ اسی طرح حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) بھی کسی لحاظ سے پیچھے نہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے 29اپریل کو اوکاڑہ میں ایک جلسے سے خطاب کیا۔ اس موقع؎ پر انہوں نے عمران خان کی طرف سے حکومت اور اپنی ذات پر حملوں کا جواب دیا لیکن مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنما بھی اس سیاسی ہنگامہ آرائی میں برابر کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان میں خیبر پختون خوا مسلم لیگ (ن) کے نئے صدر انجینئر امیر مقام سب سے آگے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف صوبے میں مختلف مقامات پر عوامی اجتماعات سے خطاب کیا‘ بلکہ ملک کے شمالی اورقبائلی علاقوں میںکئی جلسے اور جلوس بھی نکالے۔
دوسری طرف سابق صدر پرویز مشرف بھی کافی فعال نظر آتے ہیں۔ وہ نجی ٹیلی ویژن چینل کی وساطت سے ملک کی سیاست اور اس میں اپنے ممکنہ کردار کے بارے میں مختلف احکامات اورآپشنزپر بھر پور اظہار خیال کر رہے ہیں۔ ان کا مسئلہ صرف یہ نہیں کہ وہ ملک سے باہر ہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ جس سیاسی پارٹی کی قیادت کا وہ دعویٰ کرتے ہیں وہ ملک کے کسی کونے میں نظر نہیں آتی۔ اس کے باوجود وہ عوام کے سامنے ملک کا نجات دہندہ بن کر پیش ہورہے ہیں۔ مگر سیاست میں کھڑا ہونے کے لیے ان کی ٹانگوں میں جان نہیں۔ اس لیے وہ کبھی ایم کیو ایم اورکبھی عمران خان کی پارٹی کی بیساکھیوں کا سہارا لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آج کل ملکی سیاست کے بارے میں ان کے تبصروں اور بیانات کا نچوڑ یہ ہے کہ صرف ان کی ذات ہی پاکستان کو موجودہ مسائل کے بھنور سے نکال سکتی ہے۔ اس لیے وہ بار بار ایک تیسری قوت کے قیام پر زوردے رہے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ تیسری قوت ان کی راہنمائی میں ہی اپنا مقصد یعنی 2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے خلاف کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔
پرویز مشرف کے علاوہ قومی سیاست میں بھر پور شرکت کرنے والی ایک اور شخصیت سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی ہے۔ وہ بھی ملک کے مختلف حصوں کا دورہ کر کے اہم سیاسی رہنمائوں اور سیاسی ورکروں سے ملاقات کر رہے ہیں۔ اندرون سندھ جن رہنمائوں سے انہوں نے ملاقات کی ان میں قوم پرست لیڈر ایاز لطیف پلیجو‘ ڈاکٹر قادر مگسی‘ سید جلال محمد شاہ اور ممتازعلی بھٹو شامل ہیں۔ سندھی قوم پرست ایم کیو ایم پرسندھ کی تقسیم اورایک الگ مہاجر صوبے کے قیام کی کوشش کا الزام عائد کرتے ہیں‘ لیکن وہ صوبہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جگہ ایک متبادل قیادت کو بھی لانا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ کسی بھی ایسی طاقت سے مل سکتے ہیں جو یہ خلا پُر کر سکے‘ لیکن ابھی تک ایسی کسی سیاسی قوت کے ابھرنے کے آثار نظر نہیں آتے۔ اس لیے سندھ کی سیاسی صورت حال ابھی تک واضح نہیں اور یہ کہنا مشکل ہے کہ صوبے میں پیپلز پارٹی کی جگہ کون سی سیاسی پارٹی لے سکتی ہے۔ حکومت مخالف سیاسی پارٹیاں‘ جن میں تحریک انصاف‘ پیپلز پارٹی‘ جماعت اسلامی اور مسلم لیگ(ق) اہم ہیں‘ موجودہ سیاسی ہیجان کو ایک ملک گیر حکومت مخالف تحریک کا نام دے رہی ہیں‘ لیکن پاکستان کی سابق حکومت مخالف تحریکوں سے اگر موجودہ سیاسی ہلچل کا موازنہ کریں تو یہ کسی بھی لحاظ سے ایک ملک گیر تحریک کے معیار پر پورا نہیں اترتی۔ پاکستان کی تاریخ میں چار حکومت مخالف ملک گیر تحریکیں اہم تھیں:1968-69ء کی ایوب خاں کے خلاف تحریک‘1977ء کی نظام مصطفی تحریک‘ 1982-83میں ایم آر ڈی کی تحریک اور 2007ء میں معزول چیف جسٹس ‘ جسٹس افتخار محمد کی بحالی کی تحریک۔ ان تحاریک کی نمایاں خصوصیات میں زیادہ سے زیادہ پارٹیوں کے درمیان اتحاد اور ایک ون پوائنٹ ایجنڈے پر اتفاق تھا‘ لیکن نوازشریف کوکرسی سے نیچے اتارنے کے لیے حزب مخالف کی سب سے اہم پارٹی تحریک انصاف سولو فلائٹ لے چکی ہے۔ یہ درست ہے کہ 23اپریل کو لاہور میں مسلم لیگ (ق)‘ سنی اتحاد کونسل‘ مجلس وحدت المسلمین اور ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک کے درمیان حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لیے ایک سیاسی اتحاد پر دستخط ہوئے تھے۔ یہ بھی سچ ہے کہ یہ اتحاد جماعت اسلامی کو ساتھ ملانے کی کوشش کر رہا ہے اور اس مقصد کے لیے چودھری شجاعت حسین کی قیادت میں ایک وفد نے منصورہ (لاہور) میں امیرجماعت اسلامی سراج الحق سے ملاقات بھی کی تھی‘ لیکن جماعت نے ہاں یا نہ میں جواب دینے کے بجائے اس پر غور کرنے کے لیے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ کی قیادت میں ایک کمیٹی قائم کر دی؛ تاہم جس طرح جماعت اسلامی کراچی میں لوڈشیڈنگ اور اووربلنگ کے خلاف اکیلے ہی دھرنے پر ڈٹی ہوئی ہے اور سراج الحق صرف جماعت کے پلیٹ فارم سے عمران خان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے نوازشریف کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں‘ اُس کے پیش نظر اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ جماعت اسلامی چودھری شجاعت کی قیادت میں تشکیل پانے والے اتحادمیں شرکت کر سکے۔ چونکہ انتخابات میں ابھی ایک سال کا لمبا عرصہ پڑا ہے، اس لیے اس موقع پر کوئی بھی پارٹی‘ کسی دوسری پارٹی کا دُم چَھلاّ بن کر سیاسی عمل میں اپنی انفرادیت کھونے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔ اسی طرح اگرچہ تحریک انصاف‘ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی ''گو نواز گو‘‘ کا نعرہ لگا کر وزیر اعظم کے استعفے پر اصرار کر رہی ہیں‘ لیکن کئی سیاسی پارٹیاں مثلاً جمعیت علمائے اسلام(ف)‘ اے این پی‘ پختون خوا ملی عوامی پارٹی‘ بلوچ نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم اس مطالبے سے متفق نہیں۔ اگرچہ یہ علاقائی پارٹیاں ہیں مگر قومی سیاست میں ان پارٹیوں کی اہمیت سے انکارنہیں کیا جا سکتا۔ ان کی غیر حاضری کی وجہ سے موجودہ سیاسی صورتحال کو ایک ملک گیر تحریک کا نام نہیں دیا جا سکتا۔
تو پھر اس کی نوعیت کیا ہے؟ یہ سب سیاسی پارٹیوں کی اپنے طور پر الیکشن مہم کا حصہ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان پارٹیوں نے انتخابی منشور پیش کرنے سے پہلے ہی انتخابی مہم شروع کر دی ہے۔ جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے اس کے پیش نظر2018ء کے انتخابات کے علاوہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق قائم کی جانے والی جائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم(جے آئی ٹی) پر دبائو ڈالنا بھی ہو سکتا ہے‘ کیونکہ عمران خان کو معلوم ہے کہ اگر جے آئی ٹی سے بھی نواز شریف کو کلین چٹ مل گئی تو2018ء کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ کی جیت کو کوئی نہیں روک سکے گا۔