"DRA" (space) message & send to 7575

جے آئی ٹی کے بعد…

سپریم کورٹ نے اپنے 20 اپریل کے فیصلے کی روشنی میں پاناما لیکس کی مزید اور تفصیلی تفتیش کے لیے 6 رکنی مشترکہ تفتیشی ٹیم جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے۔ اس میں وفاق کے اہم تفتیشی اور مالی اداروں مثلاً ایف آئی اے‘ ملٹری انٹیلی جنس‘ آئی ایس آئی‘ سٹیٹ بینک‘ سکیورٹیز اور ایکس چینج آف پاکستان اور نیب سے افسران شامل کئے گئے ہیں۔ ان افسران کا انتخاب اُن کی اہلیت‘ تجربے اور اچھی شہرت کی بنا پر کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے تین فاضل ججوں پر مشتمل خصوصی بنچ بھی تشکیل دیا ہے‘ جس کی سربراہی جسٹس اعجاز افضل کریں گے۔ دیگر دو جج صاحبان جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجازالاحسن اس بنچ کے رکن ہوں گے۔ اس بنچ کے فرائض منصبی میں پاناما کیس کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہے۔ جے آئی ٹی کو آئین اور قانون کے مطابق تمام اختیارات حاصل ہوں گے۔ سپریم کورٹ نے حکومت اور ریاست کے تمام اداروں کو ٹیم سے تعاون کرنے کی ہدایت کی ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے جے آئی ٹی کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے 20 اپریل کے فیصلے کی روشنی میں اپنی تفتیش مکمل کرکے مقررہ وقت (ساٹھ دن) کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے۔ کام کی رفتار کا جائزہ لینے کے لیے جے آئی ٹی کو ہر پندرہ روز بعد اپنی پراگریس رپورٹ بنچ کے سامنے پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔
جے آئی ٹی کی تشکیل اور اس کی تسلی بخش کارکردگی کو یقینی بنانے کے لیے سپریم کورٹ کی طرف سے کئے گئے مذکورہ بالا اقدامات کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ پاناما لیکس کے مسئلے پر اپوزیشن خصوصاً تحریک انصاف کی طرف سے حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک تھم جائے گی‘ اور اس کے اگلے مرحلے کا آغاز جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد کیا جائے گا۔ یعنی عمران خان نے وزیر اعظم نواز شریف سے استعفیٰ طلب کرنے کی جو مہم شروع کر رکھی تھی وہ فی الحال ملتوی کر دی جائے گی اور جے آئی ٹی کی رپورٹ کا انتظار کیا جائے گا‘ لیکن اسلام آباد میں 28 اپریل کو جلسہ منعقد کرکے عمران خان نے جے آئی ٹی سے پہلے ہی ''گو نواز گو‘‘ کے نعرے پر اپنی تحریک کا آغاز کر دیا تھا۔ اس تحریک کے سلسلے میں وہ کراچی اور نوشہرہ (کے پی کے) میں بھی جلسے منعقد کر چکے ہیں‘ جہاں انہوں نے اپنے روایتی انداز میں وزیر اعظم سے فوری طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔ اس تحریک میں اگرچہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی ہم قدم نہیں‘ تاہم موخرالذکر نے اپنے طور پر سندھ اور پنجاب میں مختلف مسائل مثلاً بجلی اور پانی کی کمی کے حوالے سے حکومت کے خلاف دھرنوں اور احتجاجی ریلیوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ یاد رہے کہ عدالت کے پانچ رکنی بنچ میں دو فاضل جج صاحبان نے آئین کی دفعات 62 اور 63 کے تحت وزیر اعظم کو صادق اور امین ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ ان دو جج صاحبان کی رائے کو بنیاد بنا کر عمران خان کی تحریک انصاف اور اپوزیشن کی دیگر سیاسی جماعتوں مثلاً پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے وزیر اعظم سے استعفیٰ طلب کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ ان دو جج صاحبان کے اختلافی نوٹ کے بعد وزیر اعظم نواز شریف اپنے عہدے پر برقرار رہنے کا جواز کھو چکے ہیں اور انہیں فوری طور پر مستعفی ہو جانا چاہیے۔ گزشتہ ماہ لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے قراردادوں کے ذریعے وزیر اعظم سے استعفے کا جو مطالبہ کیا تھا‘ اس کی بنیاد بھی سپریم کورٹ کے ان دو جج صاحبان کا اختلافی فیصلہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن قانونی لحاظ سے وزیر اعظم کی پوزیشن مضبوط ہے۔ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کی روشنی میں وہ اپنے عہدے سے نااہل نہیں ہوتے۔ جے آئی ٹی کے سامنے تفتیش کے لیے پیش ہونے کی ہدایت کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ انہیں وزارتِ عظمی کا عہدہ چھوڑنا پڑے گا اگر ایسا ہوتا تو عدالت اس سلسلے میں کوئی واضح حکم صادر کرتی۔ اس کے علاوہ جے ٹی آئی کی تشکیل اور اس کے عمل کو صاف اور شفاف رکھنے کے لیے سپریم کورٹ کی طرف سے جو بھرپور اور موثر اقدامات کئے گئے‘ ان کے بعد وزیر اعظم سے فوری مستعفی ہونے کے مطالبے میں وہ جان نہیں رہتی کیونکہ جے آئی ٹی کے کام کو سپریم کورٹ کی طرف سے عملاً اپنی نگرانی میں لینے اور اسے نہ صرف تمام وسائل مہیا کرنے بلکہ وسیع اختیارات تفویض کرنے کے بعد حزب مخالف کے اس مطالبے کی اخلاقی اور قانونی بنیاد کمزور ہو جاتی ہے کہ جے ٹی آئی کی رپورٹ سے پہلے ہی وزیر اعظم کو اپنے عہدے سے الگ ہو جانا چاہیے۔ 5 مئی کو اسلام آباد میں پاکستان بار کونسل‘ جو پاکستانی وکلا برادری کا اعلیٰ ترین ادارہ ہے‘ کے زیر اہتمام ملک بھر سے وکلا کے ایک نمائندہ اجلاس میں اکثریت نے وزیر اعظم سے استعفیٰ طلب کرنے کے مطالبے کو مسترد کر دیا۔ اس اجلاس میں ملک بھر سے بار ایسوسی ایشنز کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔ قرارداد میں کہا گیا کہ جے ٹی آئی کی رپورٹ کا انتظار کرنا چاہیے‘ اس سے قبل وزیر اعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ جمہوریت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا؛ تاہم پاکستان بار کونسل کے اس فیصلے سے وزیر اعظم کے استعفیٰ کی تحریک کمزور نہیں ہوئی‘ بلکہ ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں‘ خصوصاً رمضان کے مقدس مہینے کے بعد‘ اس کی شدت میں اضافہ ہو جائے کیونکہ لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے پاکستان بار کونسل کی قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے 20 مئی کو لاہور میں قومی سطح پر وکلا کے ایک نمائندہ اجلاس کے انعقاد کا فیصلہ کیا ہے۔ اس اجلاس میں آئندہ لائحہ عمل کا فیصلہ کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے وزیر اعظم کو مستعفی ہونے کے لیے ایک ماہ کا الٹی میٹم دے رکھا ہے‘ جس کی مدت 20 مئی کو ختم ہو رہی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی قیادت پاکستان بار کونسل کے فیصلے کے باوجود جے آئی ٹی کی رپورٹ کا انتظار کئے بغیر 20 مئی کے بعد وزیر اعظم سے استعفیٰ کے حصول کے لیے ملک گیر تحریک چلانے پر پوری طرح تلی ہوئی ہے اور اس ضمن میں ان کا دعویٰ ہے کہ 1977ء کی بھٹو کے خلاف تحریک اور 2007ء کی چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کے لیے تحریک‘ دونوں ماند پڑ جائیں گی۔
اس کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی نے بھی حکومت کے خلاف تحریک منظم کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری پچھلے دنوں لاہور میں قیام پذیر تھے۔ اس دوران انہوں نے پنجاب کے مرکزی حصے سے تعلق رکھنے والے اہم رہنمائوں مثلاً قمر زمان کائرہ‘ منظور وٹو‘ لطیف کھوسہ اور فیصل کنڈی سے ملاقاتیں کیں اور حکومت کے خلاف خصوصاً وزیر اعظم کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنے کے لیے تحریک تیز کرنے پر مشورہ کیا۔ زرداری صاحب نے پارٹی کارکنوں پر بھی زور دیا کہ وہ ہر شہر اور علاقے میں ہر سطح پر لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے حکومت کے خلاف تحریک تیز کر دیں۔ موجودہ سیاسی صورتحال کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ حکومت اور وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف جماعت اسلامی کے لب و لہجے میں غیر معمولی اور غیر متوقع تیزی آ گئی ہے۔ مختلف مبصرین اس کی تشریح مختلف پہلوئوں سے کر رہے ہیں۔ بعض کے نزدیک جماعت اسلامی نے آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ نون کے ساتھ کسی قسم کے اتحاد کے امکانات کو ختم کر دیا ہے۔ لیکن کچھ دوسرے مبصرین اسے جماعت کی طرف سے اپنی بارگیننگ پوزیشن مضبوط بنانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں‘ کیونکہ سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ کی سربراہی میں جماعت کا طاقتور گروپ عمران خان کی تحریک انصاف کے مقابلے میں مسلم لیگ نون کو جماعت کا بہتر اور قدرتی حلیف سمجھتا ہے۔ اس رائے کو اس حقیقت سے بھی تقویت حاصل ہوتی ہے کہ سنٹرل پنجاب میں جماعت اسلامی مسلم لیگ کے ساتھ اتحاد کئے بغیر نمایاں انتخابی کامیابی حاصل نہیں کر سکتی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کا ایک حصہ جماعت کے ساتھ اتحاد سے بیزار ہے۔ خاص طور پر کراچی میں گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کی مایوس کن کارکردگی کی وجہ جماعت اسلامی کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ نون کا ایک دھڑا جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مقابلے میں جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کرکے زیادہ خوشی محسوس کرے گا۔ اس وقت نہ تو جماعت‘ تحریک انصاف اور نہ مسلم لیگ نون جمعیت علمائے اسلام کا اتحاد کسی نظریاتی بنیاد پر قائم ہے بلکہ یہ صف آرائی خالصتاً سیاسی موقع پرستی کی پیداوار ہے۔ اس کا مقصد پاناما کیس کی آڑ میں مخصوص سیاسی مقصد حاصل کرنا ہے۔ عمران خان ہر حالت میں نواز شریف کی چھٹی چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے سراج الحق کو اپنے ساتھ ملایا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف عمران خان کی اس کوشش کو ناکام بنانا چاہتے ہیں اس لیے انہوں نے مولانا فضل الرحمن کو اپنا اتحادی بنا رکھا ہے۔ جے ٹی آئی کی تشکیل اور اس کی کارروائی کے شروع ہونے کے باوجود اگر تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے حکومت کے خلاف تحریک میں تیزی آتی ہے تو اس پر کسی کو حیرانگی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ پاناما لیکس شروع سے ہی ایک سیاسی مسئلہ تھا اور یہ سیاسی مسئلہ ہی رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں