2013 ء کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ کی حیثیت سے حصہ لیتے ہوئے جناب محمد نوازشریف نے اعلان کیا تھا کہ اگر وہ وزیراعظم بن گئے تو ان کی حکومت کی پہلی ترجیح اپنے ہمسایہ ممالک خصوصاً بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا ہوگی۔ انتخابات میں جب انہیں کامیابی حاصل ہوئی اور وہ وزیراعظم منتخب ہوگئے تو انہوں نے ا پنے اس عزم کو دہرایا بلکہ کہا کہ عوام نے بھاری اکثریت سے مجھے کامیاب کرکے بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے مینڈیٹ دیا ہے ۔ اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان غلط فہمیوں اور بد گمانیوں کو دور کرنے کے علاوہ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں اور آنے جانے کی سہولتوں میں اور بھی بہتری لانا چاہتے ہیں لیکن چار سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد پاکستان کے نہ صرف ان دونوں اہم ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بدستور کشیدہ ہیں بلکہ ایران کے ساتھ تعلقات پر بھی سرد مہری کا عنصر غالب آتا جارہا ہے ۔ اگرچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کے بگاڑ میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں بلکہ مئی 2014 ء میں وزیراعظم نوازشریف نے نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کرکے ، پاکستان کی طرف سے غیر معمولی خیر سگالی کا مظاہرہ کیا تھا لیکن جولائی 2014 ء میں بھارتی حکومت نے خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر طے شدہ بات چیت کو یک طرفہ طور پر منسوخ کرکے اس خیر سگالی کی بنیاد پر باہمی تعلقات کو مزید بہتر بنانے کا خود موقع گنوا دیا۔ اس کے بعد دو طرفہ بات چیت کو دوبارہ شروع کرنے کا ایک اور پروگرام جنوری 2016 ء میں پٹھانکوٹ پر دہشت گردی کے حملے کی وجہ سے ناکام ہوگیا۔ لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے پروگرام کو جنوبی ایشیا کے ریڈار کی سکرین سے آف کرنے میں مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال سب سے نمایاں کردار ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کشمیر کے نوجوان حریت پسند برہان وانی کی شہادت کے بعد وادی میں گزشتہ تقریباً 9 ماہ سے بھارتی سکیورٹی فورسز اور نہتے کشمیری عوام کے درمیان محاذ آرائی جاری ہے ۔ اس محاذ آرائی میں بھارت کی قابض سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں درجنوں کشمیری نوجوان شہادت پا چکے ہیں اور سینکڑوں جیل میں محبوس ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کے لئے مزید خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت سے مذاکرات کیلئے پہل کرنا ممکن نہیں۔ اب پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کا انحصار بھارت پر ہے اور اسے کشمیر کے بارے میں اپنے موجودہ موقف اور پالیسی میں تبدیلی لا کر مذاکرات کے لئے حالات کو سازگار بنانا چاہئے۔ تاہم پاکستان کو بھی اس کے لئے جو موقع دستیاب ہو اس سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہئے۔ خواہ یہ موقعہ بیک چینل ڈپلومیسی کی صورت میں حاصل ہو یا دونوں ملکوں کی اعلیٰ سطح کی سیاسی قیادت کے درمیان کسی تیسرے فریق کے ذریعے رابطے کا قیام ہو۔ سنگین اور حل طلب مسائل کی موجودگی کے باوجود پاکستان اور بھارت کے درمیان اچھی ہمسائیگی کی بنیاد پر معمول کے مطابق تعلقات کا قیام انتہائی ضروری ہے کیونکہ یہ تعلقات دونوں ملکوں کے عوام اور پورے خطے کے امن اور استحکام کے مفاد میں ہیں۔ دونوں ملکوں کے عوام کی بھاری اکثریت بھی ان تعلقات کے حق میں ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بین الاقوامی برادری کی طر ف سے بھی دونوں ملکوں پر باہمی کشیدگی کم کرکے مذاکرات شروع کرنے پر زور دیا جارہا ہے ۔ اس لئے جنوبی ایشیا میں پاکستانی ڈپلومیسی کا اولین اور سب سے اہم صرف ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کے خوشگوار ، کشیدگی سے پاک اور نامل حالت میں رکھنا ہونا چاہئے لیکن ہمارے تعلقات نہ صرف بھارت کے ساتھ دن بدن کشیدہ ہو رہے ہیں، بلکہ مغربی سرحدوں پر افغانستان اور ایران کے ساتھ تعلقات میں بھی تنائو اور تلخی پیدا ہو رہی ہے۔ گزشتہ دنوں بلوچستان کے ساتھ ملنے والی افغان سرحد کے مقام چمن پر ، دونوں ملکوں کے درمیان مسلح تصادم میں دونوں طرف قیمتی جانوں کا نقصان ہوا۔ اس تصادم کی وجہ سے پاک افغان سرحد کو بند کر دیا گیا جو تاحال بند ہے ۔ سرحد کے آرپار لوگوں کی آمد و رفت اور تجارت بند ہو جانے کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان رنجش ، تلخی اور بدگمانی میں اور بھی اضافہ ہوگیا ہے کیونکہ ہر طرف سے خشکی سے گھِرا ہونے کی وجہ سے افغانستان اپنی بیرونی تجارت کے لئے پاکستان اور ایران پر انحصار رکھتا ہے۔ خصوصاً پاکستان کے راستے باہر کی دنیا سے تجارت کیلئے ، پاکستان ، افغانستان کے لئے زیادہ مفید ہے مگر دونوں کے درمیان آئے دن سرحد کی بندش سے صرف افغانستان کو ہی پریشانی اورنقصان کا سامنا نہیں کرنا پڑتا بلکہ پاکستان کے دور رس سیاسی ، معاشی اور سٹریٹجک مفادات خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ پاکستان کی دو طرف تجارت ایک نفع بخش کاروبار ہے۔ اس وقت دنیا میں افغانستان ، پاکستان کی برآمدی مصنوعات کیلئے تیسری سب سے بڑی منڈی ہے۔ ہماری مسلسل گرتی ہوئی برآمدات کی روشنی میں ، یہ امر خصوصی اہمیت کا حامل ہے اس کے علاوہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی کامیابی کیلئے پاکستان اور افغانستان کے درمیان نہ صرف اچھے تعلقات بلکہ قریبی تعاون بھی اشد ضروری ہے۔ دونوں ملکوں کی سرحد پر کشیدگی اور آئے دن کی بندش سے نہ صرف پاکستان کے ساتھ سیاسی شعبے میں تعلقات متاثر ہوں گے بلکہ افغانستان کی نفع بخش منڈی بھی پاکستان کے ساتھ سے نکل سکتی ہے۔ کیونکہ پاکستان کی بجائے افغانستان ایران کے راستے اپنی درآمدی اور برآمدی تجارت شروع کر دے گا۔ اگرچہ ایران کے راستے تجارت افغانستان کو مہنگی پڑے گی تاہم پاک افغان سرحد کی بار بار اور عرصہ کے لئے بندش کی وجہ سے افغانستان کے لئے ایران کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں رہے گا۔ تازہ ترین رپورٹس کے مطابق افغانستان نے اپنی درآمدی اور برآمدی تجارت کے کافی بڑے حصے کو ایران کے راستے کی طرف منتقل کر دیا ہے یہ پاکستان اور افغانستان کے دو طرفہ تعلقات کیلئے رہی نہیں بلکہ اول الذکر کی خارجہ پالیسی کے لئے ایک اہم چیلنج ہے۔
اس قسم کا چیلنج پاک ایران تعلقات کو بھی درپیش ہے قیام پاکستان سے لیکر اب تک پاکستان اور ایران کے تعلقات مثال رہے ہیں لیکن اب ان میں رختہ پڑ رہا ہے اس کی فوری وجہ ایرانیوں کے بقول پاکستانی سرزمین سے ایران مخالف دہشت گرد تنظیم کی طرف سے ایران کی سرحدی فوج پر حملے ہیں۔ اس قسم کے ایک حملے میں گزشتہ ماہ ایران کے دس سرحدی محافظ مارے گئے تھے چونکہ ان حملوں کا سلسلہ گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے اس لئے ایران کی مسلح افواج کے سربراہ کی طرف سے حال ہی میں ایک وارننگ جاری کی گئی ہے کہ اگر پاکستان نے اپنے علاقے میں سرگرم اس دہشت گرد تنظیم کے خلاف کارروائی نہ کی تو ایران کی افواج پاکستانی علاقے میں گھس کر ان دہشت گردوں کے اڈے اور ٹریننگ کیمپ تباہ کر دیں گی۔ اس کے جواب میں پاکستان کی وزارت خارجہ کی طرف سے ایک سخت ردعمل آیا جو کہ فطرتی اور قابل فہم ہے کیونکہ یہ بیان افغانستان کے ساتھ حالیہ تصادم کے فوری بعد آیا اور اس بیان میں پاکستان کی علاقائی سالمیت کو چیلنج کیا گیا ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان اس قسم کی کشیدگی کا کبھی کسی نے خواب بھی نہیں دیکھا ہوگا کیونکہ ایران پاکستان کا عام نہیں بلکہ سپیشل ہمسایہ ملک ہے۔ اس لئے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات اگر اس نہج پر پہنچ گئے ہیں تو یہ اسلام آباد اور تہران دونوں کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہونا چاہئے۔ غیر ملکی میڈیا اطلاعات کے مطابق ''جیش عدل‘‘ کی کارروائیاں ایران کو غیر مستحکم کرنے کی سازش کا ایک حصہ ہیں اور اس میں امریکہ کے ساتھ مشرق وسطیٰ کا ایک اہم عرب ملک شریک ہے۔ یہ تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان بھی اس میں ایک فریق ہو، تاہم ہماری طرف سے ایران کے ساتھ سرحد کے اس پار، دہشت گردوں کی سرگرمیوں کو روکنے میں ناکامی کی وجہ سے پاکستان اور ایران کے درمیان غلط فہمیاں اور اعتماد کا فقدان پیدا ہوسکتا ہے۔ جس سے نہ صرف ایران بلکہ پاکستان کے دشمن عناصر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک ایسے سمندری جہاز کی ماند ہے جس کا کوئی کپتان نہیں۔ علاقائی سطح پر ہم تذبذب ، کنفیوژن اور بے بسی کا شکار ہیں اس لئے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات ہمارے ہاتھ سے نکلتے جارہے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف اور ان کی ٹیم کی جانب سے پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پرڈالنے کا عزم اپنی جگہ لیکن اس ضمن میں ہمیں چین کی مثال کو سامنے رکھنا چاہئے جس نے آج سے ربع صدی قبل ترقی کی راہ اختیار کرنے سے پہلے اپنے تمام ہمسایہ ممالک حتیٰ کہ روس اور بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کئے۔ وزیراعظم نوازشریف پر یہ واضح ہونا چاہئے کہ ترقی اور خوشحالی کیلئے ملک کے اندر ہی امن اور سلامتی کی ضرورت نہیں بلکہ کشیدگی سے پاک سرحدیں اور پرامن ہمسائیگی بھی اس کے لئے اشد ضروری ہے۔