"DRA" (space) message & send to 7575

ایران :ایک نئے دور کا آغاز

1979کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران کو اندرونی اور بیرونی محاذوں پر متعدد سخت آزمائشوں کے دور سے گزرنا پڑا تھا۔ ان آزمائشوں میں عراق کے ساتھ طویل جنگ بھی شامل ہے۔ اس کے باوجود ملک میں جمہوری سیاسی عمل معطل نہیں ہوا۔ صدر‘ پارلیمنٹ اور شہری و دیہی کونسلوں کے انتخابات باقاعدہ ہوتے رہے۔ جمعہ 20مئی کو ایران میں جو الیکشن ہوئے‘ وہ 12ویں صدارتی انتخابات تھے۔ ان انتخابات میں صدر حسن روحانی نے واضح اکثریت حاصل کرکے دوسری بار ایران کا صدر منتخب ہونے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ انہوں نے کل ڈالے گئے چارکروڑ بارہ لاکھ ووٹوں میں سے دو کروڑ پینتیس لاکھ ووٹ حاصل کئے۔ یہ کل ووٹوں کا 57فیصد بنتا ہے۔ ان کے مدمقابل تین امیدوار تھے‘ لیکن اصل مقابلہ ایران کے سابق جج ابراہیم رئیسی سے تھا‘ جنہوں نے 38فیصد ووٹ حاصل کئے۔ 
ایران کے یہ حالیہ انتخابات کئی لحاظ سے اہم اور دل چسپ ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ ان انتخابات میں عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس جوش و خروش میں عورتوں نے مردوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ ووٹ ڈالنے کی مجموعی شرح 73فیصد سے زائد تھی۔ مبصرین کے نزدیک ہائی ٹرن اوور ایران میں جمہوریت کے استحکام اور عوام کے جمہوری نظام پر بڑھتے ہوئے اعتماد کا مظہر ہے‘ لیکن سب سے اہم پہلو خود صدر روحانی کی واضح اکثریت کے ساتھ کامیابی ہے‘ کیونکہ اطلاعات کے مطابق ایران کی اسٹیبلشمنٹ اور سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای‘ صدر روحانی کی اعتدال پسندی اور میانہ روی پر مبنی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور حالیہ انتخابات میں سپریم لیڈر کی ہمدردیاں قدامت پسند ابراہیم رئیسی کے ساتھ تھیں‘ لیکن صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران صدر روحانی نے ایران کی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں کو مزید معتدل اور اوپن بنانے پر زور دیا۔ ا نہوں نے ان انتخابات کو انتہا پسندی اور آزادی کے درمیان معرکہ قرار دیا اور ایرانی ووٹر سے انتہا پسندی کے خلاف اور آزادی کے حق میں ووٹ دینے کی اپیل کی۔ صدر روحانی کو ووٹ دے کر ایرانی عوام کی اکثریت نے دراصل ملک کے اندر مزید سیاسی اور سماجی آزادیوں اور بیرونی دنیا سے ایران کے بڑھتے ہوئے روابط کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ دوسرے‘ 2015کے تاریخی ایٹمی سمجھوتے کے بعد ایران کے یہ پہلے صدارتی انتخابات تھے۔ ان انتخابات میں صدر روحانی کی کامیابی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آج سے دو سال قبل ایران نے امریکہ‘ سلامتی کونسل کے دیگر چار ارکان اور جرمنی کے ساتھ ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام پر جو سمجھوتہ کیا تھا‘ وہ درست اقدام تھا۔ اس سمجھوتے کے تحت ایران نے ایٹمی ہتھیاروں میں استعمال ہونے والی افزودہ یورینیم کی تیاری کو اقتصادی پابندیوں کو ختم کرنے کے عوض ترک کر نے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس معاہدے کے بعد امریکہ اور اقوام متحدہ نے ایران پر عائد بہت سی اقتصادی پابندیاں اٹھا لی تھیں۔ اس سے عالمی منڈی میں ایرانی تیل کی فروخت میں اضافہ ہوا ‘ ایران میں افراطِ زر کی شرح نیچے آئی اوراس کی قومی معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہونے میں کامیاب ہوئی۔ صدر روحانی کے حق میں ووٹ ڈال کر ایرانی عوام کی اکثریت نے واضح کر دیا ہے کہ وہ ایران پر عائد شدہ تمام پابندیوں کے خاتمے اور ایران کے دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ روابط میں فروغ چاہتے ہیں۔ تیسرے ‘ ایران کے صدارتی الیکشن میں صدر روحانی کی کامیابی ایک ایسے وقت پہ عمل میں آئی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ اور سعودی عرب کی قیادت کے مابین تشکیل پانے والے اسلامی فوجی اتحاد میں شامل ممالک کی سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لئے ریاض میں موجود تھے۔ اس اتحاد کے قیام کا مقصد بظاہر انتہا پسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ہے‘ لیکن اصل میں اس اتحاد کے ذریعے امریکہ ایران کے خلاف محاذ آرائی بڑھانا چاہتا ہے۔ سعودی حکام کے ساتھ ملاقات کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے سابق صدر بش کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایران پر انتہا پسندی اور دہشت گردی کو فروغ دینے کا الزام عائد کیا۔ صدر ٹرمپ نے بھی اپنے حالیہ دورہ سعودی عرب میں ایران کے بارے میں یہی موقف اختیار کیا۔ ایرانی عوام نے صدر روحانی‘ جنہوں نے انتہا پسندی کی مخالفت اور اعتدال پسندی کی حمایت کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لیا تھا‘ کے حق میں ووٹ دے کر امریکی وزیر خارجہ کی طرف سے ایران پر انتہا پسند ہونے کے الزام کا بڑا مناسب جواب دے دیا ہے۔ اگرچہ صدر ٹرمپ کے اگلے اقدامات کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم صدر روحانی کے دوبارہ منتخب ہونے سے نہ صرف 2015کے ایٹمی معاہدے کا مستقبل محفوظ ہو گیا ہے‘ بلکہ امریکہ کی طرف سے ایران کے خلاف کسی کارروائی کا امکان بھی کم ہو گیا ہے۔ 
اب سوال یہ ہے کہ صدر روحانی کے دوبارہ منتخب ہونے سے ایران کی خارجہ پالیسی خصوصاً ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات پر کیا اثر پڑے گا؟ اور اگلے چاربرسوں میں صدر روحانی کو اندرونی اور بیرونی محاذوں پر کون کون سے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا؟ جہاں تک خارجہ پالیسی کا تعلق ہے تو اس شعبے میں کسی ڈرامائی تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی‘ کیونکہ خارجہ پالیسی کے بارے میں حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے ہاتھ میں ہے‘ البتہ انتخابات میں اپنی 
کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے صدر روحانی نے کہا ہے کہ ایرانی عوام نے انہیں ووٹ دے کر انتہا پسندی کے خلاف اور دنیا کے زیادہ سے زیادہ ممالک کے ساتھ دوستانہ اور پر امن تعلقات کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران تمام ممالک کے ساتھ دوستانہ اور پرامن تعلقات کا خواہاں ہے‘ لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ایران کسی کی دھمکی سے مرعوب ہو جائے گایا ہتک آمیز رویہ برداشت کرے گا۔ ایک اور بیان میں‘ جس کا رخ واضح طور پر سعودی عرب کی طرف تھا‘ صدر روحانی نے کہا کہ خلیج فارس کے علاقے میں امن اور استحکام جمہوری نظام کی مضبوطی میں مضمر ہے‘ نہ کہ بیرونی طاقتوں پر انحصار کرنے کی پالیسی میں۔ لیکن صدر ٹرمپ ‘ جنہوں نے اپنے انتخاب سے قبل 2015کے ایٹمی سمجھوتے کو منسوخ کرنے کی دھمکی دی تھی‘ کا ایران کے بارے میں رویہ سخت معاندانہ ہے۔اسرائیل اور سعودی عرب اس معاملے میں پوری طرح صدر ٹرمپ کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اگرچہ 2015کے ایٹمی سمجھوتے کی منسوخی کے امکانات کم ہیں‘ تاہم امریکہ اور سعودی عرب کے مابین بڑھتے ہوئے دفاعی تعلقات اور اسلامی فوجی اتحاد کے قیام کی وجہ سے ایران کے ہمسایہ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کشیدہ رہیں گے۔
صدر روحانی کا دوبارہ منتخب ہونا خارجہ تعلقات کے مقابلے میں ایران کی اندرونی سیاسی کشمکش کے تناظر میں زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ ایران میں ایک عرصہ سے ملک کے سیاسی نظام میں اصلاح اور عوام کو سیاسی اور سماجی شعبوں میں زیادہ آزادی اور حقوق دینے کے حق میں تحریک چل رہی ہے۔ سابق صدر مرحوم علی اکبر رفسنجانی ‘ مہدی کیروبی‘ میر حسین موسوی اورخاتمی اس تحریک کے حامی رہے ہیں۔صدر روحانی بھی ان اصلاحات کے حامی ہیں‘ لیکن سپریم لیڈر اور ایران کی اسٹیبلشمنٹ' سٹیٹس کو‘ میں کسی قسم کی تبدیلی کے خلاف ہیں۔ ان اختلافات کی بنا پر بعض مبصرین کی رائے میں صدر روحانی کو اپنی دوسری مدت میں قدامت پسندوں کی طرف سے زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘ لیکن ایران کی گزشتہ تقریباً چار دہائیوں کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مختلف سوچ کی حامل قوتیں باہمی تصادم سے اجتناب کرتے ہوئے پرامن بقائے باہمی کے اصول کے مطابق ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر سکتی ہیں۔ معیشت ایک ایسا شعبہ ہے‘ جس میں صدر روحانی کو آئندہ چار برسوں کے دوران مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس وقت ایران کا سب سے اہم معاشی مسئلہ غربت اور بے روزگاری ہے۔ اگرچہ 2015کے ایٹمی معاہدے کے نتیجے میں ایران پر عائد شدہ بہت سی پابندیوں کو ختم کر دیا گیا‘ عالمی منڈی میں ایران کو تیل بیچنے کی اجازت مل گئی ہے اور اس سے ایران میں افراطِ زر کی شرح کافی حد تک نیچے لانے میں مدد ملی ہے‘ لیکن اب بھی ایران میں بے روزگاری کی شرح 12.5فیصد ہے اور ایک تہائی پڑھے لکھے ایرانی نوجوان نوکریوں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایران کو اب بھی کئی پابندیوں کا سامنا ہے جنہیں صدر ٹرمپ کی انتظامیہ ختم کرنے پر راضی نظر نہیں آتی۔ اس کے علاوہ اگرچہ عالمی منڈی میں ایران کو اپنا تیل اور گیس بیچنے کی اجازت مل گئی ہے‘ لیکن تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے ایران کو اتنے فنڈز کے حصول میں مشکل پیش آ رہی ہے‘ جتنے اسے اپنی معیشت کو بحال کرنے کے لئے درکار ہیں۔ اس لئے توقع کی جا رہی ہے کہ روحانی اپنے عہدے کی دوسری مدت کے دوران میں دوسرے ملکوں کے ساتھ تجارتی تعلقات کو وسعت دیں گے اور ایران میں بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ ایران چین‘ پاکستان‘ ترکی اور یورپی یونین کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھائے گا تاکہ اس کی معیشت مضبوط رہ سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں