اطلاعات کے مطابق چین کی طرف سے پاکستان اور افغانستان کے مابین مصالحت کے لئے کردار ادا کرنے پر رضا مندی ظاہر کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں چین کے وزیر خارجہ وانگ چی جلد ہی کابل کا دورہ کریں گے۔ اغلب امکان یہ ہے کہ چینی وزیر خارجہ اس دورے کے دوران میں افغانستان پر چار ملکی رابطہ گروپ یعنی کوآڈری لیٹرل کوآرڈی نیشن گروپ (Quadrilateral Coordination Group) کا اجلاس بلانے کی کوشش کریں گے۔ یاد رہے کہ یہ گروپ پاکستان‘ افغانستان‘ چین اور امریکہ پر مشتمل ہے۔ افغانستان میں امن اور مصالحت کے عمل کو آگے بڑھانے کے لئے یہ گروپ جنوری 2016 میں اسلام آباد میں منعقدہ 'ہارٹ آف ایشیا‘ کانفرنس کے موقعہ پر قائم کیا گیا تھا۔ اس گروپ کے قیام کا مقصد ڈائیلاگ کے ذریعے افغانستان میں افغان دھڑوں کے مابین جاری خانہ جنگی کے خاتمے اور مستقل امن کے لئے کوششیں کرنا تھا۔ اس مقصد سامنے رکھ کر اس گروپ کے اسلام آباد اور کابل میں کئی اجلاس ہوئے تھے‘ لیکن افغانستان میں جنگ کی شدت‘ خصوصاً طالبان کی طرف سے پے در پے بم دھماکوں کی وجہ سے مذاکرات کا سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا۔ اسی دوران پاک افغان سرحد پر ناخوشگوار واقعات اور سرحد کی بار بار بندش سے دونوں ملکوں میں سخت کشیدگی‘ بلکہ تصادم تک کی نوبت آنے سے نہ صرف افغانستان میں مصالحت کے عمل کو نقصان پہنچا بلکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بداعتمادی اور شکوک و شبہات کی خلیج مزید وسیع ہو گئی۔ افغانستان میں سکیورٹی کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال اور پاکستان اور افغانستان کے مابین روز افزوں کشیدگی کے پیش نظر دونوں ملکوں میں مصالحت کی جتنی اب ضرورت ہے‘ اس سے پہلے شاید کبھی نہ تھی۔ اس لئے کہ افغانستان بلکہ اس پورے خطے کا امن پاکستان اور افغانستان کے مابین اچھے تعلقات سے جڑا ہوا ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ امن کے قیام کی کوششوں کا آغاز چین کی طرف سے کیا گیا ہے‘ کیونکہ نہ
صرف پاکستان اور افغانستان‘ بلکہ طالبان بھی چین پر اعتماد کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں چین کے کوئی نوآبادیاتی یا توسیعی عزائم نہیں ہیں‘ اور گزشتہ سولہ برسوں میں چین نے افغانستان کے بارے میں ایک اصولی موقف اختیار کر رکھا ہے‘ مثلاً معاہدہ بون اور اقوام متحدہ کے فیصلوں کے تحت چین نے افغانستان کی ہر حکومت کے ساتھ نارمل تعلقات قائم رکھے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی چین نے افغانستان میں غیر ملکی فوجوں کے مستقل قیام یا فوجی اڈوں کی تعمیر کی مخالفت کی ہے۔ افغان عوام کو خانہ جنگی اور دہشت گردی کے واقعات کے ہاتھوں تباہ کاریوں سے ریلیف کے لئے بھی چین نے ہمیشہ دل کھول کر مدد کی اور ملک کی تعمیر و ترقی کے عمل میں بھرپور حصہ لیا۔ چین نے افغانستان کے ساتھ تجارت‘ سرمایہ کاری اور معدنیات نکالنے کے جن شعبوں میں باہمی مفاد پر مبنی جس تعاون کا آغاز کیا ہے‘ اس کا مقصد افغانستان کی دولت اور ذخائر کی لوٹ کھسوٹ نہیں‘ بلکہ ان تعلقات کے ذریعے چین افغانستان کو اپنے پائوں پر آپ کھڑا ہونے کے قابل بنانا چاہتا ہے۔
گزشتہ سولہ برس کی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ چین نے افغانستان کے بارے میں اپنی پالیسی میں کبھی موقعہ پرستی اور خود غرضی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ افغانستان کی خانہ جنگی میں چین نے کبھی کسی ایک فریق کی طرف داری نہیں کی‘ نہ ہی چین نے روس یا امریکہ کی جگہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ چین کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ افغانستان کا مسئلہ افغانوں کا اندرونی مسئلہ ہے۔ اس میں کسی ملک کو مداخلت نہیں کرنا چاہئے‘ اور نہ ہی طاقت کے استعمال کے ذریعے اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔ اس پالیسی کے تحت افغانستان میں چین کا کردار ہمیشہ غیر نمایاں رہا ہے۔ تاہم گزشتہ چند برسوں کے دوران ایسے کئی واقعات اور متعدد تبدیلیاں رونما ہوئیں‘ جن کی وجہ سے چین کو اب افغانستان کے مسئلے پر پہلے کی نسبت زیادہ سرگرم ڈپلومیسی کا مظاہرہ کرنا پڑ رہا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران چین کے افغانستان کے علاوہ اس کے ہمسایہ ممالک مثلاً پاکستان‘ ایران اور وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ دو طرفہ تعلقات میں زبردست اضافہ ہوا۔ افغانستان میں تیل اور معدنیات کے ایک کھرب ڈالر مالیت سے زیادہ کے جو ذخائر دریافت ہوئے‘ چین نے انہیں زمین سے نکالنے کے لئے افغانستان کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔ ایران سے تیل خریدنے والے ممالک میں چین کا اس وقت نمایاں مقام ہے۔ پاکستان کے ساتھ چین کے دو طرفہ تجارتی اور معاشی تعلقات میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ڈرامائی انداز میں اضافہ ہوا ہے۔ پاک چین اکنامک کوریڈور اس کی ایک مثال ہے۔ مضبوط اقتصادی تعلقات کے علاوہ چین کے ان تمام ممالک کے ساتھ ٹھوس سفارتی اور سیاسی تعلقات بھی ہیں۔ انہی تعلقات کی بنیاد پر چین پورے اعتماد کے ساتھ افغانستان جیسے پیچیدہ مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ علاوہ ازیں سابق امریکی صدر
بارک اوباما کی پالیسی کے تحت افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا نے افغانستان میں ایک خطرناک خلا پیدا کر دیا ہے‘ جسے پُر کرنے کے لئے طالبان کے علاوہ داعش کے جنگجو بھی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ سکیورٹی کی اس بگڑتی ہوئی صورتحال پر چین کو سخت تشویش ہے‘ کیونکہ افغانستان کے ساتھ چین کی سرحد اگرچہ صرف 90 کلومیٹر لمبی ہے‘ لیکن اس کے پار چین کا اہم صوبہ سنکیانگ واقع ہے‘ جہاں کی مسلمان آبادی میں ایک علیحدگی پسند تحریک پروان چڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس علیحدگی پسند تحریک سے وابستہ چند عناصر افغانستان اور پاک افغان سرحدی علاقوں میں سرگرم ہیں۔ چین کو بجا طور پر اس بات کا خدشہ ہے کہ اگر افغانستان کا اندرونی خلفشار جاری رہا تو سنکیانگ یا چینی ترکستان کی یہ علیحدگی پسند تحریک زور پکڑے گی۔ تیسرے‘ چین نے شاہراہ ریشم کے احیا کی بنیاد پر ون بیلٹ ون روڈ کی شکل میں وسطی ایشیا‘ مشرق وسطیٰ‘ خلیج فارس اور جنوبی ایشیا کو آپس میں مربوط کرنے کے لئے تجارتی شاہراہوں کی تعمیر کا جو سلسلہ شروع کیا ہے‘ افغانستان کو اس میں مرکزی حیثیت حاصل ہے‘ اور جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوتا‘ چین کے یہ منصوبے کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اس طرح پاکستان اور بھارت کی شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت نے افغانستان کے اندر امن اور مصالحت کے عمل کی کامیابی کو اور بھی ضروری بنا دیا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح چینی بھی اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ افغانستان میں امن کی کنجی پاکستان اور افغانستان کے پاس ہے۔ افغانستان میں امن کے قیام کے لئے پاکستان اور افغانستان کے مابین قریبی تعاون انتہائی ضروری ہے۔ امریکہ اور افغانستان میں موجود امریکی اور نیٹو افواج نے اس مقصد کے حصول کے لئے پاکستان اور افغانستان کے درمیان مصالحت اور تعاون کو فروغ دینے کی بڑی کوشش کی‘ لیکن انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ دونوں ملکوں میں بداعتمادی اور شکوک و شبہات کی ایک وسیع خلیج حائل ہے‘ اس لئے دونوں طرف سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے وعدوں اور اعلانات کے باوجود انسداد دہشت گردی کے میدان میں پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ دونوں کی جانب سے ایک دوسرے پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کے الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔ ان حالات میں چین کی جانب سے پاکستان اور افغانستان کے اختلافات اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے مصالحتی کردار ادا کرنے کا فیصلہ ایک انتہائی مستحسن اور بروقت اقدام ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات کی گزشتہ ستر سال کی تاریخ کو اگر ہم پیش نظر رکھیں تو یہ اختلافات کافی گہرے اور پیچیدہ نظر آتے ہیں۔ اس لئے چین کے خیر سگالی مشن اور پاکستان اور افغانستان کی جانب سے چین پر مکمل اعتماد کے باوجود یہ تمام اختلافات جلد ختم نہیں ہوں گے‘ تاہم پاکستان اور افغانستان کے ارد گرد بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر دونوں ممالک کو ایسے اقدامات پر رضامند کیا جا سکتا ہے‘ جو حالات کے تقاضے پورے کرنے کے لئے فوری طور پر درکار ہیں۔ ان اقدامات میں مشترکہ سرحد پر امن کا قیام‘ سرحد کے دونوں اطراف سرگرم دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائیاں بلا روک ٹوک جاری رکھنا‘ افغانستان میں امن اور مصالحت کے عمل کو جاری رکھنے کی دونوں ملکوں کی کوششیں‘ اور اسلام آباد اور کابل کے ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈے کا خاتمہ‘ جیسے معاملات شامل ہیں۔ چین ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبوں کی کامیابی کے لئے پاکستان اور افغانستان کے درمیان مخلصانہ تعاون کا خواہاں ہے۔ پاکستان اور افغانستان کا مفاد بھی اسی میں مضمر ہے۔ اسی لئے قازقستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقعہ پر چینی صدر ژی جن پنگ اور افغان صدر اشرف غنی کی ملاقات اور پھر افغان صدر کی وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کے بعد پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات بہتر ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں۔