20اپریل کو جب سپریم کورٹ کے پانچ فاضل ججوں پر مشتمل بنچ نے طویل سماعت کے بعد پانامہ کیس کی مزید تحقیقات کے لئے ایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی)کی تشکیل کا حکم جاری کیا تو اس ہائی پروفائل کیس کے دونوں بڑے فریق یعنی وزیر اعظم نواز شریف ‘ ان کا خاندان اور پاکستان تحریکِ انصاف کے عمران خان ‘ نہ صرف مطمئن بلکہ خوش بھی تھے ۔ اس وقت وزیر اعظم ‘ ان کے خاندان ‘ وفاقی وزرا اور پارٹی رہنمائوں کی طرف سے اس فیصلے پر مبارک بادوں کا تبادلہ کیا گیا اورایک دوسرے کا منہ بھی میٹھا کروایا گیا۔ اس مقدمے کا تعلق وزیر اعظم کی ذات اور ان کے خاندان کے کچھ افراد سے ہے‘ اس لئے ان کے دفاع میں حکومت کے اہلکاروں اور پارٹی رہنمائوں کی طرف سے ہر روز سپریم کورٹ کے باہر سٹیج لگا کر گلے پھاڑنے کا کوئی جواز نہیں۔ اسی طرح عمران خان کی جانب سے بھی اس فیصلے کو پی ٹی آئی کی فتح قراردیا گیا‘ کیونکہ پانچ میں سے دو جج صاحبان نے وزیر اعظم کو ''صادق ‘‘ اور ''امین‘‘ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا‘ اور اپنے الگ الگ نوٹ میں الیکشن کمیشن سے وزیر اعظم کو بطور رکن قومی اسمبلی نااہل قرار دینے کی سفارش کی تھی۔ عمران خان نے ان دو فاضل جج صاحبان کے اختلافی نوٹ کی بنیاد پر وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ بھی کر دیا تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ عمران خان کی سیاست کا ٹریڈ مارک بن چکا ہے‘ کیونکہ وہ یہ مطالبہ گزشتہ تین برسوں سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اپنے اس مطالبے کو منوانے کے لئے انہوں نے اسلام آباد میں 2014 میں 126دنوں کا دھرنا بھی دیا تھا۔ اور اگر 16دسمبر 2014کو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے حملے کا سانحہ وقوع پذیر نہ ہوتا تو ان کا یہ دھرنا نمبر ایک مزید کئی ماہ جاری رہتا ‘ کیونکہ انہوں نے اعلان کر رکھا تھا کہ وہ جان دے دیں گے‘ مگر نواز شریف کے مستعفی ہونے تک دھرنا ختم نہیں کریں گے۔ حکومت پر 2013 کے انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات کی تفتیش کرنے والے کمیشن کے فیصلے کے بعد دھرنا نمبر ایک کی
سیاست تو اختتام پذیر ہو گئی‘ مگر‘ جیسا کہ ایک سینئر صحافی نے کہا ہے‘ پانامہ لیکس نے عمران خان کی سیاست ‘ جو کہ تقریباً ختم ہو چکی تھی‘ میں نئے سرے سے جان ڈال دی اور انہوں نے دھرنا نمبر دو پر مبنی اپنی احتجاجی سیاست کا آغاز کر دیا۔ اس مرتبہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے۔ سپریم کورٹ‘ جس نے ابتدا میں وزیر اعظم کے خلاف پانامہ لیکس کی بنیاد پر تحقیقات کے لئے پی ٹی آئی کی درخواست کو ''فضول باتوں کا پلندہ‘‘ کہہ کر مسترد کر دیا تھا‘ پی ٹی آئی کی طرف سے 2نومبر 2016کے اسلام آباد لاک ڈائون کے بعد پانامہ کیس کی سماعت منظور کر لی۔ عمران خان کی جانب سے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو ایک بہت بڑی فتح قرار دیا گیا۔ ساتھ ہی عمران خان کی زبان سے یہ الفاظ بھی نکل گئے کہ اسلام آباد لاک ڈائون کا مقصد بھی یہی تھا‘ اور وہ اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس پر حکومتی حلقوں نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے شکایت کی تھی کہ عمران خان عدلیہ پر دبائو ڈال رہا ہے۔ 20اپریل کے فیصلے کو بھی پی ٹی آئی نے اسی سپرٹ میں لیتے ہوئے اپنی خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا تھا‘ لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جے آئی ٹی کی تشکیل اور اس کے کام کرنے کے حوالے سے ہر طرف سے متنازعہ بیانات کا جو سلسلہ شروع ہو گیا ہے‘ اس نے ایک انتہائی خطرناک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ پاکستان کے نامور سابق پولیس آفیسر ڈاکٹر شعیب سڈل نے اس پر ایک ٹی وی انٹرویو میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے پاکستان انارکی کی طرف بڑھ رہا ہے‘ کیونکہ سیاسی قوتیں تو ایک طرف ریاستی ادارے بھی ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آرا ہو چکے ہیں۔ پی ٹی آئی نے حکومت پر الزام عاید کیا ہے کہ وہ اپنی جان بچانے کے لئے جے آئی ٹی کو متنازعہ بنا رہی ہے۔ خود جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ سے شکایت کی ہے کہ اس کے کا م میں روڑے
اٹکائے جا رہے ہیں۔ ایک ادارے پر الزام عاید کیا گیا کہ اس نے جے آئی ٹی سے حقیقت چھپانے کے لئے ریکارڈ میں رد و بدل کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے سپیشل بینچ نے اس شکایت کا نوٹس لیتے ہوئے ایف آئی اے کے حکام پر مشتمل ایک تفتیشی ٹیم تشکیل دے دی ہے۔ حکومت کی طرف سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسے جے آئی ٹی کے بارے میں شدید تحفظات ہیں کیونکہ (حکومتی موقف کے مطابق )جے آئی ٹی کی تشکیل سپریم کورٹ کے 20اپریل کے فیصلے کے عین مطابق نہیں کی گئی۔ اس سلسلے میں واٹس ایپ کال کا حوالہ دیا گیا ہے‘ جس کے بارے میں نہ تو سپریم کورٹ اور نہ ہی جے آئی ٹی کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے آیا ہے۔ حکومت کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہئے کہ چند محکموں کو واٹس ایپ کال کے ذریعے خاص افسروں کو جے آئی ٹی کا رکن کس بنیاد پر بنایا گیا ؟ اسی طرح بعض گواہان نے جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کے دوران ترش رویے اور وعدہ معاف گواہ بننے کے لئے دبائو ڈالے جانے کے الزام کا بھی ذکر کیا ہے۔ سب سے زیادہ تشویش تفتیش کے دوران حسین نواز کی کرسی پر بیٹھے ہوئے کی تصویر کے لیک ہونے پر کی جا رہی ہے۔ حکومت کا الزام ہے کہ یہ تصویر جان بوجھ کر لیک کی گئی اور اس کا مقصد شریف خاندان کی توہین کرنا تھا۔ حکومت کا یہ بھی الزام ہے کہ اس فعل میں جے آئی ٹی ملوث ہے۔ سپریم کورٹ کے سپیشل بنچ کے نوٹس لینے پر جے آئی ٹی نے اس واقعہ کے بارے میںجو رپورٹ پیش کی‘ عدالت نے اسے تسلی بخش اور کافی قرار دیا ہے۔ تاہم حکومت اس کارروائی سے مطمئن نہیں۔سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ جے آئی ٹی کی نگرانی کرنے والے سپریم کورٹ سپیشل بنچ کے ایک فاضل رکن نے حکومت اور میڈیا پر الزام عاید کیا ہے کہ وہ جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کے خلاف ایک سوچی سمجھی اور مسلسل مہم چلا رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں حکومت نے الزام عاید کیا ہے کہ وزیر اعظم ہائوس کے ٹیلی فون ٹیپ کئے جا رہے ہیں‘ اور ہر آنے جانے والے پر نظر رکھی جا رہی ہے۔ اس سے قبل جے آئی ٹی کی طرف سے انٹیلی جنس بیورو(آئی بی)پر الزام عاید کیا گیا کہ اس کے کارندے جے آئی ٹی کے ممبران کی جاسوسی اور ان کے بارے میں معلومات اکٹھی کرکے انہیں حراساں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ جے آئی ٹی کی طرف سے یہ الزام بھی عاید کیا گیا ہے کہ آئی بی نے اپنے وسائل اور مہارت کو استعمال کرکے اس کے کچھ ارکان کے فیملی ممبران کے فیس بک اکائونٹ ہیک کئے ہیں۔ دیگر محکموں کی طرح آئی بی نے بھی اپنے اوپر عاید کئے گئے الزامات کی تردید پر مشتمل جواب سپریم کورٹ داخل کروایا ہے‘ لیکن عدالت اس سے مطمئن نہیں ہوئی بلکہ آئی بی کی طرف سے جے آئی ٹی کے ممبران کے کوائف اکٹھے کرنے کی کارروائی کو پیشہ ورانہ‘ معمول کے مطابق اور جائز کارروائی قرار دینے پر فاضل جج صاحبان نے برہمی کا اظہار بھی کیا۔ عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آئی بی پر جو الزامات عاید کئے گئے ‘ وہ بڑی سنجیدہ نوعیت کے ہیں اور ان کی مزید تحقیقات ہونی چاہئے۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے بنچ نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کہ وہ عدالت کو مطمئن کریں کہ آئی بی کس قانون اور اختیار کے تحت جے آئی ٹی کے ممبران کے بارے میں کوائف جمع کر سکتی ہے۔ اورساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ آئی بی
کے سربراہ کو کسی وقت بھی عدالت میں طلب کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ عدالت عظمیٰ کی طرف سے اس مسئلے پر کوئی حتمی موقف اختیار نہیں کیا گیا‘ تاہم پی ٹی آئی نے آئی بی کو مجرم قرار دیتے ہوئے اس کے سربراہ کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔ اکثر حلقوں نے اس جھگڑے میں آئی بی کو بلا جواز لپیٹنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے کیونکہ آئی بی ملک کے سویلین انٹیلی جنس انفراسٹرکچر کا سب سے اہم ستون ہے اور ایک ایسے وقت میں جبکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس انفراسٹرکچر کو مزید مضبوط اور فعال بنانے پر زور کی سفارشات کی جا رہی ہیں‘ آئی بی جیسی پریمئر انٹیلی جنس ایجنسی کو ایسے تنازعے کا حصہ بنانا‘ جس سے فریقین محض سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہوں‘ انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس سے انٹرا انٹیلی جنس ایجنسی کی مخاصمت کا بھی تاثر ملتا ہے جس کے نقصان دہ اثرات ہم کراچی اور بلوچستان میں دیکھ چکے ہیں۔ ملک میں پے در پے مارشل لا اور فوجی حکومتوں کے طویل ادوار پہلے ہی آئی بی کو کافی نقصان پہنچا چکے ہیں‘ کیونکہ ہر فوجی آمر آئی بی کو ایک سویلین ایجنسی ہونے کی وجہ سے شک کی نگاہ سے دیکھتا رہا ہے‘ لیکن بہت کم وسائل ہونے کے باوجود آئی بی نے اہم مواقع پر تاریخ ساز کارنامے سرانجام دیے ہیں۔ اس وقت بھی دور اندیش تجربہ کار اور ریٹائرڈ افسران میں سے اکثر اس رائے کے حامل ہیں کہ وطن عزیز میں دہشتگردی پر قابو پانے کا واحد ذریعہ پولیس اور آئی بی کو مضبوط بنانا ہے۔ اس لئے پانامہ کیس‘ جو کہ کرپشن کیس کے بجائے ایک سیاسی کیس کی شکل اختیار کر چکا ہے‘ میں جے آئی ٹی کو متنازعہ بنانے سے گریز کیا جائے اور جن وجوہات کی بنا پر یہ تفتیشی ٹیم متنازعہ بن چکی ہے‘ انہیں فوراً دور کرکے سپریم کورٹ کے فیصلے ‘ جسے فریقین نے خوش آمدید کہا تھا‘ کی روشنی میں صاف اور شفاف تحقیقات کا موقعہ دیا جائے‘ ورنہ موجودہ سیاسی کشیدگی‘ محاذ آرائی بلکہ تصادم کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ اس صورتحال سے اگر قومی مفادات پر ضرب پڑی تو اس کی ذمہ داری سب پر آئے گی۔