چند روز پیشتر لاہور کی ایک مصروف ترین شاہراہ فیروز پور روڈ پر دہشت گردی کا ایک بڑا واقعہ رونما ہوا۔ اس میں 28 ہم وطنوں نے جام شہادت نوش کیا اور متعدد زخمی ہوئے۔ رواں سال لاہور میں دہشت گردی کا یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے۔ اس سے قبل 13 فروری کو مال روڈ پر ایک خود کش حملہ کیا گیا تھا۔ اس میں بھی دہشت گردوں کا نشانہ پولیس کے جوان اور افسر تھے۔ ملک کے باقی حصوں یعنی کراچی‘ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں گزشتہ چند ماہ کے دوران میں دہشت گردی کے جو واقعات رونما ہوئے‘ انہیں پیش نظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ دہشت گردوں کے نشانے پر اب پولیس والے ہیں اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پولیس ایک سافٹ ٹارگٹ ہے۔ اگرچہ اسی دوران میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کا بھی ایک واقعہ ہوا‘ جب گزشتہ ماہ مستونگ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے چار افراد کو شہید کر دیا گیا۔ تاہم اس رائے سے کسی طور اختلاف نہیں کہ ''ضرب عضب‘‘ اور ''ردالفساد‘‘ آپریشنوں کے نتیجے میں اپنے انفراسٹرکچر کی تباہی کے بعد دہشت گردوں نے پولیس اہل کاروں اور معصوم شہریوں کو اپنے بہیمانہ حملوں کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ کوئٹہ‘ پشاور اور کراچی میں اس قسم کے یکے بعد دیگرے حملوں کے بعد یہ بات بھی وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اب پاکستان میں کسی ایک صوبے یا علاقے کو دہشت گردی یا خود کش حملوں کا مرکز نہیں کہا جا سکتا‘ بلکہ اب انہوں نے (دہشت گردوں نے) اپنی مذموم سرگرمیوں کا دائرہ پورے ملک میں پھیلا دیا ہے۔ یہ صورتحال سابقہ صورتحال سے زیادہ خطرناک ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے قبل دہشت گردوں کے مراکز اور اڈوں کی نشان دہی کی جا سکتی تھی‘ جس کی بنا پر انہیں زمینی اور ہوائی حملوں اور فائرنگ سے تباہ بھی کیا جا سکتا تھا۔ ایسا ہوتا بھی رہا‘ جس کے نتیجے میں دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی۔ ''ضرب عضب‘‘ اور ''ردالفساد‘‘ آپریشنوں میں شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کرنے کے لئے توپوں‘ ٹینکوں‘ ہیلی کاپٹروں‘ حتیٰ کہ ایف سولہ طیاروں کو بھی استعمال کیا گیا‘ لیکن دہشت گردوں نے اب جو نئی طرز کی دہشت گردی شروع کی ہے‘ اس کے قلع قمع کے لئے توپیں‘ ٹینک اور ہوائی جہاز استعمال نہیں ہو سکتے کیونکہ دہشت گرد اب اپنے اڈوں یا مورچوں سے باہر آ کر حملہ آور نہیں ہو رہے‘ بلکہ وہ عوام میں گھل مل کر رہ رہے ہیں اور پیدل‘ موٹر سائیکل یا گاڑی میں سوار ہو کر اپنے شکار کو اکیلا یا بے خبر پا کر حملہ آور ہوتے ہیں اور اپنا ٹارگٹ پورا کر کے عوام میں ہی غائب ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پشاور‘ کوئٹہ اور کراچی میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کی پے در پے وارداتیں ہونے کے باوجود حملہ آوروں کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ لاہور میں بھی 24 جولائی کے خود کش حملے کے بارے میں ابھی تک کوئی حتمی معلومات حاصل نہیں ہو سکیں‘ اور اس کی بھی بڑی وجہ یہی ہے کہ دہشت گردوں نے نہ صرف اپنی حکمتِ عملی تبدیل کر لی ہے بلکہ انہوں نے ہتھکنڈے بھی نئے استعمال کرنا شروع کر دیے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہم نے نہ تو اپنی حکمتِ عملی تبدیل کی ہے اور نہ ہی پُرانے آزمائے ہوئے اور بیکار طریقوں سے جان چھڑائی ہے۔ ایک عرصہ سے یہ تجویز دی جا رہی ہے کہ دہشت گردوں کی بیخ کنی کے لئے محض فوجی قوت پر انحصار نہ کیا جائے‘ بلکہ اس کے خاتمے کے لئے ایک ہمہ گیر حکمتِ عملی تشکیل دی جائے‘ جس میں فوجی قوت کے استعمال کے علاوہ سیاسی‘ سماجی‘ معاشی‘ ثقافتی اور نفسیاتی عوامل کو بھی بروئے کار لایا جائے‘ کیونکہ دہشت گردی کوئی لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ نہیں ہے‘ بلکہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اسے حل کرنے کے لئے سیاسی قیادت کو ہی آگے آنا چاہئے۔ چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے لاہور میں بالکل درست فرمایا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف ایک جنگ لڑ رہے ہیں اور اس جنگ میں اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی‘ جب تک پوری قوم اس میں شریک نہ ہو۔ قومی شرکت سے مراد یہ ہے کہ تمام قومی ادارے‘ جن میں سیاسی پارٹیاں‘ پارلیمنٹ‘ عدلیہ‘ فوج‘ قانون نافذ کرنے والی قوتیں ایک پیج پر ہوں۔ دہشت گردی اور دہشت گردوں کی مذمت میں وہ یک آواز ہوں اور ان کی آپس میں مکمل ہم آہنگی ہو۔ لیکن ایسا نہیں ہے‘ بلکہ بعض حلقوں کے مطابق ریاست کے بعض اداروں کے درمیان تعاون اور کوآرڈی نیشن کے بجائے شک‘ بے اعتمادی کی فضا پائی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے نیشنل ایکشن پلان کے تحت اداروں کے درمیان جس انٹیلی جنس شیئرنگ پر زور دیا گیا تھا‘ وہ مقصد حاصل نہیں ہو سکا۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ دہشت گرد پولیس پر اس لئے حملے کر رہے ہیں کہ یہ ایک سافٹ ٹارگٹ ہے‘ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پولیس کو اب تک کیوں سافٹ ٹارگٹ رہنے دیا گیا ہے؟ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت کی طرح مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت کی طرف سے بھی امن و امان کے قیام اور دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے کارروائی کی ذمہ داری صوبائی حکومتوں پر ڈال دی جاتی ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صوبائی حکومت اور پولیس کے پاس مطلوبہ وسائل ہیں‘ جنہیں استعمال میں لا کر صوبے مرکزی حکومت کی امداد کے بغیر دہشت گردوں کا مقابلہ اور ان کا مکمل قلع قمع کر سکیں؟ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ''ضرب عضب‘‘ اور ''ردالفساد‘‘ کے تحت دہشت گردوں پر کاری ضرب لگائی گئی ہے‘ تاہم اگر یہ اخذ کر لیا جائے کہ اس کے نتیجے میں پاکستان میں دہشت گردی کا قلع قمع کر دیا گیا ہے یا دہشت گردوں کو مکمل طور پر غیر موثر کر دیا گیا ہے‘ تو یہ محض خام خیالی ہو گی۔ خود کش حملہ ہو یا دہشت گردی کا کوئی اور واقعہ‘ اس کے پیچھے منصوبہ بندی کا ایک طویل عمل کارفرما ہوتا ہے‘ اور اس میں حصہ لینے والے افراد محض ایک شہر‘ علاقے یا صوبے تک محدود نہیں ہوتے‘ بلکہ اس کے ماسٹر مائنڈ اگر ایک صوبے سے تعلق رکھتے ہوں تو مالی امداد فراہم کرنے والے کسی اور علاقے میں رہتے ہوں گے۔ اسی طرح منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانے والے عناصر کو ایک بالکل مختلف علاقے سے ریکروٹ کیا جاتا ہے۔ دہشت گردوں کے اس قسم کے نیٹ ورکس کو ابھی تک نہیں توڑا جا سکا۔ وہ نہ صرف بدستور محفوظ ہیں بلکہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ فعال بھی ہو چکے ہیں۔ لاہور میں خود کش حملے‘ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور بلوچستان اور پشاور میں پولیس اہلکاروں پر حملے اور پھر حملہ آوروں کا آسانی سے غائب ہو جانا‘ اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دعویٰ تو یہ کیا جاتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک قومی جنگ ہے‘ لیکن یہ کیسی قومی جنگ ہے جس میں قوم کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا‘ بلکہ اس سے بالا بالا فیصلے کئے جاتے ہیں اور پھر قوم پر مسلط کر دیے جاتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مکمل کامیابی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس پر قومی اتفاق رائے نہ ہو‘ اور قومی اتفاق رائے اس وقت تک پیدا نہیں کیا جا سکتا‘ جب تک کہ اس جنگ کا فوکس متعین نہیں کر لیا جاتا‘ اور اس میں شفافیت کو نہیں اپنایا جاتا۔ اب حالات یہ ہیں کہ کبھی ہماری انگلی بیرونی طاقتوں کی طرف اٹھتی ہے اور کبھی ہم کرپشن کو دہشت گردی کا سب سے اہم موجب گردانتے ہیں‘ حالانکہ دہشت گردی میں ملوث عناصر کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ وہ خود بڑے فخر سے دہشت گردی کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ پھر نجانے کیوں ہمارے ہاتھ ان تک نہیں پہنچ پاتے؟