پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کا سلسلہ کافی عرصے سے منقطع ہے‘ بلکہ روابط کی عدم موجودگی کے باعث دونوں ملکوں میں کشیدگی برابر بڑھ رہی ہے۔ اس کا سب سے خطرناک اور نقصان دہ مظاہرہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر آئے دن فائرنگ کے تبادلے کی صورت میں ہو رہا ہے۔ اس میں پہلے چھوٹے خود کار ہتھیار استعمال ہوتے تھے‘ لیکن اب مارٹر بموں اور دور مار توپوں سے بھی ایک دوسرے پر گولہ باری کی جا رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں دونوں طرف جو جانی و مالی نقصان ہو رہا ہے ‘ اس کی وجہ سے نہ صرف سرحد کے آر پار رہنے والے لوگ پریشان ہیں بلکہ بین الاقوامی برادری کو بھی صورت حال پر سخت تشویش لاحق ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان اور بھارت ‘ دونوں ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح ہیں۔ دنیا کو خدشہ ہے کہ اگر اس کشیدگی کو نہ روکا گیا تو یہ بڑھتے بڑھتے دونوں ملکوں میں کسی بڑے تصادم کا باعث نہ بن جائے۔ اسی لئے بڑی طاقتوں مثلاً روس‘ امریکہ ‘ برطانیہ‘ یورپ بلکہ چین اور اقوام متحدہ کی طرف سے بھی پاکستان اور بھارت کی حکومتوں پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ کشیدگی کم کرنے اور باہمی تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے دو طرفہ بات چیت کا راستہ اختیار کریں‘ لیکن ان تمام اپیلوں کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان سرکاری سطح پر مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر اتفاق نہیں ہو سکا۔
دونوں ملکوں کی حکومتوں کے روئیے سے مایوس ہو کر کچھ ادارے پاکستان اور بھارت کے درمیان غیر رسمی سرکاری ڈائیلاگ کا اہتمام کرتے رہتے ہیں تاکہ دونوں ملکوں کی حکومتوں کو باہمی مذاکرات کی طرف مائل کرنے کے لئے زمین ہموار کی جا ئے۔ اسی طرح کے ایک ادارے‘ جس کا نام کنسیلی ایشن ری سورسز (Conciliation Resources) ہے‘ نے پاکستان اور بھارت سے تعلق رکھنے والے چند سیاست دانوں‘ سابق سفیروں‘ اعلیٰ سرکاری افسروں(جو کہ ریٹائرڈ ہو چکے ہیں) چند ریٹائرڈ جرنیلوں‘ منتخب صحافیوں اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افرادکو لندن میں اکٹھا کیا۔ یہ اکٹھ دو دن یعنی 31 جولائی سے یکم اگست تک جاری رہا۔ اس کا مقصد پاکستان اور بھارت کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے تجاویز اور سفارشات تیار کرنا تھا۔ اطلاعات کے مطابق اس غیر سرکاری ڈائیلاگ یا بیک چینل ڈپلومیٹک اجلاس میں صرف پاکستان اور بھارت سے تعلق رکھنے والے افراد ہی شریک نہیں ہوئے بلکہ آزاد جموں و کشمیر اور مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں‘ صحافیوں‘ سول سوسائٹی کے کارکنوں اور سابق سفیروں نے بھی شرکت کی۔ اس طرح یہ ڈائیلاگ صحیح معنوں میں ایک نمائندہ بات چیت اور مفید کوشش تھی‘ کیونکہ اس میں پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ تعلقات ہی نہیں بلکہ مسئلہ کشمیر پر بھی بحث ہوئی۔ بیک چینل ڈپلومیسی کی یہ کوشش نئی نہیں۔ اس سے پہلے بھی اور اس کے علاوہ بھی پاک بھارت امن کے قیام کے لئے متعدد کوششیں ہو چکی ہیں۔ امریکہ میں ایک تھنک ٹینک ''اٹلانٹک کونسل‘‘نے بھی حال ہی میں اس قسم کے ایک ڈائیلاگ کا اہتمام کیا تھا۔ اس میں پاکستان اور بھارت کے دو سابق وزرائے اطلاعات بالترتیب سینیٹر مشاہد حسین سید اور منیش تیواری کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس اجلاس کا مقصد پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بہتری لانے کے لئے میڈیا کے کردار کا جائزہ لینا تھا۔ ایک اطلاع یہ ہے کہ ان دونوں حضرات نے اگرچہ اپنا اپنا موقف روایتی انداز میں ہی پیش کیا تاہم دونوں اس پر متفق تھے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو مثبت انداز میں دیکھنے اور اس کی تشہیر کرنے کے
لئے میڈیا کو آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا چاہئے‘ کیونکہ اس وقت دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کے بارے میں جو بیانیہ اخبارات اور ٹی وی چینلز سے شائع یا نشر ہو رہا ہے‘ اس پر دونوں جانب سے سخت موقف رکھنے والوں کا قبضہ ہے‘ جو نفرت کے سوا کسی اور چیز کا پرچار نہیں کرتے۔ اگر انہی حلقوں کا بیانیہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے پاکستان اور بھارت کے عوام تک پہنچتا رہا تو اس سے دونوں ملکوں میں شک‘ بدگمانی اور نفرت کی خلیج اور بھی وسیع ہو جائے گی‘ حالانکہ دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات دور کرنے اور باہمی تنازعات کا حتمی حل تلاش کرنے کے لئے نہ صرف رابطے اور ڈائیلاگ کی ضرورت ہے‘ بلکہ اعتماد اور بھروسہ بھی بہت ضروری ہے‘ اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب میڈیا سے ایک نیا اور مختلف بیانیہ عوام تک پہنچے۔ جہاں ذرائع ابلاغ کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک مثبت اور روشن خیالی پر مشتمل بیانیہ عوام تک پہنچائے وہاں دونوں ملکوں کے دانشوروں اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے اصحاب کے لئے بھی لازمی ہے کہ وہ ان انتہا پسندوں اور نفرت پھیلانے والے عناصر کے مقابلے میں ایک نئے بیانیہ کو پیش کریں‘ جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان نفرت کی جگہ اعتماد پیدا ہو ‘ تاکہ مل بیٹھ کر باہمی تنازعات کو حل کرنے کی راہ ہموار ہو سکے۔ لندن میں ہونے والے اجلاس میں بھی اعتماد سازی کے اقدامات کو مضبوط بنانے کی بات کی گئی اوراس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ 2004میں شروع ہونے والے امن مذاکرات کے نتیجے میں دونوں ملکوں نے جو فوائد حاصل کئے تھے‘ وہ مذاکراتی عمل کے تسلسل کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے آہستہ آہستہ ضائع ہو رہے ہیں۔ اس ضمن میں لائن آف کنٹرول پر سیز فائر اور امن کے قیام کے لئے 2003میں کئے جانے والے معاہدے کا خصوصی طور پر ذکر کیا گیا‘ اور شرکا نے مشترکہ طور پر مطالبہ کیا کہ چونکہ اس وقت لائن آف کنٹرول کے آر پار سے فائرنگ اور گولہ باری سے عام شہریوں کا سب سے زیادہ نقصان ہو رہا ہے‘ اس لئے اس ساری عبوری سرحد کے ساتھ ساتھ فوری طور پر جنگ بندی کا اعلان کیا جائے۔ اس اقدام سے پاک بھارت مذاکرات کی راہ ہموار کرنے میں مدد ملے گی۔
بیک چینل سفارت کاری میں حکومتی نمائندے شریک نہیں ہوتے۔ اس لئے اس قسم کے فورم سے جاری کئے جانے والے اعلانات‘ قراردادوں یا اپیلوں کی نوعیت غیر سرکاری ہوتی ہے‘ اور کوئی بھی حکومت ان کی پابند نہیں ہوتی‘ لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اس قسم کے اجلاس اور اعلانات سعیء لا حاصل ثابت ہوتے ہیں‘ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جہاں حکومتوں نے بوجوہ سخت موقف اپنایا ہو ‘ اور دونوں باہمی مذاکرات کے لئے ایک دوسرے کی طرف قدم بڑھانے سے ہچکچا رہی ہوں‘وہاں بیک چینل ڈپلومیسی کارگر ثابت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس غیر رسمی اور غیر سرکاری سفارت کاری کے عمل میں حصہ لینے والے نہ صرف ایسے افراد ہوتے ہیں‘ جو اہم حکومتی عہدوں پر فائز ہو کر پالیسی سازی میں اہم کردار ادا کر چکے ہوتے ہیں‘ بلکہ ایسے دانشور‘ صحافی اور سول سوسائٹی کے ارکان بھی شامل ہوتے ہیں‘ جن کی آواز رائے عامہ پر اثر انداز ہوتی ہے اور حکومتی حلقے اسے (بیک چینل ڈپلومیسی)بجا طور پر اہمیت دینے پر بھی مجبور ہو جاتے ہیں۔ ماضی میں پاک بھارت تعلقات میں ڈیڈ لاک کو ختم کرنے اور بارآور مذاکرات شروع کروانے میں بیک چینل ڈپلومیسی نے کارآمد کردار ادا کیا اور امید ہے کہ اب دونوں ملکوں میں جاری تعطل ختم کروانے میں بھی یہ عمل موثر کردار ادا کرے گا۔