امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس اپنی انتخابی مہم کے دوران میں جو اقدامات کرنے کا اعلان کیا تھا‘ ان میں سے بعض اقدامات پر انہوں نے بڑی سرعت سے عمل کیا ہے۔ کئے گئے اقدامات میں ان کے پیش رو صدر اوباما کے ہیلتھ کیئر نظام کی تنسیخ اور امریکہ میں تارکینِ وطن کی آمد پر سخت پابندیاں عائد کرنا بھی شامل ہے۔ لیکن ایک مسئلے‘ جس پر انہوں نے صدر منتخب ہونے سے پہلے بڑی دھواں دھار تقریریں کی تھیں اور دھمکی آمیز لہجے میں بیانات بھی دئیے تھے‘کے حل کے حوالے سے وہ ابھی تک کوئی قدم نہیں اٹھا سکے ہیں۔ یہ افغانستان کا مسئلہ ہے‘ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق جس کے بارے میں امریکہ میں ابھی تک سوچ بچار اور بحث جاری ہے۔ اس بحث کے نتیجہ خیز ہونے میں تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کی سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان ابھی تک ایک متفقہ لائحہ عمل پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ ایک رائے یہ ہے کہ افغانستان میں کابل حکومت کی اعانت کے لئے مزید امریکی افواج بھیجی جائیں۔ اس ضمن میں 4000فوجی بھیجنے کی تجویزپیش کی گئی تھی‘لیکن دوسری طرف یہ کہا جا رہاہے کہ جہاں امریکہ اور نیٹو ممالک کے ایک لاکھ تیس ہزار فوجی کامیاب نہ ہو سکے‘ وہاں 4000فوجی کیا تیر چلا لیں گے؟ حقیقت یہ ہے افغانستان کے مسئلے پر صدر ٹرمپ سخت کنفیوژن کا شکار ہیں۔ کبھی وہ سابق صدر اوباما کی پالیسیوں کو افغانستان کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں اور کبھی وہ افغانستان میں امریکی افواج کی کمانڈ کرنے والے جرنیلوں کو اس کا ذمہ دار قرار دے کر انہیں برطرف کرنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں اور کبھی پوری ذمہ داری پاکستان پر ڈال دیتے ہیں اور امریکی حکام یہ الزام لگاتے ہیں کہ پاکستان کی طر ف سے حقانی نیٹ ورک کو اپنے علاقے میں محفوظ ٹھکانے مہیا کرنے اور افغان طالبان کو امداد فراہم کرنے کی وجہ سے امریکی اور افغانستان کی سرکاری افواج ‘ طالبان کے خلاف کامیابی حاصل نہیں کر سکیں۔ امریکہ سے موصول ہونے والی خبروں کے مطابق ٹرمپ اپنے جرنیلوں پر کافی برہم ہیں‘ خصوصاً جنرل نکلسن پر جو کہ افغانستان میں امریکی فوج کے دستے کی کمان کر رہے ہیں۔
امریکی صدر یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ طاقت ور ملک ہونے کے باوجود امریکہ افغانستان کی جنگ کیوں ہار رہا ہے۔ اگرچہ امریکی حکام افغانستان کے بارے میں حتمی حکمت عملی طے کرنے کے لئے ابھی سوچ بچار کر رہے ہیں‘ تاہم افغانستان کے زمینی حقائق کی روشنی میں تین باتوں کو طے شدہ امور تسلیم کیا جا رہا ہے۔ ایک یہ کہ افغانستان میں جنگ کی صورت حال جوں کی توں یعنی (stalemate) کی کیفیت میں ہے۔ دوسرے یہ کہ افغانستان میں امن جنگ کے ذریعے نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے ہی قائم ہو سکتا ہے اوور اس بات چیت میں تمام سٹیک ہولڈرز بشمول طالبان کی شرکت لازمی ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ نے اوباما دور میں ''چہار فریقی رابطہ ‘‘ (QCG) جس میں افغانستان کے علاوہ چین اور پاکستان بھی شامل ہیں‘ کی طرف سے مذاکرات کے انعقاد کو ممکن بنانے کی کوششوں کی حمایت کی تھی۔ تیسرے یہ کہ افغانستان میں امن پاکستان کے تعاون کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا‘ اور اس کے لئے امریکہ کی طرف سے پاکستان پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ افغان طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے اپنا اثرو رسوخ استعمال کرے‘ اور اگر افغان طالبان پاکستان کا مشورہ ماننے سے انکار کر دیں تو پاکستان کی طرف سے انہیں مبینہ طور پر جو سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں‘ انہیں بند کر دیا جائے‘ بلکہ یہ کہ حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کے خلاف فوجی کارروائیاں کی جائیں۔ امریکی حکام کے مطابق پاکستان کو اس مقصد کے لئے 2001سے اب تک 30ارب ڈالر ادا کئے جا چکے ہیں لیکن امریکیوں کے خیال میں پاکستان کی پالیسی اس ضمن میں دوغلی رہی ہے اور امریکی اصرار کے باوجود پاکستان نہ تو حقانی نیٹ ورک اور نہ ہی افغان طالبان کے خلاف اقدامات کرنے پر آمادہ ہے‘ چنانچہ اس وقت امریکہ میں افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے بارے میں جو بحث جاری ہے‘ اس میں مرکزی نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کی آمادگی حاصل کرنے کے لئے کون سا طریقہ اختیار کیا جائے۔ امریکی کانگریس اور حکومت میں شامل جو حضرات سخت موقف کے حامی ہیں ان کی رائے یہ ہے کہ پاکستان کو اس ''عدم تعاون‘‘ کی سزا دی جائے۔ ''سزا‘‘ میں پاکستان کے لئے امریکی امداد کی مکمل بندش‘ نان نیٹو اتحادی کے سٹیٹس کا خاتمہ‘ پاکستان کو دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والا ملک قرار دینا اور حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کی قیادت اور اس کے محفوظ ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لئے پاکستان کے اندر دور تک ڈرون طیاروں کے ذریعے حملہ کرنا شامل ہے۔ پچھلے دنوںاس قسم کا ایک ڈرون حملہ سوات میں ہنگو کے قریب کیا گیا تھا‘ جس میں ایک گاڑی کو نشانی بنا کر حقانی نیٹ ورک کے اہم کمانڈر اور اس کے ساتھیوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ امریکی ذرائع سے لیک ہونے والی خبروں کے مطابق امریکہ مستقبل قریب میں ایسے حملے نہ صرف تیز کرنا چاہتا ہے بلکہ پاکستان کے شمال مغرب میں واقع قبائلی علاقوں اور بلوچستان کی ساحلی پٹی تک ان کا دائرہ وسیع بھی کرنا چاہتا ہے۔ اس کے برعکس ایک رائے یہ بھی ہے کہ پاکستان پر کسی قسم کا دبائو کارگر ثابت نہیں ہو گا۔ پاکستان امریکہ اور افغانستان کے ساتھ مل کر افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں شریک ہونے کے لئے تیار ہے‘ لیکن کسی قسم کے دبائو میں نہیں آئے گا‘ نہ ہی اپنی قومی خود مختاری یا علاقائی سلامتی کی خلاف ورزی برداشت کرے گا۔ امریکی پالیسی سازوں کا ایک گروپ یہ خدشہ بھی محسوس کرتا ہے کہ اگر پاکستان کی اقتصادی امداد بند کی گئی اور اس کے سرحدی علاقوں کو ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا گیا تو پاکستان چین کے اور قریب چلا جائے گا۔ یہ صورتحال خطے میں امریکہ کے طویل المیعاد مفادات کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔اسی طرح امریکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بھی قائم رکھنا چاہتا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق پاکستانی اقدامات کا بھی خواہش مند ہے۔
امریکہ افغان مسئلے اور پاکستان کے بارے میں جو بھی حکمت عملی اختیار کرے‘ ایک بات یقینی ہے کہ افغانستان کی صورت حال زیادہ دیر تک جوں کی توں نہیں رہ سکتی۔ موجودہ جمود یعنی سٹیل میٹ (Stalemate) کو ہر صورت میں ختم کرنا ہی ہو گا۔ مختلف امریکی حلقوں میں جاری بحث سے ابھی تک جو اشارے ملے ہیں‘ ان کے مطابق امریکہ بات چیت کے ذریعے یہ مسئلہ حل کرنے کو ہی ترجیح دے گا اور اس کے لئے پاکستان کو ہر قسم کی ترغیب دینے پر تیار ہے۔ اس کے علاوہ چین کی طرف سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کی حال ہی میں جو کوششیں کی گئی ہیں‘ امریکہ نے ان کی بھی حمایت کی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ افغانستان کے مسئلے کا ایک ایسا حل چاہتا ہے‘ جسے علاقے کے تمام ممالک ‘ جن میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے علاوہ چین‘ بھارت اور روس بھی شامل ہیں‘ کی حمایت حاصل ہو ۔ اس اپروچ کے تحت امریکی حکمت عملی کی جو بھی شکل ابھر کر سامنے آئے گی‘ اس کے بارے میں ایک بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ اس میں پاکستان کو کلیدی کردار ادا کرنا پڑے گا۔ اس لئے پاکستان کو ابھی سے آئندہ ممکنہ طور پر پیدا ہونے والی صورتحال سے عہدہ برا ہونے کے لئے تیار ہو جانا چاہئے۔ اس سلسلے میں جن باتوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے‘ وہ یہ ہیں: خطے کے تمام ممالک‘ جن میں چین بھی شامل ہے‘ افغانستان میں جنگ و جدل اور خونریزی کے خلاف ہیں اور وہ اس صورتحال کا جلد از جلد خاتمہ چاہتے ہیں۔ کوئی بھی ملک طالبان کو واک اوور دینے کے لئے تیار نہیں‘ البتہ امن کی کوششوں اور حکومتی ڈھانچے میں طالبان کی شرکت کے حامی ہیں۔ بین الاقوامی برادری موجودہ افغان حکومت کی پشت پناہی کر رہی ہے اور کرتی رہے گی۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ افغانستان میں ویت نام کی 1974 والی داستان دہرائی جائے گی تو یہ اس کی بہت بڑی خوش فہمی ہو گی۔ ان حقائق کی روشنی میں پاکستان کی موجودہ افغان پالیسی میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے۔