اسلام آباد میں سفرا کی تین روزہ کانفرنس کے اختتام پر اگرچہ ملک کی خارجہ پالیسی میں کسی ڈرامائی تبدیلی کا اعلان نہیں کیا گیا‘ نہ ہی اس کی سفارشات کو عام کیا گیا ہے‘ تاہم اس کانفرنس کی کارروائی کے بارے میں اب تک میڈیا میں جو چھپا ہے‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مقتدر ادارے‘ جو اپنے ارد گرد کے حالات سے بے خبر لمبی تان کر سو رہے تھے‘ آہستہ آہستہ بیدار ہو رہے ہیں۔ اس کا ثبوت وزیر خارجہ خواجہ آصف کے دو اہم بیانات ہیں۔ بیجنگ میں چینی وزیر خارجہ وانگ ژی کے ساتھ خواجہ صاحب کی مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران ریمارکس‘ اور حاضرین کی جانب سے کئے گئے سوالات کے جوابات کے مندرجات کو پرکھا جائے تو خارجہ پالیسی کے بارے میں ابھرتی ہوئی نئی سوچ کے خدوخال واضح ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس کے مطابق ملک کی خارجہ پالیسی میں ایک بنیادی اور درست سمت میں تبدیلی لازمی ہے۔ وزیر خارجہ کے مطابق یہ تبھی ممکن ہے اگر ہم نہ صرف ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کریں بلکہ ان سے پیچھا چھڑا کر حالات کے تقاضوں کے مطابق پاکستان کی خارجہ پالیسی کی سمت متعین کریں۔ اس سے کسی کو انکار نہیں ہو گا کہ گزشتہ چار دہائیوں سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ایک ہی سمت میں چلایا جا رہا ہے اور بیشتر حلقوں کو یقین ہے کہ افغانستان کے بارے میں پاکستان کی پالیسی وہی ہے جس کی بنیاد جنرل ضیاالحق کے دور میں رکھی گئی تھی۔ اسی پالیسی کی وجہ سے پاکستان طالبان ‘ کلاشنکوف کلچر اور ہیروین کے مسئلے سے دوچار ہوا۔ رہی سہی کسر جنرل مشرف نے پوری کر دی‘ جس نے نائن الیون کے بعد امریکیوں کو پاکستان کے راستے افغانستان پر حملہ آور فوجوں کو اسلحے اور راشن کی ترسیل کے لئے سہولیات مہیا کیں۔ خواجہ آصف نے بالکل درست کہا کہ جب تک ہم ان غلطیوں کو نہ صرف تسلیم بلکہ درست نہیں کرتے‘ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے شعبے میں آگے نہیں بڑھ سکتا۔ خارجہ پالیسی کا ایک مسلمہ اصول یہ ہے کہ اس کے عمل میں تبدیلی (Change) اور تسلسل (Continuity) ایک ساتھ چلتے ہیں‘ یعنی کوئی بھی ملک اپنی خارجہ پالیسی میں یُو ٹرن نہیں لیتا کیونکہ خارجہ پالیسی کے مقاصد میں ریاست اور عوام کے بنیادی مفادات کا تحفظ اور فروغ شامل ہوتا ہے‘ لیکن بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات میں‘ اس میں تبدیلی بھی ضروری ہے‘ ورنہ خارجہ پالیسی جمود کا شکار ہو کر اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہتی ہے۔ پاکستان اسی مسئلے سے دوچار ہے۔ گزشتہ 70 سالوں میں دنیا بہت تبدیل ہو چکی ہے۔ وہ قومیں‘ جو ایک وقت میں باہمی طور پر دست و گریباں تھیں‘ اب آپس میں دوست ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہی ہیں کیونکہ 1990ء کی دہائی میں سرد جنگ یا امریکہ اور سابق سوویت یونین کے درمیان محاذ آرائی کی کیفیت ختم ہونے کے بعد دنیا کی بیشتر اقوام نے اپنے خارجہ تعلقات میں بنیادی تبدیلیاں کیں‘ خصوصاً ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری پیدا کی‘ لیکن پاکستان نے ان تبدیلیوں کے مطابق اپنی خارجہ پالیسی کی سمت درست نہیں کی‘ حالانکہ ہمارے ہمسائے میں چین اور روس نے ماضی کے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر آپس میں نہ صرف اہم شعبوں میں رابطے بحال کئے بلکہ ان میں تعاون کا آغاز بھی کیا۔ سب سے نمایاں مثال چین اور بھارت کے باہمی تعلقات میں حیرت انگیز بہتری ہے۔ اس وقت چین اور بھارت کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم نہ صرف 70 ارب ڈالر سے زیادہ ہے بلکہ دونوں ملک متعدد شعبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بھی کر رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال برکس (BRICS) اور دوسری شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) ہے جہاں بھارت اور چین‘ دونوں اراکین کی حیثیت سے اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ابھی سرد جنگ کے فریم ورک سے باہر نہیں نکل سکی۔ جن لوگوں کے ہاتھ میں ہماری خارجہ پالیسی کی باگ ڈور اب تک رہی‘ وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ سخت اختلافات اور سنگین مسائل کی موجودگی میں بھی متعدد شعبے ایسے ہیں‘ جن میں قومیں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر سکتی ہیں اور اس تعاون سے ان قوموں کے افراد مستفید ہو سکتے ہیں۔ انہی امکانات کا ذکر کرتے ہوئے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی سمت میں تبدیلی اور درستی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ سفرا کانفرنس میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کی روشنی میں ملک کی خارجہ پالیسی کا ایک جامع جائزہ لیا گیا‘ اور میڈیا اطلاعات کے مطابق کانفرنس کے شرکا کی تین روزہ بحث کے بعد چند سفارشات تیار کی گئی ہیں‘ جو قومی اسمبلی اور نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں پیش کی جائیں گی۔ ان سفارشات کو چونکہ ابھی عام نہیں کیا گیا‘ اس لئے اس مرحلے پر حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ان میں حکومت کے لئے کیا تجاویز ہیں تاہم اطلاعات کے مطابق پاکستان نے اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے عزم کے ساتھ اپنے خطے یعنی جنوبی ایشیا اور اس کے ارد گرد واقع ممالک پر فوکس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے اس وژن کا حوالہ دیا گیا‘ جس کے تحت انہوں نے 2013ء سے قبل اور انتخابات کے فوراً بعد پاکستان کے ہمسایہ ممالک خصوصاً بھارت‘ افغانستان اور ایران کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے عزم کا اعلان کی تھا۔ ان کا موقف یہ تھا کہ پاکستان کے اندر امن‘ قومی ترقی اور عوامی خوشحالی کے لئے انتہائی ضروری ہے‘ کیونکہ غیر یقینی صورتحال اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے نہ تو قومی سطح پر کاروبار میں اضافہ ہو گا اور نہ ہی باہر کے سرمایہ دار پاکستان میں آ کر سرمایہ کاری کریں گے۔ اس لئے ملک کے اندر امن انتہائی ضروری ہے‘ لیکن یہ امن اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک پڑوس میں امن نہ ہو۔ اس کیلئے پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحد وں پر کشیدگی کا خاتمہ ضروری ہے‘ اور کشیدگی کے خاتمہ کیلئے پاکستان کے بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا ضروری ہے۔ چنانچہ آنے والے دنوں میں پاکستان کی طرف سے خطے میں کشیدگی کم کرنے کی جانب اہم اقدامات کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ان اقدامات میں افغانستان میں جنگ بندی کرانے اور امن و مصالحت کے حصول کے لئے انٹرا افغان بات چیت کا انعقاد سب سے اہم اقدام ہو گا۔ اس کے لئے چہار فریقی کوآرڈی نیشن گروپ (QCC) موجود ہے۔ اسے فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ افغانستان کے صدر کی طرف سے پاکستان کو مذاکرات کی دعوت اور پاکستان کی طرف سے مثبت ردعمل اس معاملے کو آگے بڑھانے میں مدد دے سکتا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے پاکستان پر تنقید اور الزام تراشیوں کے باوجود حکومت کا واضح موقف ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات منقطع نہیں کئے جائیں گے‘ بلکہ دو طرفہ بنیادوں پر دونوں ملکوں میں جو تعاون جاری ہے‘ اسے مزید مضبوط بنایا جائے گا‘ کیونکہ یہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے‘ لیکن اصل مسئلہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے امریکی شکایات کا ازالہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ نئی خارجہ پالیسی کے تحت حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اس سمت میں کیا اقدام کرتی ہے‘ لیکن ایک بات واضح ہے کہ پاکستان جو بھی فیصلہ کرے اس پر عمل درآمد میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے کیونکہ جیسا کہ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے خود کہا ‘ وقت بہت کم ہے۔ حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اور ملک اس ضمن میں مزید تاخیر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
وزیر خارجہ نے بالکل درست کہا ہے کہ ایک موثر اور کامیاب خارجہ پالیسی کیلئے ہمیں سب سے پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرنا چاہئے۔ خواجہ صاحب کا یہ بیان خارجہ پالیسی کی ایک مسلمہ تعریف کے عین مطابق ہے‘ جس کے تحت کسی ملک کی خارجہ پالیسی اس ملک کے اندرونی حالات کا عکس ہوتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت جو انارکی پائی جاتی ہے‘ اس کی وجہ سے پاکستان کے بنیادی قومی مفادات کو نقصان پہنچا ہے۔ اگر حکومت بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی آئیسولیشن کو ختم کرنے اور ملک کا امیج بہتر بنانے کے لئے ملک کے اندر کچھ اہم اقدامات کرنا چاہتی ہے تو اس کیلئے یہ بہترین موقع ہے‘ کیونکہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کہہ دیا ہے کہ جہاد صرف ریاست کا حق ہے۔ ملک کے اندر کسی گروپ‘ پارٹی یا شخص کو جہاد کا اعلان یا جہادی کارروائیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔