"DRA" (space) message & send to 7575

سہ فریقی مذاکرات

افغانستان کے محاذ سے تازہ ترین اور حوصلہ افزا خبر یہ ہے کہ پاکستان ،امریکہ اور افغانستان کے مابین سہ فریقی مذاکرات کا ایک دورحال ہی میں کابل میں ہوا ہے۔ ان مذاکرات میں تینوں ممالک کے فوجی وفود نے شرکت کی ہے۔پاکستان کی طرف سے ڈی جی ایم او(ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز) شریک ہوئے۔ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے مطابق شرکاء نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں باہمی تعاون،انٹیلی جنس شیئرنگ اور بارڈر سکیورٹی کے شعبوں میں اشتراک کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔اطلاعات کے مطابق تینوں فریقین نے خصوصاً داعش کو مشترکہ خطرہ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف کارروائی کرنے کے عزم کا اعلان کیا ہے ۔آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان حال ہی میں جو رابطے ہوئے ہیں ان رابطوں کے دوران فریقین نے باہمی اختلافات کو ختم کر کے افغانستان میں امن کی راہ ہموارکرنے کے لیے جس خواہش کا اظہار کیا ہے یہ مذاکرات اسی سپرٹ کا نتیجہ ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کے متعدد میکانزم موجود ہیں۔ان میںدو طرفہ سہ فریقی اور چہار فریقی میکانزم بھی موجود ہیں۔ان میکانزم میں امریکہ کے علاوہ چین اور روس بھی شامل ہیں۔ماضی میں ان میکانزم کے متعدد اجلاس بھی ہو چکے ہیں۔لیکن ان مذاکرات کا کوئی ٹھوس نتیجہ نہیں نکلا۔بلکہ افغانستان کی صورت حال اور خاص طور پر پاک،افغان تعلقات پہلے سے زیادہ خراب ہوئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں خطے کی سلامتی اور استحکام کے لیے سنگین خطرات ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ان میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی 21اگست کی تقریر بھی شامل ہے‘ جس میں امریکی صدر نے افغانستان کی موجودہ صورتحال کی تمام تر ذمہ داری پاکستان پر ڈالتے ہوئے سخت اقدامات کی دھمکی دی تھی۔تاہم پاکستان اور بین الاقوامی برادری کے چند رکن ممالک جن میں چین ،روس،ترکی اور ایران شامل ہیں کی طرف سے جو ردعمل آیا ہے اس کے پیش نظر افغانستان ہی نہیں بلکہ امریکہ نے بھی محسوس کیا ہے کہ پاکستان پر دبائو ڈالنے کی بجائے مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کیا جائے۔پاکستان کی طرف سے تو پہلے ہی یہ واضح کیا جا چکا ہے کہ افغانستان کا مسئلہ طاقت کے ذریعے نہیں بلکہ مذاکرات کا راستہ اپنانے سے حل ہو سکتا ہے۔بین الاقوامی برادری بھی پاکستا ن کے اس موقف سے متفق ہے۔خود صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اپنی دھمکی آمیز تقریر میں یہ تسلیم کیا کہ افغانستان میں قیام امن مصالحت کے فروغ کے لیے ان کی اولین ترجیح مذاکرات ہوگی۔فرق صرف یہ ہے کہ صدر ٹرمپ ان مذاکرات میںطالبان کی شمولیت کو ممکن بنانے کے لیے پاکستان سے کلیدی کردار ادا کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔کابل میں ہونے والے سہ فریقی مذاکرات نہ صرف افغانستان بلکہ جنوبی ایشیاء کے خطے میں امن اوراستحکام کے حوالے سے ایک اچھا شگون ہیں اور ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ ان مذاکرات کو جاری رکھا جائے گا اور ان سے ٹھوس اور مفید نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔لیکن ماضی کے تجربات اور موجودہ پیچیدہ صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں ان سے زیادہ توقعات بھی وابستہ نہیں کرنی چاہیے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ افغانستان میں امن اور مصالحت اور دہشت گردی خصوصاً داعش کا خاتمہ پاکستان، افغانستان اور امریکہ کا مشترکہ مقصد ہے۔لیکن اس مقصد کے حصول کے لیے ذرائع اور اپروچ پر تینوں ممالک مختلف سوچ کے مالک ہیں۔امریکہ کا اصرار ہے کہ افغانستان میں قیام امن صرف اسی صورت ممکن ہے جب پاکستان اپنی سر زمین پر حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کو فراہم کردہ مبینہ پناہ گاہیں ختم کر دے ۔لیکن پاکستان کی طرف سے ان الزامات کی سختی سے تردید کی جاتی ہے اور پاکستان کی نظر میں افغانستان میں امن کیلئے صرف ایسا عمل نتیجہ خیز ہوگا۔جس میں خود افغان شامل ہوں اور اس کی باگ ڈور بھی افغانیوں کے ہاتھ میں ہو۔افغانستان میں امن باہر سے مسلط نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ افغانستان کا مسئلہ اس کے اندورنی حالات کی پیداوار ہے۔افغانستان کا موقف بھی امریکی موقف سے ہم آہنگ ہے اور دونوں کی طرف سے پاکستان پر دبائو ڈالاجاتا ہے کہ وہ اپنے علاقے میں افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو مہیا کردہ سہولیات ختم کر کے انہیں مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور کرے۔جہاں تک طالبان کا تعلق ہے وہ اپنے مطالبے پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ افغانستان میں امن کے لیے واحد شرط ملک سے غیر ملکی افواج کا انخلاء ہے۔ اس کے علاوہ افغان طالبان نہ تو موجودہ کابل حکومت اور نہ ہی افغانستان کے موجودہ آئین کو تسلیم کرتے ہیں۔وہ اب بھی اپنے آپ کو افغانستان کا جائز اور قانونی حاکم تصور کرتے ہیں اور ان کا واضح موقف یہ ہے کہ کابل کی حکو مت ایک کٹھ پتلی حکومت ہے جو اپنے وجود کے لیے کلی طور پر امریکہ کی افواج اور امداد پر انحصار کرتی ہے۔اس کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارت کو افغانستان میں زیادہ فعال کردار ادا کرنے پر زور سے افغانستان کی گتھی سلجھنے کی بجائے اور بھی الجھ گئی ہے اورپاکستان نے اس پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے افغانستان میں بھارت کے اثرو رسوخ میں فروغ کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔پاکستانی موقف کے مطابق امریکہ کی طرف سے بھارت کو افغانستان میں اپنی سرگرمیوں خصوصاً اقتصادی شعبے میں مزید سرمایہ کاری کرنے کی دعوت جنوبی ایشیاء میں بھارتی بالادستی کے قیام کے مترادف ہے، پاکستان اسے اپنے قومی مفاد کے منافی سمجھتا ہے اور اس کے خلاف مزاحمت پاکستان کی نیشنل سکیورٹی پالیسی کا ایک اہم جزو ہے ۔ اگر امریکہ کی طرف سے اسی پر اصرار برقرار رہا تو افغانستان کے مسئلے پر پاکستان کے تعاون کی گارنٹی نہیں دی جا سکتی، کیونکہ اب تک افغانستان میں پاکستان نے جس قدر سیاسی اور سٹریٹیجک انویسٹمنٹ کی ہے اس کا واحد مقصد افغانستان سے بھارت کو دور رکھنا ہے لیکن صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ افغانستان میں بھی پاکستان کے اس سٹریٹیجک گول سے متفق ہیں ۔ بھارت کے افغانستان کے ساتھ معاشی ، تجارتی اور ثقافتی تعلقات دیرینہ ہی نہیں بلکہ گہرے بھی ہیں اور افغانستان میں کوئی بھی حکومت بر سر اقتدار آجائے وہ ان تعلقات کو ختم نہیں کرے گی اسی لئے حال ہی میں پاکستان میں افغانستان کے سفیر نے پاکستان سے کہا کہ اسے افغانستان اور بھارت کے تعلقات پر فکر مند نہیں ہونا چاہئے کیونکہ افغانستا ن بھارت کو اپنی سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کبھی اجازت نہیں دے گا، بھارت کے علاوہ پاکستان اور افغانستان کے دو طرفہ تعلقات کے فروغ اور دونوں ملکوں میں مکمل مفاہمت اور خیر سگالی کے قیام میں متعدد رکاوٹیں ہیں جنہیں دور کرنا آسان کام نہیں ، ان میں ایک تو پاکستان اور افغانستان کے درمیان بین الاقوامی سرحد کا مسئلہ ہے۔ افغانستان اس سرحد کو ایک مستقل سرحد تسلیم نہیں کرتا اس کے خیال میں یہ سرحد 1893ء میں انگریزوں نے یک طرفہ طور پر اور زبردستی افغانستان پر مسلط کی تھی ، دلچسپ بات یہ ہے کہ طالبان جن کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ پاکستان کے بہترین دوست ہیں نے بھی اپنے دور حکومت میں ڈیورنڈ لائن کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک بین الاقوامی سرحد کی حیثیت سے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔اس کی وجہ سے طالبان کی حکومت کے ہوتے ہوئے بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدہ صورت حال پیدا ہو گئی تھی، دوسرا مسئلہ افغانستان کی طرف سے پاکستان کے راستے بھارت کے ساتھ آزادانہ تجارت کی سہولت کا مسئلہ ہے ، اگرچہ موجودہ کشیدہ صورت حال سے قبل پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم دو ارب ڈالر سالانہ سے بھی زیادہ تھا مگر اس کا بیشتر حصہ افغانستان کوپاکستانی برآمدات پر مشتمل تھا ۔ افغانستان کے لئے بھارت ایک بہت بڑی منڈی ہے اور افغانستان بھارت کو اپنی زرعی پیداوار اور تازہ پھل بر آمد کر کے اپنی معیشت کو مضبوط بنا سکتا ہے مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ اسے پاکستان کا زمینی راستہ استعمال کرنے کی سہولت حاصل ہو ۔ تاہم پاکستان نے اپنی سہولت کو فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے ، اور اسے مسئلہ کشمیر کے حتمی حل سے نتھی کر دیا ہے ۔ پاکستان کی طرف سے افغانستان کو اپنے ٹرکوں میں مال واہگہ سرحد تک لے جانے کی اجازت ہے لیکن واپسی پر افغان ٹرکوں کو بھارتی سامان افغانستان لے جانے کی اجازت نہیں۔یہ وہ مسائل ہیں جنہوں نے افغانستان کے بظاہر ایک آسان مسئلے کو مشکل اور پیچیدہ بنا دیا ہے ۔ تاہم افغانستان پاکستان اور جنوبی ایشیا ء کے تمام ممالک کے عوام کا مفاد اسی میں ہے کہ افغانستان میں کشت و خون اور تباہی کا سلسلہ بند ہو ۔ اسی لئے اگر فریقین میں اس مقصد کے لئے کسی بھی سطح پر مذاکرات ہوں تو ان کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں