گزشتہ دنوں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ موجودہ وزیر اعظم نیا مینڈیٹ حاصل کرنے کے لئے نئے انتخابات کرائیں۔ عمران خان کے اس بیان اور مطالبے پر کسی کو حیران نہیں ہونا چاہئے‘ کیونکہ ان کی احتجاجی سیاست کا اصل مقصد محض سابق وزیر اعظم نواز شریف کو ان کے عہدے سے ہٹانا نہیں‘ بلکہ خود وزارت عظمیٰ کے عہدے پر متمکن ہونا تھا۔ اس کا اظہار انہوں نے دھرنا ون کے دوران ہی کر دیا تھا۔
28 جولائی کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت کو یقین تھا کہ اب موجودہ حکومتی ڈھانچہ تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائے گا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے عہدے سے ہٹتے ہی مسلم لیگ ن میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو جائے گا۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے جو ممبر نون لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے ہیں‘ وہ بغاوت کر دیں گے۔ نواز شریف اپنی جگہ جس شخص کو کرسی پر بٹھائیں گے‘ وہ معاملات کو سنبھال نہیں سکے گا۔ لیکن عمران خان کی توقعات کے بالکل برعکس نہ صرف پاکستان مسلم لیگ ن متحد رہی بلکہ اس نے نواز شریف کی قیادت پر بھرپور اعتماد کا اظہار بھی کیا۔ اسی طرح پنجاب اور مرکز میں حکومتیں ٹھیک چل رہی ہیں۔ ترقیاتی کاموں میں کوئی خلل نہیں پڑا اور اندرونی سلامتی اور امن و امان کی صورتحال میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی۔ سرحدوں پر صورتحال ویسی کی ویسی ہے اور خارجہ تعلقات میں بھی کسی تلاطم کے آثار نہیں‘ حالانکہ امریکی صدر کی 21 اگست کی تقریر کے بعد خدشہ تھا کہ پاک امریکہ تعلقات کسی بڑے بحران کا شکار ہو جائیں گے‘ لیکن موجودہ حکومت نے ٹرمپ کی طرف سے پاکستان پر الزام تراشیوں اور دھمکیوں کے بعد کی صورتحال کو بڑے عمدہ طریقے سے سنبھالا‘ اور خارجہ پالیسی کے محاذ پر پاکستان پہلے کے مقابلے میں زیادہ ممالک کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ نے باہمی مشاورت اور بحث کے عمل پر زیادہ انحصار کیا۔ ستمبر کے اوائل میں پاکستانی سفیروں کی اسلام آباد میں تین روزہ کانفرنس اس بات کا ثبوت ہے۔ موجودہ وزیر اعظم نے نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے جتنے اجلاس گزشتہ دو ماہ میں بلائے‘ اتنے شاید سابقہ وزیر اعظم کے پورے چار سالہ دور میں بھی نہیں بلائے گئے تھے۔ مشاورت کے اس عمل کی وجہ سے ہی پاکستان صدر ٹرمپ کی افغانستان کے بارے میں نئی پالیسی کے اعلان سے پیدا ہونے والی صورتحال سے موثر طور پر نمٹنے میں کامیاب ہوا۔ اس کا واضح ثبوت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم کی تقریر ہے‘ جس میں انہوں نے پاکستان کے بنیادی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے کشمیر اور افغانستان کے مسائل حل کرنے کے لئے ٹھوس اور تعمیری تجاویز پیش کیں۔ اس تازہ صورتحال پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستان کو نہ تو خارجہ تعلقات اور نہ ہی اندرونی معاملات میں کسی بڑے بحران کا سامنا ہے۔ اس صورتحال نے عمران خان کو باور کرا دیا کہ موجودہ حکومت کی ملکی معاملات پر گرفت مضبوط ہے اور آئندہ انتخابات تک اس کے ڈھیلے پڑنے کے کوئی امکانات نہیں۔ اس دوران لاہور کے قومی اسمبلی کے حلقہ 120کے نتائج نے بھی عمران خان کو 2018ء کے انتخابات کے بارے میں فکرمند کر دیا‘ اور ان کے سامنے نئے انتخابات کے مطالبے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ لیکن باقی تمام سیاسی پارٹیوں نے عمران خان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ پاناما کیس سامنے آنے کے بعد پیپلز پارٹی‘ ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کا موقف یہ تھا کہ سابقہ وزیر اعظم نواز شریف کو عہدے سے فارغ ہو جانا چاہئے‘ تاہم موجودہ اسمبلیاں برقرار رہنی چاہئیں اور انہیں اپنی مدت پوری کرنی چاہئے۔ اسی طرح اے این پی‘ قومی وطن پارٹی یا بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے بھی موجودہ اسمبلیوں کو تحلیل کرنے اور نئے انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ نہیں کیا تھا‘ حتیٰ کہ 28 جولائی کے فیصلے سے قبل پی ٹی آئی کے رہنما بابر اعوان نے جب ایک موقعہ پر یہ بیان دیا کہ ان کی پارٹی وزیر اعظم کی ہی نہیں‘ حکومت کی بھی تبدیلی چاہتی ہے‘ تو اس وقت پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت اور خود عمران خان نے بابر اعوان کے اس بیان کو ان کی ذاتی رائے قرار دے کر اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔ پھر آخر عمران خان نئے انتخابات کا مطالبہ کیوں کر رہے ہیں؟ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی اور وزارت عظمیٰ سے علیحدگی کے بعد نیب اور احتساب عدالت جس طرح حرکت میں آئی‘ اس کے باعث حکومت سخت دبائو میں ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی احتساب عدالت میں پیش ہو رہے ہیں۔ پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی سیاسی جماعتیں اب ان کے بھی استعفے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ اسی طرح وفاقی کابینہ کے ایک اور رکن وزیر خارجہ خواجہ آصف پر بھی نااہلی کا مقدمہ چل رہا ہے۔ جلد ہی ان سے بھی مستعفی ہونے کا مطالبہ میڈیا کی ہیڈلائنز بن جائے گا‘ کیونکہ انہوں نے خارجہ پالیسی کو ملک کے اندرونی حالات سے مشروط کرکے کچھ حلقوں کو ناراض کر رکھا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عمران خان اور شیخ رشید کی یہ توقع کہ حکومت نواز شریف کی نااہلی اور وزارت عظمیٰ سے علیحدگی کے بعد زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکے گی‘ پوری نہیں ہوئی۔ پی ٹی آئی کو ڈر ہے کہ اگر حالات ایسے ہی رہے تو مسلم لیگ ن کی حکومت مزید مستحکم ہو کر اپنی انتخابی سپورٹ میں اضافہ کر سکتی ہے۔ تیسرے‘ این اے 120 میں ضمنی الیکشن کے نتائج نے عمران خان اور ان کی پارٹی کو حوصلہ دلایا ہے کہ قبل از وقت انتخابات کے نتائج ان کے حق میں ہوں گے‘ کیونکہ نواز شریف نہ صرف اسمبلی سے باہر ہیں بلکہ اپنی پارٹی کی قیادت بھی نہیں کر سکتے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کا آئندہ صدر کون ہو گا؟ اس کا بھی ابھی تک فیصلہ نہیں ہو سکا۔ پنجاب‘ جسے مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا ہے‘ بھی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے‘ کیو نکہ لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے ماڈل ٹائون میں پولیس کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے چودہ افراد کے کیس کے بارے میں جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ پنجاب حکومت نے اگرچہ اس حکم کے خلاف انٹرا کورٹ میں اپیل کی‘ لیکن اسے ہائی کورٹ کے لارجر بینچ سے سنگل بینچ کے حکم کے خلاف حکم امتناعی نہیں مل سکا۔ اس لئے عمران خان سمجھتے ہیں کہ قبل از وقت انتخابات کروانے کا یہ بہترین موقع ہے‘ کیونکہ مسلم لیگ کی قیادت مقدمات کے دبائو کے تحت انتخابی مہم میں موثر طور پر حصہ نہیں لے سکے گی۔ پی ٹی آئی کے رہنما اپنے مطالبے کے حوالے سے حمایت حاصل کرنے کی خاطر دوسری پارٹیوں سے رابطے کر رہے ہیں‘ لیکن اس کی صف میں وہی سیاسی پارٹیاں کھڑی ہونے کے لئے تیار ہوں گی‘ جن کا موجودہ سیٹ اپ میں کم سے کم سٹیک ہو‘ جیسے مسلم لیگ ق۔ لاہور کے ضمنی انتخاب میں ''تحریک لبیک یا رسول اللہ‘‘ اور ''ملی مسلم لیگ‘‘ نے جس تناسب سے ووٹ حاصل کئے‘ ان کے پیش نظر ان دو جماعتوں کی طرف سے بھی عمران خان کے مطالبے کی حمایت کی توقع کی جا سکتی ہے‘ تاہم سراج الحق فوری انتخابات کی حمایت کرتے نظر نہیں آتے۔ پی ٹی آئی نے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کو ہٹانے کے لئے ایم کیو ایم (پاکستان) کا اتفاق رائے تو حاصل کر لیا‘ لیکن فوری انتخابات پر فاروق ستار نے کوئی وعدہ نہیں کیا۔ غالباً اس کی وجہ حال ہی میں ایم کیو ایم سے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کا پاک سرزمین پارٹی میں شامل ہونا ہے۔ ایم کیو ایم کا دعویٰ ہے کہ اس کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے۔ اگر اس الزام میں کوئی صداقت ہے تو ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کی طرح نئے اور فوری انتخابات کا رسک نہیں لے سکتی۔ اور جب تک پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پی آئی ٹی کے ساتھ مل کر قبل از وقت انتخابات کے حق میں آواز بلند نہیں کرتیں‘ عمران خان کا مطالبہ عملی شکل اختیار کرتا نظر نہیں آتا۔