"DRA" (space) message & send to 7575

پاکستان‘ چین اور افغانستان

حال ہی میں پاکستان‘ چین اور افغانستان کے اعلیٰ سرکاری نمائندوں کی ایک کانفرنس کابل میں منعقد ہوئی۔ یہ کانفرنس تینوں ملکوں پر مشتمل ایک سہ فریقی میکانزم کے تحت منعقد ہوئی اور اس کا مقصد افغانستان میں تعمیرو ترقی کے عمل کو تیز کرنا اور چین کی طرف سے شروع کئے گئے ''بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ اور افغانستان کے بارے میں علاقائی اکنامک کوآپریشن کانفرنس کے دائرے میں رہتے ہوئے تینوں ملکوں کے باہمی تعلقات اور تعاون کو فروغ دینا ہے۔ اپنی نوعیت کی یہ دوسری کانفرنس ہے۔ اس دو روزہ کانفرنس میں شریک تینوں ممالک نے چند اہم امور پر اتفاق بھی کیا ہے۔ ان میں پالیسی کمیونی کیشن‘ انفراسٹرکچر‘ ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ‘ معیار زندگی کو بہتر بنانا اور عوامی سطح پر روابط کو فروغ دینا شامل ہے۔ کانفرنس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ سہ فریقی میکانزم کے تحت ان تینوں ملکوں میں صلاح مشورے کا عمل جاری رہے گا اور اس سلسلے میں اگلی کانفرنس اسلام آباد میں ہو گی۔
افغانستان کے بارے میں پاکستان اور چین کے درمیان صلاح مشورے اور عملی اقدام کے لئے سہ فریقی میکانزم کے علاوہ اور بھی فورم ہیں۔ ان میں ''ہارٹ آف ایشیاکانفرنس ‘‘یا استنبول پراسیس کے علاوہ ''چہار فریقی تعاون گروپ‘‘ بھی موجود ہے۔ اس گروپ میں ان تینوں ملکوں کے علاوہ امریکہ بھی شامل ہے۔ اسی گروپ کی کاوش سے جولائی 2015ئمیں مری (پاکستان) میں پہلی مرتبہ افغان طالبان اور کابل حکومت کے درمیان مذاکرات ہوئے تھے۔ لیکن مذاکرات کا یہ سلسلہ آگے نہ چل سکا ۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی امور اور باہمی تعلقات خصوصاً تجارت کے بارے میں بات چیت کے لئے میکانزم دو طرفہ بنیادوں پر استوار ہے۔ چونکہ افغانستان ایک مقامی نہیں‘ علاقائی بلکہ عالمی مسئلہ بن چکا ہے‘ اس لئے جنوبی ایشیا سے باہر خطوں یعنی وسطی ایشیا سے تعلق رکھنے والے ممالک مثلاً تاجکستان‘ ازبکستان اور قازقستان کے درمیان تعاون‘ ذرائع آمدورفت اور توانائی کے وسائل کو ترقی دینے کیلئے دیگر میکانزم بھی موجود ہیں۔ان میں روس بھی شامل ہے اور نیٹو کے تحت برسلز ‘ لندن‘ پیرس اور برلن میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنسوں میں بھی افغانستان کے مسئلے پر بحث کی جاتی ہے‘ لیکن سہ فریقی کانفرنس ‘ جس کا دوسرا اجلاس حال ہی میں کابل میں ہوا‘ کئی لحاظ سے دوسرے میکانزم کے مقابلے میں زیادہ مفید‘ موثر اور بارآور ثابت ہو سکتا ہے۔ مثلاً اس میں صرف تین ممالک یعنی پاکستان ‘ چین اور افغانستان شامل ہیں۔ صرف تین ممالک پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اس فورم پرافغانستان کے مسئلے پر جم کر بات ہو سکتی ہے۔ افغانستان کے مسئلے پر پاکستان اور چین کے نقطہ نظر میں بہت حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان اور چین کے درمیان بھی اقتصادی اور تجارتی شعبوں میں قریبی تعلقات موجود ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان اور افغانستان کی طرح افغان طالبان بھی چین پر اعتماد کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے موجودہ صدر اشرف غنی تین سال قبل حلف اٹھانے کے فوراً بعد بیجنگ کا دورہ کرکے چینی رہنمائوں سے افغانستان میں امن اور مصالحت کے عمل کو آگے بڑھانے میں مدد کی درخواست کی تھی۔ پاکستان‘ چین اور افغانستان کے درمیان سہ فریقی کانفرنس کے اس اجلاس کی اہمیت اس لحاظ سے اور بھی نمایاں ہوتی ہے کہ یہ وزیر اعظم جناب شاہد خاقان عباسی کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کے بعد منعقد ہوا ۔اس تقریر میں پاکستان کے وزیر اعظم نے افغانستان کیساتھ ہر سطح پر مذاکرات کے ذریعے باہمی تعلقات کومزید بہتر بنانے اور افغان امن کے عمل میں پاکستان کے مثبت کردار کی ادائیگی کیلئے پیشکش کی تھی۔ اس سے قبل افغانستان کے صدر اشرف غنی نے عید الاضحی کے موقعہ پر کابل اور اسلام آباد کے درمیان بات چیت کے دروازے کھولنے کی تجویز پیش کی تھی۔ یاد رہے کہ 21اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اپنی تقریر میں افغان مسئلے کے حل کیلئے بات چیت کا راستہ اپنانے کو اپنی حکومت کی پالیسی میں اولین ترجیح قرار دیا تھا۔ اس موقف کو امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے اپنے حالیہ دورہ کابل کے دوران بھی دہرایا۔ انہوں نے کہا کہ امن اور اپنی سیاسی بقا کیلئے طالبان کے پاس سوائے بات چیت کے اورکوئی چارہ کار نہیں۔ 
اکتوبر 2017 ء میں افغانستان پر امریکہ کے حملے کو 16برس ہو جائیں گے۔ لیکن اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس جنگ کے اختتام کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بالکل درست کہا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی طرف سے مزید افواج بھیجنے سے کوئی فرق نہیں پڑیگا کیونکہ جس جنگ کو ایک لاکھ سے زائد امریکی اور نیٹو افواج نہیں جیت سکیں‘ اسے تین چار ہزار مزید امریکی سپاہی کیسے جیت سکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر طرف سے بات چیت کے ذریعے مسئلے کے حل پر زور دیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف امریکہ کو بھی احساس ہوتا جا رہا ہے کہ پاکستان کو دھمکیوں سے مرعوب نہیں کیا جا سکتا بلکہ افغانستان میں قیام امن اور استحکام کے لئے پاکستان کا تعاون ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر خارجہ خواجہ آصف اپنے امریکی ہم منصب ریکس ٹلرسن کی دعوت پر واشنگٹن میں ہیں۔ وہ امریکی حکام سے علاقائی صورتحال خصوصاً افغانستان کے مسئلے اور اس کے حل کے بارے میں پاکستانی نقطہ نظر پر بات کریں گے۔ اس کا ذکر خواجہ آصف نے اسلام آباد میں نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ میں کیا ہے۔ یاد رہے کہ وزیر خارجہ خواجہ آصف وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی سرکردگی میں نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کرنے والے وفد کے بھی رکن تھے اور انہوں نے نیو یارک میں ایک امریکی تھنک ٹینک ''ایشیا سوسائٹی‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے بھی افغانستان کے مسئلے پر پاکستان کے موقف کو دوٹوک اور کھرے کھرے الفاظ میں بیان کیا تھا۔ علاقائی سلامتی خصوصاً افغانستان میں قیام امن کی خاطر موجودہ سفارتی سرگرمیوں میں تیزی دو عوامل کی رہین منت ہے۔ ایک یہ کہ پاکستان کی موجودہ حکومت نے صدر ٹرمپ کی پاکستان مخالف تقریر سے پیدا ہونے والی صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے درست حکمت عملی اپنائی۔ ایک طرف پاکستان نے ٹرمپ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے بنیادی قومی مفادات پر کمزوری دکھانے سے انکار کر دیا ۔ اور دوسری طرف اپنے ارد گرد واقع دوست ہمسایہ ممالک کے ساتھ رابطہ قائم کرکے ان کی حمایت حاصل کرنیکی کوشش کی ۔ ان ممالک میں چین‘ ایران اور سعودی عرب شامل ہیں۔ اس کیساتھ ہی حکومت نے خارجہ پالیسی کا از سر نو جائزہ لینے اور اس کی سمت درست کرنے کے لئے اہم ممالک میں تعینات اپنے سفیروں کی اسلام آباد میں تین روزہ کانفرنس بلائی۔ اس کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے وزیر خارجہ خواجہ آصف جبکہ اختتامی اجلاس سے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے خطاب کیا۔ اگرچہ اس کانفرنس کی کارروائی اورسفارشات کو عام نہیںکیا گیا‘ تاہم باخبر ذرائع کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس کانفرنس میں شرکا نے پاکستان کی خارجہ پالیسی پر کھل کر اور بغیر کسی لگی لپٹی کے بات کی اور اس شعبے میں اب تک کی جانے والی غلطیوں اور خامیوں کی نشان دہی کی۔ کانفرنس کی سفارشات کی روشنی میں خارجہ پالیسی کی سمت درست کرنے کا فائدہ پاکستان کو پہنچنا شروع ہو گیا ہے اور اس کا سب سے زیادہ واضح ثبوت یہ ہے کہ امریکہ نے پاکستان پر دبائو ڈالنے کی بجائے اس کا تعاون حاصل کرنے کیلئے اس کے وزیر خارجہ کو بات چیت کیلئے امریکی دورے کی دعوت دی ہے۔ سفارتی محاذ پر حالات کا پاکستان کے حق میں رخ موڑنے میں چین نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔اس کا اظہار حال ہی میں پاکستان میں چین کے ڈپٹی چیف آف مشن لی جیان زائو نے ایک اخباری انٹر ویو میں کیا۔ چین کے سینئر سفارت کار کے مطابق چین‘ پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ علاقے میں امن اور استحکام کو فروغ مل سکے۔ چینی سفارت کار کے مطابق چین کی یہ کوششیں بارآور ثابت ہو رہی ہیں ۔ عنقریب پاکستان‘ چین اور افغانستان کے درمیان وزرائے خارجہ کی سطح پر ایک اعلیٰ سطح کی کانفرنس منعقد ہونے والی ہے‘ جس کی تیاری کا عمل جاری ہے۔
کابل میں پاکستان ‘ چین اور افغانستان کے درمیان سہ فریقی کانفرنس چین کی اسی شٹل ڈپلومیسی کا نتیجہ ہے۔ خیال ہے کہ اسلام آباد میں اس سہ فریقی کانفرنس کے آئندہ اجلاس میں اعلیٰ حکام کے علاوہ تینوں ملکوں کے وزرائے خارجہ بھی شرکت کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں