قومی اسمبلی میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کے درمیان اتفاق رائے سے آئینی ترمیمی بل 2017ء کی منظوری ایک دفعہ پھر ثابت کرتی ہے کہ ملک جب کسی بحرانی کیفیت سے دوچار ہو تو اس کا حل صرف جمہوری ماحول میں باہمی مشاورت سے ہی ممکن ہے۔ اس بل کی منظوری سے ملک ایک آئینی بحران سے بچ گیا ہے کیونکہ آئین کے مطابق 2018ء کے انتخابات کا انعقاد 2017ء کی مردم شماری کے حتمی نتائج کی روشنی میں نئی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر ہی ممکن تھا‘ لیکن مردم شماری کے حتمی نتائج ابھی آنا باقی ہیں۔ اس لئے اس کے عبوری نتائج کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کے ساتھ اگلے انتخابات منعقد ہوں گے۔ سینیٹ سے منظوری کے بعد بل صدر مملکت کے دستخط کے لئے پیش کیا جاتا ہے‘ جس کے بعد یہ قانون کی حیثیت اختیار کرکے آئین کا حصہ بن جاتا ہے۔ قومی اسمبلی میں اس اہم آئینی ترمیم کی منظوری سے قبل ملک میں سیاسی ماحول خطرناک حد تک مایوس کن تھا۔ سندھ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم (پاکستان) نے تازہ ترین مردم شماری کے نتائج کو مسترد کرنے کا اعلان کر رکھا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ کراچی اور سندھ کی آبادی کو جان بوجھ کر کم دکھایا گیا ہے۔ ان پارٹیوں کی طرف سے مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ نئی مردم شماری کرائی جائے۔ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہے تھے بلکہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ حال ہی میں انہوں نے پنجاب‘ کے پی اور سندھ میں ایک کے بعد دوسرے جن نصف درجن سے زیادہ جلسوں سے خطاب کیا‘ وہ فوری انتخابات کے حق میں ایک عوامی تحریک تھی۔ ایک موقعہ پر تو انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہو سکتا ہے کہ موجودہ حکومت کی چھٹی ہو جائے تو اس صورت میں آئین کی رو سے 90 دن کے اندر نئے انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہو گا۔ حالانکہ مسئلہ وہیں کا وہیں رہنے کا احتمال تھا کیونکہ اگلے انتخابات کے لئے نئی حلقہ بندیاں لازمی ہیں اور آئین کے مطابق نئی حلقہ بندیوں کا اس وقت تک امکان نہیں جب تک مردم شماری کے حتمی نتائج نہیں آ جاتے۔ اس لئے بہت سے لوگ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ عمران خان کیا سوچ کر فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس کا جواب سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ عمران خان کا اصل ہدف نئے انتخابات نہیں بلکہ موجودہ حکومت کی رخصتی ہے‘ جسے وہ نمائشی حکومت قرار دیتے ہیں؛ تاہم عمران خان کی طرف سے فوری انتخابات پر اصرار کی وجہ سے باقی سیاسی پارٹیوں کو جمہوری عمل کے تسلسل کے حق میں متحد ہونے کا موقعہ مل گیا۔ نہ صرف حکمران جماعت مسلم لیگ ن بلکہ اپوزیشن پارٹی پیپلز پارٹی کے ساتھ دیگر سیاسی جماعتوں مثلاً ایم کیو ایم (پاکستان)‘ عوامی نیشنل پارٹی‘ جمعیت علمائے اسلام (ف) حتیٰ کہ کے پی میں پی ٹی آئی کی حلیف جماعت اسلامی نے بھی فوری اور قبل از وقت انتخابات کے مطالبے کی مخالفت کی۔ ان پارٹیوں کا موقف ہے کہ موجودہ اسمبلیوں کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا موقعہ ملنا چاہئے اور انتخابات اپنے وقت پر ہونے چاہئیں تاکہ پاکستان میں نمائندہ اداروں کی آئینی مدت پوری کرنے کی روایت مستحکم ہو اور جمہوری عمل کا تسلسل قائم رہے۔ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت اور اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت پوری کرکے اور وقت پر انتخابات کے بعد نئی حکومت کو اقتدار منتقل کرکے ایک اچھی روایت قائم کی تھی۔ جمہوری قوتوں کی کوشش ہے کہ یہ روایت قائم رہے اور موجودہ اسمبلیاں بھی اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد تحلیل ہوں اور انتخابات وقت پر ہوں‘ جس کے بعد نئی حکومت کو اقتدار منتقل ہو۔ بیشتر سیاسی پارٹیوں کو یقین ہے کہ اگر یہ روایت قائم رہی تو ملک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوں گی‘ اور غیر جمہوری قوتوں کی حوصلہ شکنی ہو گی‘ لیکن ملک میں اب بھی ایسے عناصر موجود ہیں‘ جنہیں یہ عمل سخت ناگوار گزرتا ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ یہ روایت مستحکم ہو۔ اس لئے کبھی وہ بلا جواز قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ‘ اور کبھی ایک منتخب اور جمہوری حکومت کی چھٹی کے امکان کا اظہار کرتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم پر پارلیمانی پارٹیوں‘ جن میں اپوزیشن پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف بھی شامل ہے‘ نے اتحاد کا مظاہرہ کرکے ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیاسی پارٹیاں نہ صرف جمہوری عمل کو لاحق خطرات سے آگاہ ہیں‘ بلکہ ان کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار بھی ہیں۔ اس قسم کے اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ اگست 2014ء میں بھی کیا گیا تھا‘ جب عمران خان کے دھرنے میں شریک افراد نے پارلیمنٹ پر دھاوا بولنے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت سیاسی پارٹیوں نے اتحاد کا مظاہرہ کرکے پارلیمنٹ کا دفاع نہیں کیا تھا‘ بلکہ پاکستان میں جمہوریت کو بچایا تھا۔ ہمارے سیاسی لیڈر اور سیاسی پارٹیاں پارلیمنٹ کی بالادستی کی بہت باتیں کرتی ہیں‘ لیکن یہ بالادستی صرف اسی صورت میں ممکن ہوتی ہے جب پارلیمنٹ کے ارکان‘ باہمی اتحاد کا مظاہرہ کرکے قوم کو کسی بڑے بحران سے باہر نکالیں‘ جیسا کہ 16 نومبر کو قومی اسمبلی میں موجود تمام پارلیمانی پارٹیوں نے متفقہ طور پر آئینی ترمیمی بل 2017ء کے حق میں رائے دے کر کیا۔ اس سے پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوں گی‘ سیاسی استحکام پیدا ہو گا اور بہت سے مسائل‘ جن کا اس وقت ہمارے عوام کو سامنا ہے‘ کے حل کے راستے نکل آئیں گے۔
نئی آئینی ترمیم کے بعد پاکستان کے چاروں صوبوں میں حلقہ بندیوں کو تازہ ترین مردم شماری کے عبوری نتائج کی بنیاد پر ترتیب دیا جائے گا۔ ان عبوری نتائج کی روشنی میں قومی اسمبلی کی عام نشستوں کی تعداد 272 ہی رہے گی‘ مگر پنجاب‘ کے پی کے‘ بلوچستان اور اسلام آباد کیلئے مختص نشستوں میں کمی بیشی ہو گی۔ مثلاً پنجاب میں 9 نشستیں (7جنرل اور ایک برائے خواتین) کم ہو جائیں گی؛ البتہ بلوچستان اور کے پی کے میں بالترتیب تین (دو جنرل اور ایک برائے خواتین) اور پانچ (چار جنرل اور ایک برائے خواتین)کا اضافہ ہو گا۔ اسی طرح اسلام آباد کو مزید نشستیں (یعنی ایک جنرل اور ایک برائے خواتین) حاصل ہوں گی۔ سندھ اور فاٹا کی نشستوں میں کوئی ردوبدل نہیں ہو گا۔ پارلیمنٹ میں تازہ ترین مردم شماری کے عبوری نتائج کو بنیاد بنا کر 2018ء کے انتخابات کیلئے حلقہ بندیوں کو از سر نو ترتیب دینے کیلئے آئینی ترمیم کے حق میں سیاسی پارٹیوں نے جس طرح اتحاد کا مظاہرہ کیا‘ اس سے نہ صرف ہماری سیاسی پارٹیوں کی بالغ نظری اور جمہوری‘ سیاسی عمل کی تقویت ثابت ہوتی ہے بلکہ اس سے دو بڑے فائدے بھی حاصل ہوئے ہیں‘ جو ملک میں سیاسی بے یقینی اور سیاسی انتشار کو ختم کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوں گے۔ ایک یہ کہ اس ترمیم سے اگلے انتخابات کا بروقت انعقاد یقینی ہو گیا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمٰن نے درست فرمایا کہ اگر سیاست دانوں نے اتحاد کا مظاہرہ نہ کیا تو 2018ء کے انتخابات کا بروقت انعقاد مشکوک ہو جائے گا۔ مولانا صاحب کے اس اہم بیان کا سیاق و سباق یہ ہے کہ کچھ حلقوں کی طرف سے آئندہ انتخابات کے بروقت انعقاد پر سوال اٹھایا جا رہا ہے۔ بعض حلقے‘ جو ایک عرصے سے ملک میں جمہوری کے بجائے ٹیکنوکریٹس کی حکومت کی وکالت کر رہے تھے‘ انتخابات کو غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کرنے پر اصرار کر رہے ہیں۔ کچھ حلقے انتخابات سے پہلے احتساب کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ایک معروف سیاست دان‘ جو اکثر بیک وقت کئی ٹی وی چینلز کے پاپولر مہمان ہوتے ہیں‘ نے حال ہی میں ایک سوال کے جواب میں انتخابات کے انعقاد پر شک کا اظہار کیا۔ یاد رہے کہ یہ سیاست دان مقتدر حلقوں کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں۔ اگرچہ جمہوری عمل کے تسلسل کو نقصان پہنچانے اور انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی تمام سازشیں ختم نہیں ہوئیں؛ تاہم اس آئینی ترمیم سے نئے انتخابات کے بروقت انعقاد کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ اسی طرح اس آئینی ترمیم سے نئی مردم شماری کے نتائج پر پیدا ہونے والے بحران کی شدت بھی کم ہو گئی ہے‘ کیونکہ تمام پارٹیوں نے مردم شماری کے عبوری نتائج کو نئی حلقہ بندیوں کی بنیاد کے طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم (پاکستان) نے اپنے تحفظات سے دستبرداری اختیار نہیں کی؛ تاہم ان تحفظات کو دور کرنے کے لئے مزید بات چیت کی یقین دہانی پر ان پارٹیوں کی طرف سے حکومت کے ساتھ تعاون پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل اور سیاسی استحکام کیلئے اچھا شگون ہے۔ آئینی ترمیم 2017ء کی متفقہ منظوری نہ صرف اپوزیشن کی سیاسی پارٹیوں بلکہ حکمران جماعت کی طرف سے کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کی بنیاد پر ایک جمہوری سپرٹ کا مظاہرہ ہے۔