اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دینے اور وہاں اپنے سفارت خانے کو منتقل کرنے کے فیصلے کے خلاف پیش کی گئی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کر لی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے کل 193 رکن ممالک میں سے 128 نے قرارداد کے حق اور 9 نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ 35 ممالک نے ووٹ دینے سے احتراز کیا۔ صدر ٹرمپ کے فیصلے کی مخالفت کرنے والوں میں امریکہ کے قریبی یورپین اتحادی ممالک بھی شامل ہیں۔ بیت المقدس پر یہ قرارداد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس لئے پیش کی گئی کہ اس نوع کی ایک قرارداد کو اس عالمی ادارے کی سکیورٹی کونسل میں امریکہ نے ویٹو کر دیا تھا۔ سکیورٹی کونسل میں بھی اس قرارداد کے حق میں امریکہ کے سوا کونسل کے تمام اراکین نے ووٹ دیا تھا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ فلسطین کے مسئلے پر دنیا کے بہت کم ممالک امریکہ کا ساتھ دینے پر تیار ہیں۔ جن ممالک نے اسمبلی میں قرارداد کی مخالفت کرکے امریکہ کی حمایت کی ہے‘ انہیں بھی امریکہ نے ڈرا دھمکا کر اور دبائو ڈال کر ایسا کرنے پر مجبور کیا۔ سکیورٹی کونسل میں ہونے والی اپنی درگت دیکھ کر صدر ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ اقوام متحدہ میں جو ممالک اس کے خلاف ووٹ دیں گے‘ امریکہ ان کی امداد بند کر دے گا۔ ایسے ممالک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اور دھمکی دیتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ یہ ممالک امریکہ سے کروڑوں بلکہ اربوں ڈالر کی امداد لیتے ہیں اور پھر امریکہ کے خلاف ووٹ دیتے ہیں۔ دھمکی آمیز انداز میں صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ اگر ان ممالک نے یہی روش جاری رکھی تو امریکہ ان کی امداد بند کر دے گا۔ سکیورٹی کونسل میں امریکی مندوب نکی ہیلے تو صدر ٹرمپ سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئیں۔ جن ممالک کے بارے میں امریکہ کو شبہ تھا کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں صدر ٹرمپ کے اقدام کے خلاف ووٹ دیں گے‘ انہیں ای میل کے ذریعے ایک پیغام ارسال کرتے ہوئے امریکی مندوب نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں ہدایت کی ہے کہ وہ ایسے ممالک کے بارے میں رپورٹ بھیجیں کیونکہ صدر ٹرمپ ان ممالک پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود جنرل اسمبلی میں رکن ممالک کی بھاری تعداد نے امریکی مؤقف مسترد کرتے ہوئے بیت المقدس کی سابقہ حیثیت برقرار رکھنے کی سفارش کی ہے۔ ان میں پاکستان بھی شامل ہے‘ بلکہ فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے طور پر پاکستان نے اس قرارداد کی سرپرستی بھی کی‘ جو کہ مصر نے پیش کی تھی۔ یاد رہے کہ سب سے زیادہ امریکی امداد وصول کرنے والے ممالک میں اسرائیل کے بعد مصر اور پاکستان کا نمبر آتا ہے‘ لیکن ان ممالک نے امریکی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بیت المقدس پر امریکی فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ وہی اقوام متحدہ کا ادارہ ہے جس کے ارکان کو ماضی میں امریکہ مختلف ہتھکنڈوں سے ڈرا دھمکا کر یا لالچ دے کر اپنے حق میں فیصلے کروانے میں کامیاب ہوتا تھا۔ اس کی سب سے نمایاں مثال خود فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام کے حق میں نومبر 1947ء میں دو تہائی اکثریت سے قرارداد کی منظوری ہے۔ امریکہ کی اس سفارتی کامیابی کا پس منظر یہ ہے کہ جب دوسری جنگ عظیم کے بعد عربوں اور یہودیوں میں طویل مذاکرات کے باوجود مسئلہ فلسطین پر فریقین میں کوئی سمجھوتہ نہ ہو سکا‘ تو برطانیہ‘ جو پہلی جنگ عظیم کے اختتام سے لیگ آف نیشنز کے مینڈیٹ کے تحت فلسطین کے انتظام و انصرام کا مالک چلا آ رہا تھا‘ نے یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں پیش کر دیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنے آپ کو ایڈہاک کمیٹی میں تبدیل کرکے اس مسئلے پر بحث و تمحیص کا آغاز کر دیا۔ اس میں امریکہ اور مغربی ممالک‘ جن میں روس‘ فرانس اور برطانیہ بھی شامل تھے‘ فلسطین کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کرکے دو ریاستوں کے قیام کے حق میں تھے‘ جبکہ عرب اور مسلم رکن ممالک اس تجویز کی مخالفت کر رہے تھے۔ اس وقت اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی تعداد محدود تھی اور ان میں سے بھی اکثریت کا تعلق یورپ اور لاطینی امریکہ سے تھا۔ لیکن جنرل اسمبلی میں فلسطین کی تقسیم کے لئے ایک ایسی قرارداد کی منظوری درکار تھی‘ جسے کم از کم دو تہائی اکثریت حاصل ہو۔ امریکہ نے اقوام متحدہ میں اپنے اثر و رسوخ کو کام میں لا کر رکن ممالک کی اکثریت کو تو اپنے حق میں کر لیا تھا‘ مگر دو تہائی اکثریت کے حصول کی خاطر امریکہ نے اس وقت سیاسی دبائو‘ دھونس اور لالچ پر مشتمل جو ہتھکنڈے استعمال کئے‘ وہ اقوام متحدہ کے ریکارڈ کے حصے کے طور پر اب تک محفوظ ہیں۔ ایسے ہی ہتھکنڈوں سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے حق میں ایک قرارداد منظور کروانے کی مثال 1951ء میں کوریا کے مسئلے پر تھی۔ اسے یونائٹنگ فار پیس (Uniting For Peace) ریزولیوشن کہا جاتا ہے۔ اس قرارداد کی بنیاد پر امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر شمالی کوریا پر حملہ کیا تھا۔
لیکن 1960ء کی دہائی اور اس کے بعد جب افریقہ اور ایشیا کی محکوم قوموں کی ایک بڑی تعداد نوآبادیاتی تسلط سے آزاد ہو کر‘ اقوام متحدہ کی رکن بنیں تو اس ادارے کا نقشہ ہی تبدیل ہو گیا۔ اب جنرل اسمبلی میں اکثریت ان ممالک کی تھی جن کا تعلق ایشیا اور افریقہ سے تھا۔ اقوام متحدہ کی ہیئت میں اس بنیادی اور اہم تبدیلی کا عکس جنرل اسمبلی میں ووٹنگ کے بدلے ہوئے ڈھنگ میں بھی نظر آنا شروع ہو گیا‘ کیونکہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر زیادہ تر ایسے مسائل تھے‘ جن کا تعلق ایشیائی اور افریقی عوام کی آزادی اور خود مختاری سے تھا۔ ان میں فلسطین کا مسئلہ بھی شامل تھا‘ جس پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ہر سالانہ اجلاس میں ایسی قراردادیں منظور ہونے لگیں‘ جو فلسطین کے عوام کے حق میں اور اسرائیل اور امریکہ کے موقف کے خلاف ہوتیں۔ انہی قراردادوں میں سے ایک قرارداد کے ذریعے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یاسر عرفات کی تنظیم برائے آزادیٔ فلسطین (پی ایل او) کو اسمبلی میں مبصر کا درجہ دے دیا تھا اور اسرائیل کی اجلاس میں شرکت معطل کر دی تھی۔ امریکہ نے اس رجحان کو ''اکثریت کی آمریت‘‘ (Tyranny Of Majority) قرار دے کر سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا‘ اقوام متحدہ کے سالانہ بجٹ میں اپنے حصے کی رقم کم کر دی تھی اور اسرائیل کی حمایت میں اقوام متحدہ سے الگ ہونے کی دھمکی بھی دی تھی۔ لیکن جنرل اسمبلی‘ جس کے رکن ممالک کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہا تھا‘ میں یہ رجحان جاری رہا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں تو امریکہ ہر اس قرارداد کو بلاک کر سکتا ہے‘ جسے وہ اپنی پالیسی اور قومی مفاد کے خلاف سمجھتا ہو‘ لیکن جنرل اسمبلی میں بے بس ہے‘ کیونکہ یہاں سکیورٹی کونسل کے برعکس اس کے پاس ویٹو پاور نہیں ہے اور فیصلے سادہ اکثریت سے ہوتے ہیں جو کہ اکثر امریکہ کی خواہش کے خلاف ہوتے ہیں۔
اقوام متحدہ میں امریکہ کو اس دفعہ جس تنہائی کا سامنا کرنا پڑا ہے‘ وہ اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ سکیورٹی کونسل میں پانچ مستقل اراکین میں سے چار اور تمام غیر مستقل یعنی 10 ملکوں نے بیت المقدس پر امریکی اقدام کے خلاف ووٹ دیا۔ اس طرح جنرل اسمبلی میں فلسطین کے حق میں قرارداد کو دو تہائی اکثریت سے منظور کیا گیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ اقتصادی اور عسکری لحاظ سے دنیا کا سب سے طاقت ور ملک ہونے کے باوجود بین الاقوامی سطح پر تنہائی کا شکار ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ ٹرمپ کی اسرائیل نواز پالیسیاں ہیں۔