نئے سال کے پہلے دن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان پر جو بے بنیاد الزامات لگائے ہیں‘ ان پر حکومت‘ اپوزیشن اور عام شہریوں کی طرف سے سخت ردعمل توقع کے عین مطابق تھا۔ لیکن 2 جنوری کو نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جو اعلامیہ جاری کیا گیا‘ اس میں جوش سے زیادہ ہوش نمایاں طور پر نظر آ رہا ہے۔ اور ایسا ہی ہونا چاہئے‘ کیونکہ نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیاء کا پورا خطہ اس وقت انتہائی نازک حالات سے گزر رہا ہے۔ اس صورتِ حال میں محاذ آرائی اور سخت مؤقف اختیار کرنے کی پالیسی نہ تو پاکستان کے مفاد میں ہے اور نہ ہی اس سے جنوبی ایشیا یا دنیا کے امن کو کوئی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔
نیشنل سکیورٹی کونسل‘ جس میں سیاسی اور عسکری قیادت شامل ہے‘ نے صدر ٹرمپ کے بیان سے پیدا ہونے والی صورت حال کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لیا‘ اور اس کے بعد اس ادارے کی جانب سے جو رد عمل سامنے آیا ہے‘ اس میں پاکستان نے نا صرف اپنی پالیسیوں کا دفاع کیا ہے بلکہ بجا طور پر ان قربانیوں کا ذکر بھی کیا‘ جو پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دی ہیں اور ان نقصانات کا بھی جو امریکہ کے ساتھ تعاون کی وجہ سے اسے (پاکستان کو) اٹھانا پڑے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے بیان پر ''گہری مایوسی‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے کمیٹی نے بجا طور پر ٹرمپ کے بیان کو پاکستان اور امریکہ کے درمیان ''اعتماد‘‘ پر کاری ضرب قرار دیا ہے‘ کیونکہ ٹرمپ نے پاکستان کی طرف سے مبینہ عدم تعاون کو بنیاد بنا کر انتہائی نامناسب اور اشتعال انگیز الفاظ استعمال کئے ہیں۔ اعلامیہ میں بجا طور پر صدر ٹرمپ کے بیان کو سمجھ سے بالاتر قرار دیا گیا ہے کیونکہ 21 اگست کو ان کی تقریر کے بعد پاکستان اور امریکہ کے درمیان مختلف سطح پر مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تھا‘ اور ان مذاکرات سے حوصلہ افزا اور مثبت اشارے مل رہے تھے۔ یہ اشارے کہ دونوں ملک باہمی بات چیت سے اپنے اختلافات دور کر لیں گے اور آگے بڑھنے کی کوئی راہ نکال لی جائے گی۔ یاد رہے کہ گزشتہ برس 21 اگست کو صدر ٹرمپ نے افغانستان اور جنوبی ایشیا کے بارے میں اپنی حکومت کی نئی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان پر افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے جنگجوئوں کی اعانت کرنے اور انہیں اپنے ہاں پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام عاید کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے افغانستان میں مزید امریکی فوج بھیجنے اور طالبان پر فوجی دبائو ڈالنے کا اعلان کیا تھا۔ اس تقریر کے نتیجے میں پاک امریکہ تعلقات میں جو کشیدگی پیدا ہوئی تھی‘ اسے کم کرنے کے لئے پاکستان اور امریکہ کے درمیان نا صرف واشنگٹن بلکہ اسلام آباد میں بھی اعلیٰ سطح کے مذاکرات ہوئے تھے۔ واشنگٹن میں وزیر خارجہ خواجہ آصف نے امریکی حکام سے ملاقات کی اور اسلام آباد میں پاکستانی حکومت اور دفاعی حکام کے ساتھ بات چیت کے لئے جو امریکی حکام پاکستان تشریف لائے‘ ان میں اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ لیزا کرٹس‘ سنٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل ووٹل‘ سیکرٹری آف سٹیٹ ریکس ٹلرسن اور سیکرٹری ڈیفنس جیمز میٹس شامل ہیں۔ یہ مذاکرات خوش گوار ماحول میں ہوئے تھے اور ہر ملاقات کے بعد پاکستان اور امریکہ‘ دونوں کی طرف سے باہمی رابطوں کو جاری رکھنے اور دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے کی خواہش کا اظہار کیا گیا تھا‘ بلکہ امریکہ کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کامیابیوں اور افغانستان میں قیام امن اور مفاہمت کے فروغ میں پاکستان کے کلیدی کردار کا اعتراف بھی کیا گیا تھا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ نے افغانستان اور جنوبی ایشیا کے بارے میں اپنی انتظامیہ کی جس پالیسی کا اعلان کیا تھا‘ اس کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے امریکہ کو پاکستان سے جس تعاون کی توقع تھی‘ وہ پوری نہیں ہوئی‘ کیونکہ پاکستان کو اس پالیسی کے بعض پہلوئوں پر سخت تحفظات تھے۔ اسی وجہ سے امریکی حکام اور کانگرس کے حلقوں کی طرف سے پاکستان پر تنقید اور اس کے خلاف سخت اقدامات کے مطالبات میں اضافہ ہوتا رہا۔ سب سے پہلے امریکہ نے پاکستان کی ملٹری امداد میں نمایاں کمی کر دی اور جو امداد منظور کی گئی‘ اس کی فراہمی کو بھی اپنے محکمہ دفاع کی طرف سے سرٹیفکیٹ سے مشروط کر دیا کہ پاکستان نے امریکی مطالبات کے مطابق افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف اقدامات کئے ہیں یا نہیں۔ مطلب یہ کہ امریکی محکمہ دفاع تصدیق کرے گا تو پاکستان کو امداد مل سکے گی۔ چونکہ امریکی محکمہ دفاع کی طرف سے اس نوع کا کوئی سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا گیا اس لئے 255 ملین ڈالر کی اس امداد کو جاری نہ کیا جا سکا۔ اس کے بعد امریکی محکمہ دفاع کی طرف سے کانگرس کو ایک رپورٹ ارسال کی گئی‘ جس میں کہا گیا کہ اگر پاکستان نے قبائلی اور افغان سرحد کے ساتھ ساتھ واقع علاقوں میں حقانی نیٹ ورک کے محفوظ ٹھکانوں کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا تو امریکہ انہیں ختم کرنے کے لئے یک طرفہ کارروائی کرے گا۔ اس کے بعد کابل میں امریکی سیکرٹری آف ڈیفنس جیمز میٹس نے پاکستان کے خلاف ایک انتہائی تشویشناک بیان دیا تھا‘ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان کو نوٹس جاری کر دیا ہے کہ اس نے اب تک بقول امریکہ جو ڈبل پالیسی اختیار کئے رکھی ہے‘ اسے ترک کرنا پڑے گی۔ پاکستان نے امریکی سیکرٹری آف ڈیفنس کے اس بیان پر بھی احتجاج کیا تھا۔ صدر ٹرمپ کے تازہ بیان سے پہلے پاک فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک پریس کانفرنس میں ایک تحریری بیان میں کہا تھا کہ پاکستان اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ اور امریکہ کے تعاون میں بہت کچھ کر چکا ہے اور اب اس معاملے میں پاکستان کسی امریکی مطالبے کو قبول نہیں کرے گا۔ صدر ٹرمپ کا بیان اس پریس کانفرنس کے بعد آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی صدر پاکستان کی طرف سے مزید کچھ کرنے سے انکار پر سخت ناراض ہیں اور انہوں نے پاکستان پر 33 بلین ڈالر بطور امداد حاصل کرنے کے بدلے میں جھوٹ بولنے اور دھوکہ دینے کا الزام عاید کیا ہے۔ مگر پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے دانش مندی اور دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے ترکی بہ ترکی جواب دینے سے احتراز کیا ہے‘ کیونکہ پاکستان کے اندرونی حالات اس قسم کے ردعمل کی اجازت نہیں دیتے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ علاقائی اور عالمی ماحول محاذ آرائی کے لئے موزوں نہیں ہے۔ بین الاقوامی برادری کی خواہش ہے کہ جنوبی ایشیا میں تشدد کے استعمال اور دہشت گردی کا خاتمہ ہو اور افغانستان میں امن قائم ہو۔ اس کے لئے پاکستان اور امریکہ کو مل کر کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے بہترین دوست ملک چین کی بھی یہی خواہش ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت نے ٹھنڈے دل سے اور طویل صلاح مشورہ کرنے کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان صدر ٹرمپ کے بیان سے سخت مایوس ہونے کے باوجود جلد بازی میں کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرے گا۔ یہی مؤقف پاکستان کے مفاد میں اور مناسب بھی کیونکہ امریکہ اور پاکستان کے باہمی تعلقات کا منقطع ہونا دونوں کے مفاد میں نہیں۔
صدر ٹرمپ نے افغانستان اور جنوبی ایشیا کے بارے میں اپنی انتظامیہ کی جس پالیسی کا اعلان کیا تھا‘ اس کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے امریکہ کو پاکستان سے جس تعاون کی توقع تھی‘ وہ پوری نہیں ہوئی‘ کیونکہ پاکستان کو اس پالیسی کے بعض پہلوئوں پر سخت تحفظات تھے۔ اسی وجہ سے امریکی حکام اور کانگرس کے حلقوں کی طرف سے پاکستان پر تنقید اور اس کے خلاف سخت اقدامات کے مطالبات میں اضافہ ہوتا رہا۔ سب سے پہلے امریکہ نے پاکستان کی ملٹری امداد میں نمایاں کمی کر دی اور جو امداد منظور کی گئی‘ اس کی فراہمی کو بھی اپنے محکمہ دفاع کی طرف سے سرٹیفکیٹ سے مشروط کر دیا کہ پاکستان نے امریکی مطالبات کے مطابق افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف اقدامات کئے ہیں یا نہیں۔