امریکہ سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق نئے سال کے آغاز پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بے بنیاد الزامات پر مبنی اور مروجہ سفارتی آداب‘ اور آزاد اور خود مختار ملکوں کے باہمی تعلقات کے بنیادی اصولوں کے بالکل منافی مندرجات کا جو ٹویٹ پاکستان کے خلاف جاری کیا تھا‘ اس نے ٹرمپ کے قریبی ساتھیوں اور ان کی انتظامیہ کے اہلکاروں کو بھی حیران اور ششدر کر دیا تھا کیونکہ وہ دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور ترین ریاست کے سربراہ سے اس قسم کے غیر ذمہ دارانہ اقدام کی توقع نہیں رکھتے تھے۔ جیسا کہ امریکی صدر کے مشیر برائے مسلم افیئرز ساجد تارڑ نے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات 70 سال کے قریب پُرانے ہیں، اتنے پرانے اور قریبی تعلقات کو ایک یا دو ہفتوں میں ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہی سوچ ٹرمپ انتظامیہ کے دیگر اہم فوجی اور سیاسی اراکین کی ہے۔ ان میں سیکرٹری آف سٹیٹ ریکس ٹلرسن کے علاوہ سنٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل جوزف ووٹل بھی شامل ہیں۔ موخرالذکر مشرق وسطیٰ‘ مغربی ایشیا اور جنوبی ایشیا میں امریکی جنگی حکمت عملی اور آپریشنل پلان کے انچارج اور افغانستان کی جنگ سے براہ راست تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ٹیلی فون پر رابطہ کرتے ہوئے پاکستان کو یقین دلایا ہے کہ امریکہ ان کے ملک کے اندر گھس کر دہشت گردوں کے خلاف یک طرفہ کارروائی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اسی طرح ڈیپارٹمنٹ آف سٹیٹ کے سینئر اہلکاروں کی طرف سے پاکستان کے نام یہ پیغامات آ رہے ہیں کہ ٹرمپ کے دھمکی آمیز بیانات سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ امریکہ نے پاکستان کی امداد مستقل بنیادوں پر بند نہیں کی بلکہ عارضی طور پر معطل کی ہے۔ غالباً اسی قسم کی سوچ اور ماحول کے زیر اثر ٹرمپ ایک اور خطرناک اور مہم جویانہ اقدام کرنے سے باز آ گئے ہیں۔ اس کا تعلق ایران کیساتھ 2015 ء میں طے پانے والے جوہری معاہدے سے ہے۔
یہ معاہدہ برسہا برس کی محنت‘ سخت کاوش اور طویل مذاکرات کے بعد دو سال قبل ایران اور چھ ممالک‘ جن میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور یورپی یونین شامل ہیں‘ کے درمیان سابق امریکی صدر بارک اوباما کے دور میں طے پایا تھا۔ اس معاہدے کو پوری دنیا نے مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس میں امن کی جانب ایک اہم اقدام کے طور پر سراہا تھا کیونکہ امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے ایران کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنے کیلئے براہ راست حملے کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔ اس معاہدے کے تحت ایران نے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے لئے درکار یورینیم کی افزودگی کو ختم کرکے اپنے ایٹمی پروگرام کو محدود کر لیا تھا۔ اس کے بدلے امریکہ اور اقوام متحدہ کی طرف سے ایران پر جو اقتصادی اور مالی پابندیاں عائد کی گئی تھیں‘ انہیں مرحلہ وار اٹھایا جا رہا تھا۔ بہت سی پابندیاں ختم بھی کر دی گئی تھیں‘ جن کے نتیجے میں ایران پر اقتصادی دبائو میں واضح کمی رونما ہو چکی تھی‘ لیکن یہ معاہدہ ڈونلڈ ٹرمپ کو بہت کھٹکتا تھا۔ باقی دنیا اس معاہدے کو اوباما دور کی سب سے اہم اور شاندار سفارتی کامیابی قرار دیتی تھی‘ ٹرمپ کے نزدیک یہ بدترین معاہدہ تھا اور صدارتی انتخابات کے دوران اس نے اپنی مہم میں اس معاہدے کو برسر اقتدار آکر ختم کرنے کے ارادے کا اعلان کیا تھا۔
اس معاہدے کی شرائط کے تحت ایران کے خلاف امریکہ نے جن پابندیوں کو ختم کر دیا تھا‘ ٹرمپ انہیں دوبارہ عائد کرنے کا ارادہ رکھتے تھے‘ اور اس مقصد کیلئے وہ جمعہ کو فیصلہ کرنے والے تھے۔ ٹرمپ کے ممکنہ فیصلے سے پوری دنیا اور خصوصاً یورپ میں سخت تشویش کی فضا پیدا ہو چکی تھی کیونکہ ایران نے اعلان کر رکھا تھا کہ اگر ٹرمپ نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران کے خلاف پابندیوں کو دوبارہ نافذ کیا تو ایران اس معاہدے کی ان شرائط سے دستبردار ہو جائے گا‘ جن کا تعلق ایران سے ہے‘ یعنی ایران یورینیم کی افزودگی کا عمل دوبارہ شروع کر دے گا۔
ٹرمپ کی دھمکی اور ایران کے جواب سے مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس کے علاقوں میں ایک نئے بحران کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا؛ تاہم خوش قسمتی سے صدر ٹرمپ نے یہ اقدام مزید چار ماہ تک مؤخر کر دیا ہے اور اس طرح اس جوہری معاہدے کے خاتمے کا فوری خطرہ ٹل گیا ہے۔ ٹرمپ کے ہاتھوں یہ دانش مندانہ فیصلہ کیسے ہوا؟ اس کی کہانی یوں ہے کہ سیکرٹری آف سٹیٹ ریکس ٹلرسن‘ سیکرٹری آف ڈیفنس جیمز میٹس اور نیشنل سکیورٹی ایڈاوئزر جنرل میکماسٹر پر مشتمل ٹیم نے ایک مشترکہ رپورٹ صدر ٹرمپ کو پیش کی تھی‘ جس میں انہوں نے سفارش کی تھی کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مفاد میں ہے۔ اس لئے اسے ختم کرنے یا نقصان اٹھانے سے احتراز کیا جائے۔ سیکرٹری ٹلرسن تو صدر ٹرمپ کی ناراضگی کے خطرے کی پروا کئے بغیر اس سے پہلے بھی برسرِ عام اس معاہدے کے حق میں بیان دے چکے ہیں۔ معلوم یہ ہوا ہے کہ ٹرمپ کی اپنی ری پبلکن پارٹی کے ارکان اسرائیل کی حمایت میں اس معاہدے کے سخت خلاف ہیں اور ان کی طرف سے ٹرمپ پر اس معاہدے کے خلاف اقدام کیلئے سخت دبائو ڈالا جا رہا تھا‘ اسی لئے انہوں نے ان تین بڑے ایڈوائزرز کی رپورٹ کی مخالفت کی تاہم ٹرمپ نے اس دبائو کے باوجود اپنے ایڈوائزرز کی رپورٹ کو تسلیم کرتے ہوئے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر نظر ثانی کرنے اور ایران کے خلاف دوبارہ اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ موخر کر دیا۔
دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ ٹرمپ کی طرف سے اس معاہدے پر فیصلہ کرنے سے ایک روز قبل برسلز میں برطانیہ‘ جرمنی ‘ فرانس اور یورپی یونین کے نمائندوں کی ایران کے وزیر خارجہ کے ساتھ ایک اہم ملاقات ہوئی‘ جس کے بعد ان تینوں ممالک کی جانب سے اس معاہدے کی حمایت کی گئی اور صدر ٹرمپ سے پُرزور اپیل کی گئی کہ اس معاہدے کو نہ چھیڑا جائے اور ایران کے خلاف پابندیوں سے احتراز کیا جائے کیونکہ ایران کی طرف سے اس معاہدے پر سختی سے عمل کیا جا رہا ہے۔ اس بات کی تصدیق اقوام متحدہ کا ادارہ‘ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی‘ بھی کر چکا ہے۔ ایران کی طرف سے اس معاہدے کی مکمل پاسداری کی صورت میں امریکہ کی طرف سے اس معاہدے پر از سر نو غور کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ ان تینوں ممالک کی طرف سے اس بیان کے بعد یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس کے علاقوں میں امن اور سلامتی کے مسائل پر یورپی ممالک صدر ٹرمپ کی پالیسی سے متفق نہیں۔ اس معاہدے کی شرائط طے کرنے کیلئے جب ایران کے ساتھ مذاکرات ہو رہے تھے‘ اس وقت بھی یورپی ممالک کا ایران کے بارے میں رویہ مثبت تھا اور امریکہ سے مختلف تھا۔ سابق صدر بش کے زمانے میں جب امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے ایران پر حملے کی باتیں ہو رہی تھیں تو اس وقت بھی یورپی ممالک نے اس کی مخالفت کی تھی اور اس مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا تھا۔ دیکھا جائے تو یورپی ممالک‘ روس اور چین کی وجہ سے ہی یہ معاہدہ ممکن ہو سکا تھا۔ اگر صدر ٹرمپ اسرائیل کی خوشنودی کی خاطر ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو سبوتاژ کریں گے تو انہیں نہ صرف یورپی ممالک بلکہ روس اور چین کی طرف سے بھی سخت مخالفت اور ناراضگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاہدہ کے تحت ایران پر سے اقتصادی پابندیاں اٹھائے جانے کے بعد یورپی ممالک‘ جن میں جرمنی اور فرانس نمایاں ہیں‘ نے ایران کے ساتھ بہت اہم تجارتی اور اقتصادی معاہدوں پر دستخط کئے ہیں۔ ان معاہدوں کے تحت ایران ان ممالک سے اربوں ڈالر کا سامان‘ جس میں مسافر ہوائی جہاز بھی شامل ہیں‘ خرید رہا ہے۔ ٹرمپ کے اقدام کی صورت میں یہ تجارتی معاہدات خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ اسی طرح روس اور چین نے بھی ایران کے ساتھ تجارت اور اقتصادی تعاون بڑھایا ہے۔ چین کیلئے تو ایران میں استحکام سی پیک کی وجہ سے اور بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ ٹرمپ نے معاہدے کیخلاف اقدام تو چند ماہ کیلئے موخر کر دیا ہے تاہم اس بات کے کوئی آثار نہیں کہ امریکی صدر ایران کے خلاف معاندانہ کارروائیاں ترک کر دے گا۔