17 جنوری کو پاکستان عوامی تحریک‘ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے مشترکہ جلسے میں عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید احمد اور پی ٹی آئی کے عمران خان نے پارلیمنٹ کے بارے میں جو توہین آمیز الفاظ استعمال کئے‘ ان کے خلاف ملک بھر میں سخت رد عمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ قومی اسمبلی نے ان دونوں رہنمائوں کی طرف سے پارلیمنٹ کے خلاف نازیبا الفاظ کے استعمال کی سخت مذمت کی ہے۔ قائد حزب اختلاف کے علاوہ‘ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بھی عمران خان اور شیخ رشید کے الفاظ کو پارلیمنٹ پر حملے کے مترادف قرار دیتے ہوئے اسمبلی کی استحقاق کمیٹی کے اجلاس میں ان دونوں کو طلب کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پارلیمنٹ کے خلاف نازیبا الفاظ کے استعمال پر صرف پارلیمانی حلقوں میں ہی نہیں‘ ملک کے دوسرے سنجیدہ سیاسی حلقوں میں بھی حیرانگی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس لئے کہ پارلیمنٹ کے فیصلوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ اس پر تنقید کی جا سکتی ہے۔ اس سے استعفیٰ دیا جا سکتا ہے۔ لیکن اسے ایک ایوان کی حیثیت سے بھرے جلسے میں دشنام طرازی کا نشانہ بنانا کسی طور بھی قابل فہم نہیں۔ مزید حیران کن بات یہ ہے کہ عمران خان نے پارلیمنٹ کو گارے‘ سیمنٹ اور اینٹوں سے بنی ہوئی عمارت قرار دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین کی خدمت میں عرض ہے کہ پارلیمنٹ کسی عمارت کا نام نہیں‘ یہ ایک ادارہ ہے‘ جو عوام کے اجتماعی شعور کا مظہر ہے۔ اس کے ارکان عوام کی طرف سے ملک کی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں کو متعین کرنے کے لئے مینڈیٹ لے کر آتے ہیں۔ انفرادی طور پر ان ارکان میں غلط اور داغدار ماضی کے حامل اشخاص بھی ہو سکتے ہیں۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت‘ جس کی جمہوریت کا ڈھنڈورا ساری دنیا میں پیٹا جاتا ہے‘ کی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں یعنی لوک سبھا میں اس وقت بھی درجنوں ایسے ممبران موجود ہیں جن کا مجرمانہ ریکارڈ ہو گا۔ پھولن دیوی بھی اسی ایوان‘ جسے ہر رکن احتراماً معزز ایوان کہہ کر پکارتا ہے‘ کی رکن رہیں‘ لیکن اس بنا پر کبھی کسی سیاسی پارٹی‘ سیاسی کارکن‘ کسی سیاسی رہنما یا ادارے نے بھارتی پارلیمنٹ پر لعنت نہیں بھیجی۔ اب تو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور اس کے تمام دھڑے بھی‘ جنہوں نے پارلیمانی سیاست کی بجائے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کر رکھا تھا‘ پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے کی بجائے اس کی بالا دستی تسلیم کرتے ہیں۔
ہمارے سامنے قائد اعظم محمد علی جناح کی مثال ہے۔ 11 اگست 1947ء کو پاکستان کی پہلی دستور ساز (اور قانون ساز) اسمبلی نے بابائے قوم کو اپنا صدر منتخب کیا تو اس کے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے جو الفاظ سب سے پہلے عظیم قائد نے ادا کئے‘ وہ یہ تھے ''میں انتہائی خلوص اور خوشی کے ساتھ اس عزت افزائی کے لئے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس اسمبلی کا پہلا صدر منتخب کرکے آپ نے مجھے جس عزت سے نوازا ہے‘ میرے نزدیک اس سے بڑا اور کوئی اعزاز نہیں ہو سکتا۔‘‘ موجودہ اسمبلی (پارلیمنٹ) اسی اسمبلی کا تسلسل ہے‘ جس کے صدر بانیٔ پاکستان قائد اعظم تھے‘ حالانکہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے اراکین کا انتخاب انگریزوں کے بنائے ہوئے آئین (گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ) کے تحت عمل میں آیا تھا۔ جس پارلیمنٹ پر شیخ رشید اور عمران خان نے ہزار بار لعنتیں بھیجی ہیں‘ اسے تو پاکستانی عوام کے منتخب نمائندوں نے اتفاق رائے سے تشکیل دیا تھا۔ موجودہ پارلیمنٹ 2013ء کے انتخابات کی پیداوار ہے‘ جسے مقامی اور بین الاقوامی آبزرورز نے مجموعی طور پر شفاف اور آزادانہ قرار دیا تھا۔ اور یہ وہ انتخابات ہیں‘ جن کے خلاف عمران خان کے دھاندلی کے الزامات کو سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا تھا۔ اس کے باوجود شیخ رشید اور عمران خان نے پارلیمنٹ کے خلاف اتنی سخت اور نازیبا زبان کیوں استعمال کی؟
عمران خان نے اپنا دفاع کرتے ہوئے انتخابی قوانین 2017ء کی اس شق کا حوالہ دیا‘ جسے پارلیمنٹ نے منظور کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 62 F کے تحت نااہل ہونے کے باوجود نواز شریف کو ایک سیاسی پارٹی کا سربراہ منتخب ہونے کی اجازت دے دی تھی۔ لیکن انتخابی اصلاحات اور سابقہ قانونی ترمیم کا یہ بل تو کافی عرصہ تک قومی اسمبلی میں زیر بحث رہا‘ وہاں سے منظور ہو کر سینیٹ میں پہنچا اور اس کی منظوری میں خود عمران خان کی پارٹی کے چند اراکین بھی شریک تھے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نا اہلی سے عمران خان اور شیخ رشید جو نتائج حاصل کرنا چاہتے تھے‘ وہ انہیں حاصل کرنے میں ناکا م رہے۔ ان کا خیال تھا کہ نواز شریف کے خلاف فیصلہ آنے اور ان کے اقتدار سے الگ ہونے کے بعد حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کا تیزی سے شیرازہ بکھر جائے گا اور نواز شریف کا سیاسی کیریئر ختم ہو جائے گا‘ لیکن ایسا نہیں ہوا‘ بلکہ چکوال کے ایک حالیہ ضمنی انتخاب کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن کی پنجاب میں مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ شیخ رشید کے دعووں کے برعکس مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے ارکانِ اسمبلی کا کوئی بڑا دھڑا پارٹی سے الگ نہ ہوا۔ یہ صورتحال دیکھ کر عمران خان نے قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کر دیا۔ ان کا خیال تھا کہ اس مطالبے کو وسیع پیمانے پر پذیرائی حاصل ہو گی‘ لیکن قومی اسمبلی میں سیٹوں کی تعداد کے لحاظ سے حکمران جماعت کے بعد سب سے بڑی جماعت‘ پاکستان پیپلز پارٹی نے قبل از وقت انتخابات کی مخالفت کر دی اور اعلان کر دیا کہ وہ جمہوری عمل کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے‘ موجودہ اسمبلیوں کے آئینی مدت پوری کرنے اور انتخابات کے اپنے وقت پر انعقاد کے حق میں ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری کی طرف سے ماڈل ٹائون سانحے میں شہید ہونے والے 14 افراد کو انصاف دلانے کے لئے جب احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا گیا تو غالباً شیخ رشید اور عمران خان نے اسے پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت گرانے کا ایک سنہری موقع سمجھا‘ مگر لاہور میں یہ احتجاجی جلسہ بری طرح ناکام رہا۔ اور غالباً انہی پے در پے ناکامیوں اور مایوسیوں کی بنا پر آخر کار شیخ رشید اور عمران خان کو فرسٹریشن میں پارلیمنٹ پر لعنت بھیج کر اپنی تسلی کرنا پڑی۔ لیکن گزشتہ تقریباً ایک دہائی اور خصوصاً 2013ء کے انتخابات کے بعد پارلیمانی بالا دستی کو جس طرح چیلنج کیا گیا اور اسے چوروں اور ٹھگوں اور جرائم پیشہ لوگوں کا ٹولہ قرار دیا گیا‘ اس کے تناظر میں شیخ رشید اور عمران خان کی جانب سے پارلیمنٹ کی جو توہین کی گئی ہے‘ وہ نہ تو ایک نئی اور نہ ہی حیران کن بات ہے۔ شیخ رشید اور عمران خان ملک میں اس لابی کی نمائندگی کرتے ہیں‘ جو اپنے عزائم کی تکمیل میں پارلیمنٹ اور پارلیمانی نظام کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں پارلیمانی کی جگہ صدارتی نظام رائج کرنے کے حق میں ایک عرصہ سے جو مہم چل رہی ہے‘ عمران خان اور شیخ رشید کی پارلیمنٹ کے خلاف باتیں اسی کا حصہ ہیں۔ سینئر سیاسی رہنما اور پی ٹی آئی کے سابق صدر جاوید ہاشمی اپنے انکشافات میں بیان کر چکے ہیں کہ عمران خان ملک میں صدارتی نظام رائج کرنے کے حق میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کے باوجود پارلیمانی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیا۔ اب تک انہوں نے صرف دو دفعہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی ہے‘ حالانکہ وہ بحیثیت ایم این اے نہ صرف کثیر تنخواہ بلکہ دیگر الائونسز اور مراعات بھی وصول کر رہے ہیں۔ شیخ رشید اور عمران خان کی حکمت عملی کے خدوخال کسی سے پوشیدہ نہیں‘ یعنی پارلیمنٹ کو اتنا بدنام کرو کہ عوام کا اس پر رہا سہا اعتماد بھی اٹھ جائے۔ اس صورتحال میں موجودہ پارلیمانی جمہوریت کا بوریا بستر لپیٹنا اور اس کی جگہ شخصی آمریت پر مبنی نظام رائج کرنا بالکل آسان ہو جائے گا۔