"DRA" (space) message & send to 7575

افغان مہاجرین کا مسئلہ

ایک اطلاع کے مطابق وفاقی کابینہ نے اسلام آباد میں ایک حالیہ اجلاس کے دوران پاکستان میں گزشتہ تقریباً 40 برسوں سے مقیم لاکھوں افغان مہاجرین کے قیام میں مزید دو ماہ کی توسیع کر دی ہے۔ افغان مہاجرین کے لئے حکومت کی جانب سے یہ رعایت پہلی نہیں ہے بلکہ گزشتہ کئی برسوں سے مہاجرین کی ان کے وطن واپسی کی آخری تاریخ کا اعلان کرکے پاکستان کی حکومت کو اس میں مزید توسیع کرنا پڑتی رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کے موجودہ حالات میں مہاجرین کی واپسی ممکن نہیں ہے۔ یہ مہاجرین‘ جن کی بھاری تعداد صوبہ کے پی اور بلوچستان میں کیمپوں میں رہائش پذیر ہے‘ زیادہ تر افغانستان کے پشتون علاقوں سے آئے ہیں‘ اور یہی وہ علاقے ہیں جہاں افغان طالبان اور افغان حکومت کے درمیان جنگ جاری ہے۔ مسئلہ صرف سکیورٹی کا نہیں بلکہ افغانستان میں معاشی حالات بھی ناموافق ہیں۔ اس کے باوجود افغان مہاجرین کی کچھ تعداد واپس اپنے وطن کو جا رہی ہے۔ گزشتہ برس بھی یہ سلسلہ جاری رہا حالانکہ افغانستان میں جنگ اور تشدد کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے اور گزرا ہوا برس تو اپنی تباہی اور بربادی میں پہلے کے تمام برسوں سے بازی لے گیا تھا۔ اگرچہ یہ عمل محدود پیمانے پر جاری ہے لیکن پاکستان اس عمل کو تیز کرنا چاہتا ہے اور اس کیلئے اس نے نہ صرف افغان حکومت بلکہ امریکہ سے بھی ضروری انتظامات کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات میں روز افزوں کشیدگی اور امریکہ کی طرف سے پاکستان پر حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کے الزامات کے پیش نظر‘ ان مہاجرین کی واپسی کیلئے حکومتِ پاکستان کی طرف سے دبائو میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اب ان مہاجرین کو سکیورٹی رسک اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں رکاوٹ سمجھتا ہے۔ پاکستانی حکام کے مطابق پاکستان‘ خصوصاً قبائلی علاقوں میں افغان مہاجرین کے یہ کیمپ دہشت گردوں کو چھپ جانے کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ حال ہی میں پیش آنے والے دو واقعات کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔ 24 جنوری کو پاکستان کے قبائلی علاقوں کی اورکزئی ایجنسی میں ایک مقام پر امریکی ڈرون طیارے سے حملہ کیا گیا تھا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس حملے کا نشانہ ایک مکان تھا‘ جہاں حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے دو دہشت گرد موجود تھے۔ حملے میں یہ دونوں دہشت گرد ہلاک ہو گئے تھے۔ بعد میں جاری ہونے والے ڈی جی آئی ایس پی آر کے ایک بیان کے مطابق ڈرون حملہ ایک مکان پر نہیں بلکہ افغان مہاجرین کے ایک کیمپ پر کیا گیا تھا‘ جہاں افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کی نیت سے داخل ہونے والے دو دہشت گردوں نے پناہ لے رکھی تھی۔ حملے کا نشانہ یہی دو افراد تھے اور ان کا حقانی نیٹ ورک سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس واقعہ کی بنیاد پر حکومت پاکستان کے اس موقف کو دہرایا کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کے کیمپ دہشت گردوں کو قانون کی گرفت سے بچانے میں ممد و معاون ثابت ہو رہے ہیں۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ گزشتہ برس موسم گرما میں اس وقت رونما ہوا‘ جب میاں بیوی اور بچوں پر مشتمل ایک امریکی کینیڈین فیملی کو کے پی میں ہی کار سوار اغوا کنندگان سے پاکستانی حکام چھڑانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ مغوی افراد کو تو بازیاب کرا لیا گیا تھا‘ لیکن اغوا کرنے والوں کو گرفتار نہ کیا جا سکا تھا‘ کیونکہ انہوں نے بھاگ کر قریب ہی موجود مہاجرین کے ایک کیمپ میں پناہ لے لی تھی۔ پاکستانی فوج کے ترجمان کے بیان میں اس وقت بھی یہی دعویٰ کیا گیا تھا‘ اور مذکورہ دونوں واقعات پاکستان کے اس موقف کی تائید کرتے ہیں کہ پاک افغان سرحد سے اس پار واقع مہاجرین کے کیمپ دہشت گردی میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں‘ اس لئے پاکستان اپنے ہاں مقیم افغان مہاجرین کی فوری ان کے وطن واپسی کے مطالبے میں حق بجانب ہے۔ گزشتہ برس جب پاک افغان سرحد پر دونوں ملکوں کی سرحدی افواج میں تصادم ہوا اور افغان حکومت کی طرف سے کابل میں ہونے والے ایک بڑے دھماکے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی گئی تو پاکستان نے افغان مہاجرین کی فوری واپسی کا مطالبہ کیا اور کہا تھا کہ ان کی وجہ سے پاکستان کی سلامتی خطرے میں ہے۔ خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ تو افغان مہاجرین کے کیمپوں کو دہشت گردوں کا اڈا قرار دے چکے ہیں‘ بلکہ ایک صوبائی وزیر نے تو یہ بھی کہا تھا کہ اگر افغان مہاجرین پاکستان سے خود واپس نہیں جائیں گے تو انہیں دھکے دے کر افغانستان بھیجا جائے۔ لیکن بین الاقوامی برادری اور خصوصاً وہ ادارے جو افغان مہاجرین کے معاملات سے منسلک ہیں‘ جیسے یو این ہائی کمشن فار ریفیوجیز (UNHCR)‘ پاکستان کے اس موقف سے متفق نہیں۔ ان کے خیال میں نہ تو افغان مہاجر دہشت گرد ہیں اور نہ ہی انہیں فوری طور پر زبردستی افغانستان میں دھکیلا جا سکتا ہے۔ ان کا یہ بھی موقف ہے کہ چند افراد کی غیر ذمہ دارانہ یا مجرمانہ سرگرمیوں کی تمام افغان مہاجرین کو سزا نہیں ملنی چاہئے۔ یہ ادارے اصولی طور پر پاکستان کے اس مطالبے کو تسلیم کرتے ہیں کہ افغان مہاجرین کو واپس اپنے وطن لوٹ جانا چاہئے اور ان کا مسلسل قیام پاکستانی معیشت پر ایک بھاری بوجھ ہے‘ لیکن ان کا خیال ہے کہ ان مہاجرین کی واپسی بتدریج‘ مرحلہ وار اور رضا کارانہ بنیادوں پر ہونی چاہئے‘ کیونکہ پاکستان کی سرزمین پر افغان مہاجرین گزشتہ چار دہائیوں سے مقیم ہیں اور اب ان کی تیسری نسل ان کیمپوں میں رہائش پذیر ہے۔ جو افغان مہاجرین 1979 میں افغانستان پر روسی حملے کے نتیجے میں پاکستان آ کر پناہ گزین ہوئے تھے‘ اب ان کے بچوں کے بچے یہاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور کاروبار میں مصروف ہیں۔ ان کی تعداد لاکھوں میں بنتی ہے۔ ان سب کے لئے فوری طور پر اپنے کاروبار کو سمیٹ کر پاکستان سے روانہ ہونا مشکل ہے۔ ان کی واپسی نہ صرف بتدریج اور رضا کارانہ ہونی چاہئے بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہئے کہ یہ مہاجرین اپنے وطن کو باعزت اور با حفاظت طریقے سے واپس جائیں۔ ان خیالات کا اظہار حال ہی میں پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی امریکی ڈپٹی سیکرٹری برائے آبادی‘ مہاجرین اور تارکینِ وطن نینسی ایزوجیکسن نے اہم پاکستانی حکام سے ملاقات کے بعد کیا۔ جن پاکستانی حکام سے انہوں نے افغان مہاجرین کے مسئلے پر بات چیت کی‘ ان میں وفاقی وزیر برائے سیفران (SAFRON) لیفٹیننٹ جنرل عبدالقادر بلوچ' چیف آف جنرل سٹاف جنرل بلال اکبر اور وزارت داخلہ اور خارجہ کے اعلیٰ افسران شامل تھے۔ ایک لمبے عرصے تک اپنے ہاں لاکھوں افغان مہاجرین کو ٹھہرا کر پاکستان نے جس فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ہے‘ اس کی تعریف کرتے ہوئے نینسی جیکسن نے کہا کہ پاکستان کی طرف سے افغان مہاجرین کی واپسی کا مطالبہ قابل فہم ہے‘ لیکن تمام افغان مہاجرین کو سکیورٹی کیلئے خطرہ قرار نہیں دینا چاہئے‘ بلکہ پاکستان کو یو این ایچ سی آر اور افغان حکومت کے ساتھ مل کر ان مہاجرین کی واپسی کیلئے ایک ایسا منصوبہ تشکیل دینا چاہئے جس کے تحت افغان مہاجرین کی واپسی ایک باحفاظت اور باوقار طریقے سے تسلسل کے ساتھ عمل میں لائی جا سکے۔ اس سلسلے میں امریکی سفارت کار نے کہا کہ ان کی حکومت پورا تعاون کرنے کیلئے تیار ہے اور ان لاکھوں مہاجرین کی وجہ سے پاکستانی معیشت پر پڑنے والے بوجھ کو ہلکا کرنے کیلئے بھی تیار ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ گزشتہ پندرہ برس میں اب تک ان مہاجرین کی امداد کیلئے تقریباً تین ارب ڈالر دے چکا ہے‘ ان مہاجرین کی وجہ سے معاشی بوجھ اکیلے پاکستان کو برداشت نہیں کرنا پڑے گا‘ بلکہ دنیا کے دیگر ممالک کے مہاجرین کا بوجھ برداشت کرنے کیلئے امریکہ جس طرح انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کر رہا ہے‘ اسی طرح پاکستان کو بھی امداد فراہم کرتا رہے گا۔ امید ہے کہ افغان مہاجرین کی پرامن اور باعزت طریقے سے واپسی کیلئے ایک مشترکہ لائحہ عمل جلد طے کر لیا جائے گا‘ کیونکہ خطے کا امن اس اہم مسئلے سے جڑا ہوا ہے۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں