اگرچہ پاکستان اور امریکہ کے اعلیٰ سرکاری حلقوں کی طرف سے بارہا کہا جا رہا ہے کہ باہمی تعلقات میں بہتری لانے کے لئے دونوں ملکوں کے درمیان رابطے جاری ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ جب سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا عہدہ سنبھالا ہے‘ اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ خصوصاً گزشتہ برس 23 اگست کی صدر ٹرمپ کی تقریر نے پاک امریکہ تعلقات پر جو کاری ضرب لگائی تھی‘ اس سے یہ تعلقات ابھی تک نہیں سنبھل سکے۔ اپنی تقریر میں امریکی صدر نے پاکستان پر نہ صرف افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے جنگجوئوں کو اپنی سرزمین پر محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے اور ملک کے اندر دہشت گرد گروپوں اور انتہا پسند سوچ کی حامل تنظیموں کو کھلی چھٹی دینے کا الزام عائد کیا تھا بلکہ افغانستان میں بھارت کو ایک فعال کردار ادا کرنے کی دعوت بھی دی تھی، حالانکہ امریکی حکام جانتے ہیں کہ پاکستان کو افغانستان میں بھارت کی موجودگی اور اُس کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر شدید تحفظات ہیں۔ اس کے ساتھ ہی امریکی ڈیفنس سیکرٹری کی طرف سے مطلوبہ سرٹیفکیٹ کے عدم اجرا کے نتیجے میں امریکہ نے پاکستان کی فوجی امداد روک دی۔ گزشتہ ماہ صدر ٹرمپ نے اپنے ٹویٹ میں پاکستان پر جو بے سر و پا الزامات عائد کئے اور جن الفاظ میں پاکستان سے متعلق اپنی شکایت کو بیان کیا اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات کو ایک اور شدید دھچکا لگا۔ پاکستان نے اس کے جواب میں امریکہ کے ساتھ دفاعی شعبے اور انٹیلی جنس شیئرنگ میں تعاون معطل کر دیا۔ جوابی کارروائی میں امریکہ نے 90 کروڑ ڈالر کے قریب پاکستان کو ملنے والی اقتصادی امداد روک دی۔ امریکی حکومت نے جس وقت اس امداد کو روکنے کا اعلان کیا تو یہ کہا گیا کہ یہ اقدام عارضی ہے‘ پاکستان کو دی جانے والی امریکی امداد معطل کی گئی ہے‘ مستقل طور پر بند نہیں کی گئی اور اس کا مقصد پاکستان کو سزا دینا نہیں بلکہ سبق سکھانا ہے اور جب پاکستان امریکی خواہشات کے مطابق افغانستان اور طالبان کے بارے میں اپنی پالیسی میں تبدیلی لائے گا تو یہ امداد بحال کر دی جائے گی۔ اتنی دیر تک پاکستان کے لیے تفویض کردہ رقم امریکی خزانے میں پڑی رہے گی، اسے کہیں اور خرچ نہیں کیا جائے گا لیکن تازہ ترین اطلاعات کے مطابق امریکی کانگرس کے ایوانِ نمائندگان میں ایک بل پیش کیا گیا ہے‘ جس میں پاکستان کے لیے امریکی امداد کی مد میں موجود رقم کو نکال کر دوسرے شعبہ یعنی امریکہ میں سڑکوں اور پلوں کی تعمیر پر خرچ کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ ایوانِ نمائندگان میں یہ بل کانگرس کے دو ارکان‘ تھامس میسی اور مارک سینفورڈ نے پیش کیا ہے جس میں حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ یو ایس ایڈ اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے منجمد پاکستان کیلئے امریکی امداد کو اب امریکہ میں انفراسٹرکچر کی تعمیر پر خرچ کیا جائے۔ ان دو اراکینِ کانگرس کے مطابق اس امداد کے ذریعے پاکستان نے افغانستان میں امریکیوں کے خلاف لڑنے والے افغان طالبان اورحقانی نیٹ ورک کے خلاف وہ اقدامات نہیں کئے جو امریکہ چاہتا ہے بلکہ پاکستان کی طرف سے اُنہیں اہم معلومات اور عسکری امداد فراہم کی گئی۔ واشنگٹن میں مقیم مختلف سفارتی اور صحافتی حلقوں کی رائے میں اس وقت امریکی کانگرس میں پاکستان مخالف جذبات زوروں پر ہیں اور ایسے امریکی سینئر حکام‘ جو دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کامیابیوں کا اعتراف بھی کرتے ہیں، پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ پہلے ہی پاکستان کے لیے مختص امداد کو دیگر منصوبوں پر خرچ کرنے کی تجویز کی حمایت کر چکے ہیں۔ اس لیے ایوانِ نمائندگان میں اس بل کی حمایت میں مطلوبہ تعداد میں ووٹ ڈالے جانے کا قوی امکان ہے۔
اس قسم کا ایک اور بل بھی امریکی سینیٹ میں پیش کیا گیا ہے۔ امریکی کانگرس کے ان دونوں ایوانوں میں اگر یہ بل پاس ہو جاتا ہے اور صدر ٹرمپ کی منظوری کے بعد اسے قانون کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے تو یہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کیلئے انتہائی نقصان دہ ہو گا۔ پاکستان کو ملنے والی امریکی فوجی اور اقتصادی امداد پر بندش سے دونوں ملکوں کے درمیان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جاری تعاون خطرے میں پڑ جائے گا۔ افغانستان میں امن اور مصالحت کے عمل کو فروغ دینے کے لیے جو کوششیں کی جا رہی ہیں انہیں نقصان ہو گا اور افغانستان سے ملنے والی پاکستانی سرحد پر کشیدگی میں اضافہ ہو گا۔ پاکستان اور خطے کے امن و استحکام اور خود امریکی مفادات کے لیے یہ صورتحال خطرناک نتائج پیدا کر سکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے امریکی الزامات اور دھمکیوں پر سخت ردعمل کا اظہار کرنے کی بجائے بات چیت کے ذریعے غلط فہمیوں کو دور کرنے پر زور دیا ہے۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ ماہ ایک بیان میں سفارتی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان رابطے جاری ہیں اور دونوں طرف سے وفود کا تبادلہ ہو رہا ہے۔ 15 جنوری کو امریکہ کی اسسٹنٹ ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ ایلسی ویلیز کا دو روزہ دورۂ پاکستان اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ اس دورہ کے دوران امریکی اہلکار نے سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کے علاوہ دیگر پاکستانی سیاسی اور عسکری حکام سے بھی ملاقات کی تھی۔ ملاقاتوں کے اختتام پر پاکستانی اور امریکی حلقوں کی طرف سے جو بیانات جاری کئے گئے تھے ان میں مشترکہ طور پر افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو تیز کرنے کے ارادے کا اظہار کیا گیا تھا۔ اس موقع پر امریکی چیف آف جوائنٹ سٹاف کمیٹی جنرل جوزف ڈنفورڈ کی طرف سے بھی ایک بیان جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات جاری رکھنے کیلئے اب بھی پرعزم ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کے لیے امریکی امداد بند کر کے اسے امریکہ میں دیگر منصوبوں پر خرچ کی کوشش ناقابل فہم ہے۔ ایک طرف امریکی دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہیں اور القاعدہ و داعش جیسی خطرناک دہشت گرد تنظیموں کے خلاف پاکستان کی مؤثر کارروائیوں کی تعریف بھی کرتے ہیں اور دوسری طرف اس پر دہشت گردوں سے تعلقات رکھنے اور انہیں ٹھکانے فراہم کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے جس سے تعلقات پر یقینا منفی اثر پڑے گا اور یہ الزام ان تعلقات کے مستقبل پر ایک بڑے سوالیہ نشان کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے گا۔
آج کل امریکہ اور پاکستان کے سفارتی اور پالیسی ساز حلقوں میں یہ موضوع سرگرمی سے زیر بحث ہے کیونکہ امریکی حکام کی رپورٹس کے مطابق صدر ٹرمپ کی طرف سے دھمکیوں اور وارننگ کے باوجود افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے بارے میں پاکستانی رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، اس پر کانگرس کے حلقوں کی طرف سے امریکی انتظامیہ سے یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ اس کے بعد اس کا کیا اقدام ہو گا۔ ایوانِ نمائندگان میں پاکستان کے لیے مختص امدادی رقم کو ری ڈائریکٹ کرنے کی تحریک اسی سوال کے جواب کا ایک حصہ ہے۔ اس کے ساتھ افغان سرحد کے ساتھ پاکستانی علاقوں پر امریکی ڈرون حملوں میں تیزی بھی اسی سوال کا جواب ہو سکتی ہے، مگر پاکستان کے لیے بھی اب متبادل ذرائع تلاش کرنا ناگزیر ہو جائے گا کیونکہ ملک کی معیشت پہلے ہی دبائو میں ہے اور قوم دفاع اور سکیورٹی کی ضروریات کو نظرانداز نہیں کر سکتی۔ خود امریکی حلقوں کی رائے میں امریکی دبائو میں اضافہ سے پاکستان کا چین کی طرف جھکائو اور بھی بڑھ جائے گا۔ اگرچہ پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے وسائل سے دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھے گا؛ تاہم معیشت اور دفاع کو زیادہ مضبوط بنانے کے لیے پاکستان اپنے دوست ممالک سے یقیناً رجوع کرے گا۔ یہ ممالک چین کے علاوہ سعودی عرب اور ترکی بھی ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ اب بھی پاکستان اور امریکہ میں بعض حلقے دونوں ممالک کے تعلقات کے بارے میں پر امید ہیں۔ سینیٹ کی امورِ خارجہ کمیٹی کے روبرو ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ جان سلیوان کے اس بیان کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے‘ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اگر پاکستان اپنی سرحدوں کے اندر موجود دہشت گردوں کے خلاف مؤثر اور بھرپور کارروائی کرتا ہے تو امریکہ پاکستان کی امداد بحال کر دے گا۔ اسی بیان میں انہوں نے کہا کہ پاکستان جانتا ہے کہ امریکہ اس سے کیا توقع رکھتا ہے چنانچہ اب پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے مستقبل کا انحصار اس بات پر ہے کہ پاکستان امریکی توقعات پر کہاں تک پورا اترتا ہے۔