"DRA" (space) message & send to 7575

آئین اور پارلیمنٹ

ایک اطلاع کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی نے سبکدوش ہونے والے سینیٹر فرحت اللہ بابر کو سابق صدر آصف علی زرداری کے ترجمان کے عہدے سے ہٹا دیا ہے۔ فرحت اللہ بابر کے پی سے پی پی پی کے ٹکٹ پر ٹیکنوکریٹ کی نشست پر منتخب ہونے والے رکن ایوانِ بالا ہیں اور اپنی چھ سال کی مدت پوری کرنے کے بعد 11 مارچ کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔ سابق صدر اور پی پی پی کے شریک چیئرمین زرداری کے ترجمان کے عہدے سے ان کو ہٹائے جانے کی وجہ سینیٹ میں ان کی الوداعی تقریر ہے جس میں فرحت اللہ بابر نے دیگر ریاستی اداروں کی طرف سے پارلیمنٹ کے اختیارات پر ''شب خون‘‘ مارنے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ اپنے ان اختیارات میں بتدریج کمی ہونے کے اس عمل کو خود پارلیمنٹ روکنے میں ناکام رہی ہے۔ اور اس سلسلے میں انہوں نے پارلیمنٹ میں نمائندگی حاصل کرنے والی سیاسی پارٹیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے‘ جن میں ان کی اپنی پارٹی بھی شامل ہے۔
فرحت اللہ بابر نے یونیورسٹی آف پشاور سے کیمیکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ لیکن انہوں نے صحافت کے پیشے کو اختیار کیا۔ وہ پشاور سے شائع ہونے والے انگریزی زبان کے روزنامہ ''فرنٹیئر پوسٹ‘‘ کے مینجنگ ایڈیٹر تھے اور اس اخبار کی کامیابی میں فرحت اللہ بابر کی بے باک اور عوام دوست تحریروں کا بہت دخل ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو جب
اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل ہوا تو فرحت اللہ بابر کو پہلی مرتبہ ان کی تقریر لکھنے کا موقعہ ملا۔ بے نظیر بھٹو نے یہ تقریر قومی اسمبلی میں کی تھی۔ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو تقریر اس قدر پسند آئی کہ انہوں نے فرحت اللہ بابر کو 1989ء میں سرکاری طور پر اپنا Speech Writer مقرر کر لیا۔ اس کے بعد وہ ہمیشہ پی پی پی کے وفادار رہے اور 2008ء کے انتخابات کے بعد آصف علی زرداری ملک کے صدر منتخب ہوئے تو فرحت اللہ بابر ان کے Speech Writer کے علاوہ ایوان صدر کے ترجمان بھی مقرر کر دئیے گئے۔ فرحت اللہ بابر ان دانشوروں اور سیاسی کارکنوں میں شامل ہیں جو سمجھتے ہیں کہ سول ملٹری تعلقات میں طاقت کا توازن نمایاں طور پر موخرالذکر کے حق میں ہے‘ اور پاکستان میں سیاسی استحکام اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک سویلین طاقتیں عوام کی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اپنی سیادت قائم نہیں کرتیں۔ ان کی رائے میں اس مقصد کو‘ جسے پارلیمنٹ کی بالا دستی کہا جاتا ہے‘ حاصل کرنے کیلئے سیاسی پارٹیوں کو متحد ہو کر مقابلہ کرنا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ 1993ء میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان لڑائی کو اقتدار کی رسہ کشی قرار دیتے ہوئے‘ وہ پیپلز پارٹی کی طرف سے صدر غلام اسحاق کی بجائے‘ وزیر اعظم نواز شریف کا ساتھ دینے کے حق میں تھے۔ اس کا اگرچہ انہوں نے برملا اظہار نہیں کیا تھا‘ لیکن چارٹر آف ڈیموکریسی کی پُرزور حمایت اور سینیٹ میں ''گم شدہ افراد‘‘ کی بازیابی‘ فاٹا میں سیاسی اور آئینی اصلاحات کے نفاذ‘ تمام اداروں کے احتساب کیلئے ایک وسیع اور یکساں نظام کے قیام اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ بنانے کیلئے ان کی مجاہدانہ کوششوں سے صاف عیاں ہے کہ انہوں نے اپنے اصولوں اور نظریات پر کبھی سودا نہیں کیا۔ وہ اس بات پر خلوص دل سے یقین رکھتے ہیں کہ پارلیمنٹ پر غیر سیاسی قوتوں کی یلغار روکنے کیلئے پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں یعنی پی پی پی اور پی ایم ایل ن کو اکٹھے مل کر جدوجہد کرنا چاہئے۔ پی پی پی کے کچھ حلقوں نے اس سے یہ تاثر لیا ہے کہ ان
کے دل میں مسلم لیگ ن کے لئے نرم گوشہ ہے‘ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ بلکہ بعض مواقع پر انہوں نے مسلم لیگ ن اور اس کی قیادت کو سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ فاٹا کے بارے میں اصلاحات کا وعدہ کرنے کے بعد حکومت نے جس موقع پرستی کا مظاہرہ کیا تھا‘ سینیٹ میں فرحت اللہ بابر کی طرف سے اس پر تنقید کو اس ضمن میں بطور مثال پیش کیا جاتا ہے؛ تاہم یہ حقیقت ہے کہ سینیٹ میں اپنی حالیہ مدت کے دوران میں بعض مسائل پر ان کی اپنی پارٹی کی پالیسی پر تحفظات میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس کی ایک مثال احتساب کے بل کی حمایت سے پی پی پی کی اعلیٰ قیادت کا ہاتھ کھینچ لینے کا فیصلہ تھا۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر کا اس پر مایوسی کا اظہار اور اپنی پارٹی پر دبے لفظوں میں تنقید ایک قدرتی امر تھا کیونکہ یہ فیصلہ پی پی پی کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی حاصل کرنے کی ایک بھونڈی کوشش تھی۔ فرحت اللہ بابر‘ جنہوں نے اپنے پورے کیریئر میں عوامی حاکمیت کے حق میں جدوجہد کی‘ کیلئے پی پی پی کی اعلیٰ قیادت کا یہ فیصلہ یقیناً صدمے کا باعث تھا۔ ان کو امید نہ تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی پارٹی ایسی صریح موقع پرستی اور سمجھوتے بازی کی مرتکب ہو گی۔ اس لئے انہوں نے نومبر 2017ء میں احتساب قانون پر پارلیمانی کمیٹی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس سے قبل وہ گزشتہ برس ہی اکتوبر میں سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی فار ڈیفنس سے کنارہ کش ہو گئے تھے۔ اس کی وجہ ان کی طرف سے سینیٹ کے چند 
ارکان کا جی ایچ کیو میں جا کر ملک اور خطے کی سکیورٹی خصوصاً انسدادِ دہشت گردی آپریشنز پر بریفنگ لینے پر اعتراض تھا۔ اس موقع پر بھی ان کی پارٹی نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ اس پر وہ خاصے دل شکستہ تھے۔ سینیٹ میں اپنی تقریر میں سینیٹر فرحت اللہ بابر نے پارلیمنٹ کی بالا دستی‘ گم شدہ افراد کی بازیابی‘ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو پارلیمنٹری کنٹرول میں لانے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دوغلی اور منافقانہ پالیسی کو ترک کرنے کے حق میں جو تاریخی تقاریر کیں‘ ان کی وجہ سے پرسونا نان گریٹا ہونا‘ باعث حیرت نہیں ہے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ان کی اپنی پارٹی‘ جو عوامی حاکمیت کا سمبل تھی‘ نے بھی ان سے آنکھیں پھیر لیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ انہیں دوبارہ سینیٹ کا ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پی پی پی کی اعلیٰ قیادت کا فوکس کیا ہے۔ جس راستے پر اس نے چارٹر آف ڈیموکریسی کے تحت پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ ملک میں صحیح جمہوریت اور عوامی حاکمیت کیلئے چلنے کا فیصلہ کیا تھا‘ اس پر فی الحال اس کے قدم رک گئے ہیں۔ اس کے بجائے اس کی تمام تر توجہ کچھ حلقوں کی خوشنودی حاصل کرنے پر مرکوز ہے۔ اس کیلئے اس نے آسان راستہ اختیار کیا ہے۔ یعنی پاکستان مسلم لیگ ن اور خصوصاً نواز شریف اور اس کی سیاست کی کھل کر مخالفت کرو اور اگر اسے ''مودی کا یار‘‘ ثابت کر دو تو معاملہ اور بھی سہل ہو جائے گا‘ لیکن پی پی پی کی اعلیٰ قیادت تاریخ کا سبق بھول جاتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کو سیاسی شعور سے آراستہ کرکے کچھ حلقوں کی نظر میں ایک ایسے ''گناہ کبیرہ‘‘ کا ارتکاب کیا تھا‘ جس کی معافی کی مقتدر حلقوں میں کوئی گنجائش نہیں۔ اس لئے وہ جتنی مرضی کوشش کر لے‘ ان حلقوں کی نظر میں پی پی پی ہمیشہ Suspect رہے گی۔ پی پی پی کا نعرہ تھا کہ ''عوام اقتدار کا سرچشمہ ہیں‘‘ جسے دوسرے الفاظ میں عوامی حاکمیت کہا جا سکتا ہے۔ اب اگر عوامی حاکمیت کا راستہ چھوڑ کر پی پی پی اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے شریکِ اقتدار ہونے کی کوشش کرتی ہے تو اسے ان نتائج کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے‘ جو اس سے پہلے ایسی کوششوں سے برآمد ہوئے تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں