"DRA" (space) message & send to 7575

ایرانی وزیر خارجہ کا دورۂ پاکستان

ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے حال ہی میں پاکستان کا تین روزہ دورہ مکمل کیا ہے۔ اپنے اس دورے کے دوران ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے پاکستانی ہم منصب خواجہ محمد آصف‘ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی‘ صدر مملکت ممنون حسین کے علاوہ چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتیں کیں۔ ایرانی وزیر خارجہ تیس رکنی وفد کی قیادت کر رہے تھے‘ جس کے ارکان کا اپنے ملک کی مختلف وزارتوں کے علاوہ ایران کی مسلح افواج سے بھی تعلق تھا۔ جن امور پر بات چیت ہوئی ان میں علاقائی امن اور سلامتی‘ خصوصاً افغانستان‘ دو طرفہ تعلقات اور باہمی تجارت میں اضافہ شامل ہیں۔ ایران کے وزیر خارجہ اپنے وفد کے ہمراہ ایک ایسے وقت پر پاکستان کے دورے پر آئے جب نہ صرف دونوں ملکوں کے اردگرد واقع خطوں میں اہم واقعات رونما ہو رہے ہیں بلکہ ایران اور پاکستان کے دو طرفہ تعلقات کے بعض پہلوئوں پر بھی بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔
اس ضمن میں پاکستان کی طرف سے سعودی عرب میں تمام ضروری ہتھیاروں سے لیس ایک ڈویژن فوج بھیجنے کا اقدام‘ پاکستان ایران اور افغانستان کے بارے میں امریکی صدر کی جارحانہ ڈپلومیسی‘ افغانستان کی خانہ جنگی میں تیزی اور ایران بھارت تعلقات میں اضافہ ایسے واقعات ہیں‘ جن سے نہ ایران اور نہ ہی پاکستان مکمل طور پر لاتعلق رہ سکتا ہے۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے حال ہی میں پارلیمنٹ میں دوٹوک الفاظ میں پاکستان کی اس پالیسی کو دہرایا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج صرف سعودی عرب کے دفاع کیلئے بھیجی گئی ہیں اور انہیں سعودی عرب سے باہر کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح ایران اور بھارت کے درمیان سفارتی‘ اقتصادی اور تجارتی شعبوں میں تعاون میں حال ہی میں جو اضافہ ہوا ہے‘ اس پر پاکستان کی طرف سے تشویش کا اظہار بھی ایک قدرتی امر ہے۔ ان میں خلیج فارس کے ساحل پر واقع ایران کی بندرگاہ چابہار کی بھارتی امداد سے تعمیر و توسیع سرفہرست مسئلہ ہے کیونکہ ایران کی یہ بندرگاہ گوادر سے زیادہ دور نہیں۔ اور بعض حلقوں کی طرف سے اسے گوادر کے مقابلے میں لا کر چین پاکستان اکنامک کاریڈور (سی پیک) کو سبوتاژ کرنے کی بھارتی کوشش قرار دے رہے ہیں‘ لیکن ایرانی وزیر خارجہ نے پاکستان میں قیام کے دوران میں اس تاثر کو غلط قرار دیا اور کہا کہ چابہار اور گوادر ایک دوسرے کی حریف نہیں بلکہ معاون بندرگاہیں ہیں۔ 
یاد رہے کہ ایران سی پیک کی نہ سرف حمایت بلکہ اس میں شرکت کی خواہش کا اعلان بھی کر چکا ہے۔ لیکن بھارت کی مدد سے ممبئی سے ایران‘ افغانستان اور وسطی ایشیا تک ناردرن کاریڈور (Northern Corridor) فعال بنانے کا نتیجہ پاکستان کے حق میں اچھا نہیں آ رہا۔ اس کی وجہ سے نہ صرف ایران اور بھارت متعدد شعبوں میں‘ جن میں دفاع بھی شامل ہے‘ قریب آ رہے ہیں بلکہ پاک افغان دو طرفہ تجارت‘ جو ایک زمانے میں 2 بلین ڈالر سالانہ تھی‘ اب گھٹ کر ایک تہائی رہ گئی ہے۔ یہ تجارت اور معیشت کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کے اہم سیاسی مضمرات ہیں اور اگر پاکستان کو اس صورتحال کا سامنا ہے تو اس کی ذمہ داری افغانستان اور ایران سے زیادہ خود پاکستان کی متزلزل اور مبہم علاقائی پالیسی پر عائد ہوتی ہے‘ کیونکہ پاک افغان بارڈر کے بار بار بند ہونے سے افغانستان کو پاکستان پر اپنا انحصار کم کر کے ایران کے راستے متبادل تجارتی راستہ اختیار کرنا پڑا‘ اور 2015ء کے ایٹمی سمجھوتے کے بعد جب ایران پر سے امریکہ اور اقوام متحدہ کی طرف سے عائد پابندیوں کے خاتمے کا سلسلہ شروع ہوا تو پاکستان نے دیگر ممالک کے برعکس ایران کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کی بحالی میں سرگرمی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس کی واضح مثال ایران پاکستان انڈیا (IPI) گیس پائپ لائن کی عدم تکمیل ہے‘ حالانکہ ایران اپنے علاقے میں اپنے حصے کی پائپ لائن تعمیر کر چکا ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان نے ترکمانستان افغانستان پاکستان انڈیا (TAPI) گیس پائپ لائن کی تعمیر و تکمیل میں زیادہ گرم جوشی کا مظاہرہ کیا ہے حالانکہ تاپی کی طرح آئی پی آئی گیس پائپ لائن بھی ملک کی گیس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اہم ہے‘ لیکن موخرالذکر پر ابھی تک دونوں ملکوں کے درمیان ڈیڈلاک ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان کا ایک مقصد آئی پی آئی گیس پائپ لائن کی تعمیر و تکمیل کی راہ میں حائل مشکلات کو دور کرنا ہے اور یہ خوش آئند بات ہے کہ ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں واضح کر دیا ہے کہ پاکستان اور ایران نے آئی پی آئی کے منصوبے کو خیرباد نہیں کہا اور اس پر موجود اختلافات کو جلد دور کر دیا جائے گا۔ ایرانی حکام آئی پی آئی کی بحالی اور تعمیر سے متعلق بہت پُرامید ہیں کیونکہ وہ اسے پاکستان کے ساتھ ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں اپنی سفارت کاری کی ایک بہت بڑی کامیابی سمجھتے ہیں۔ ایران اس پائپ لائن کو جنوبی ایشیا کے کشیدہ حالات میں امن پائپ لائن (Peace Pipeline) قرار دے چکا ہے۔ صرف گیس پائپ لائن پر ہی نہیں بلکہ دو طرفہ تجارت پر بھی پاکستان اور ایران کے درمیان پیش قدمی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایران پر عائد شدہ عالمی اقتصادی پابندیوں کے باعث پاکستان اور ایران کی دو طرفہ تجارت بہت گھٹ گئی تھی۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2015ء میں جب ایران پر پابندیاں لاگو تھیں‘ ایران میں پاکستانی برآمدات کی مالیت 31.45 ملین ڈالر تھی‘ جبکہ ایران سے پاکستان نے صرف 2لاکھ 70 ہزار ڈالر کا سامان درآمد کیا‘ حالانکہ ایران اور پاکستان کی دو طرفہ تجارت کا حجم ماضی میں کئی بلین ڈالرز ہوا کرتا تھا۔ ایران کے وزیر خارجہ کے دورۂ پاکستان کے دوران دونوں ملکوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ دو طرفہ تجارت کو آئندہ تین برسوں میں 5 بلین ڈالر سالانہ تک پہنچایا جائے گا۔ لیکن اس قسم کا اعلان 2016ء میں بھی کیا گیا تھا جب پاکستان کے وزیر تجارت خرم دستگیر نے ایران کا دورہ کیا تھا۔ لیکن اس اعلان پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ اس وقت ایران پاکستان دو طرفہ تجارت کا حجم جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے۔ اس کی ایک وجہ علاقائی اور عالمی سیاست کے بدلتے ہوئے تیور ہیں۔ ایران کے ساتھ ایٹمی سمجھوتے پر دستخط کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ معاہدے سے علیحدگی اور ایران کے خلاف نئی پابندیوں کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔
اس کے علاوہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدہ تعلقات نے بھی علاقے میں تشویشناک صورتحال پیدا کر رکھی ہے؛ چونکہ ان دونوں ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کی مجبوری ہے‘ اس لئے موجودہ حکومت نے ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ اس کے مقابلے میں یورپی یونین‘ روس‘ چین اور بھارت نے امریکہ اور سعودی عرب کے ردعمل کی پروا کئے بغیر ایران کے ساتھ اربوں ڈالر کے نئے معاہدے کئے ہیں‘ جن میں ایران کے خام تیل کی خریداری بھی شامل ہے‘ مگر پاک ایران تجارتی اور اقتصادی تعلقات میں مطلوبہ پیش رفت نہ ہونے کے باوجود‘ دونوں ملکوں کے درمیان ان کے علاوہ سیاسی‘ ثقافتی اور دفاعی شعبوں میں نمایاں اضافے کے روشن امکانات موجود ہیں۔ اس کی ایک وجہ پاکستان اور ایران کے عوام کے درمیان محبت‘ خیر سگالی اور بھائی چارے کے لازوال تعلقات ہیں‘ جو دراصل صدیوں پُرانے تاریخی‘ ثقافتی اور مذہبی روابط کی پیدوار ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں میں یہ احساس شدت سے پایا جاتا ہے کہ ایران اور پاکستان کے درمیان تعاون ایک دوسرے کے مفاد میں ہے۔ مثلاً ایران کے ساتھ دو طرفہ تجارت‘ اقتصادی تعاون اور مشترکہ سرحد پر منشیات اور انسانی سمگلنگ کی روک تھام اور دہشت گردوں کے خلاف اشتراکِ عمل اس خطے کو امن کا گہوارہ بنا سکتا ہے۔ توانائی کے شعبے میں ایران کے ساتھ تعاون سے صوبہ بلوچستان میں ترقی کا عمل تیز ہو سکتا ہے۔ سی پیک کی تعمیر اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد سے دونوں ملک مستفید ہوں گے۔ ایران نے سی پیک میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ ایران کی شمولیت سے سی پیک کی نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سطح پر بھی پوزیشن مضبوط ہو گی۔ اسی طرح پاکستان‘ افغانستان کے مسئلے کو حل کرنے میں ایران کی خدمات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں