"DRA" (space) message & send to 7575

پاک افغان تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش

ایک اطلاع کے مطابق افغانستان کے صدر اشرف غنی نے وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کو پاک افغان تعلقات پر بات چیت کیلئے اپنے ملک کا دورہ کرنے کی باضابطہ دعوت دی ہے۔ افغان صدر کی طرف سے یہ دعوت پاکستان کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ناصر خان جنجوعہ کے ساتھ ان کی ملاقات کے بعد دی گئی۔ جنرل جنجوعہ افغان حکام کے ساتھ باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت کیلئے کابل میں موجود ہیں اور انہوں نے افغان صدر کے علاوہ افغانستان کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے بھی ملاقات کی ہے۔ افغان اور پاکستانی ذرائع سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق جن امور پر جنرل جنجوعہ نے افغان حکام سے بات چیت کی ہے‘ ان میں علاقائی روابط کو فروغ دینے کیلئے اقدام‘ سرحدی علاقوں میں سمگلنگ کے خاتمے اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششیں شامل ہیں۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو دعوت دیتے ہوئے افغان صدر نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ انہوں نے یہ دعوت ''کابل پراسیس‘‘ (Kabul Process) کے نام سے حال ہی میں ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس کے فیصلوں کی روشنی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مصالحت کو فروغ دینے کیلئے دی ہے۔ اس کانفرنس میں پاکستان اور افغانستان کے علاوہ 25 دیگر ممالک نے بھی شرکت کی تھی‘ جن میں ایران‘ وسطی ایشیا کی ریاستیں‘ چین‘ روس اور امریکہ شامل ہیں۔ اس کانفرنس میں شریک سبھی ممالک نے افغان مسئلے کو طاقت کی بجائے بات چت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا تھا۔ اس موقعہ پر افغان صدر نے طالبان کو بات چیت کی پیشکش کی تھی اور اس پیش کش کے ساتھ افغان طالبان کو اہم رعایات دینے کا بھی اعلان کیا تھا۔ اگرچہ افغان طالبان کی طرف سے اس پیش کش پر ابھی تک کوئی باضابطہ رد عمل سامنے نہیں‘ آیا؛ تاہم یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ انہوں نے اسے رد نہیں کیا‘ بلکہ اس پر ان کی مسلسل خاموشی کو نیم رضا مندی کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے۔
پاکستان سمیت ''کابل پراسیس‘‘ میں شریک دیگر ممالک نے بھی افغان صدر کی اس پیشکش کی حمایت کی ہے۔ افغان صدر کی جانب سے پاکستان کے وزیر اعظم کو بات چیت کیلئے کابل کا دورہ کرنے کی دعوت کا مقصد بھی اس عمل کو آگے بڑھانا ہے‘ کیونکہ پاکستان اس میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے افغان صدر نے پاکستانی وزیر اعظم کو نہ صرف دو طرفہ مسائل پر بات چیت کیلئے مدعو کیا ہے‘ بلکہ افغانستان میں جنگ بندی اور مصالحت کے عمل کو دوبارہ شروع کرنے کے حوالے سے پاکستان کا تعاون حاصل کرنے کیلئے بھی دعوت دی ہے۔ افغانستان کا مسئلہ ایک کثیر جہتی اور الجھا ہوا مسئلہ ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ مزید پیچیدہ ہو چکا ہے‘ لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ جب تک پاکستان اور افغانستان کے دو طرفہ تعلقات اور تعاون کی راہ میں حائل مشکلات کو دور نہیں کیا جاتا‘ افغان مسئلے کے حل کی طرف پیش رفت نہیں ہو سکتی۔ اسی لئے ماضی میں دونوں ملکوں کے درمیان مصالحت کی متعدد بار کوششیں کی گئیں۔ اس سلسلے میں پاکستان اور افغانستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان اعلیٰ ترین سطح پر روابط بھی قائم ہوئے۔ افغان صدر اشرف غنی نے اپنے انتخاب کے بعد جن ممالک کا سب سے پہلے دورکیا‘ ان میں پاکستان بھی شامل تھا۔ اور اس دورے کے دوران میں انہوں نے جن پاکستانی حکام سے ملاقات کی تھی‘ ان میں صدر ممنون حسین اور وزیر اعظم (اب سابق) نواز شریف کے علاوہ پاک فوج کے سربراہ بھی شامل تھے‘ لیکن ان کوششوں کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہ ہو سکا‘ بلکہ گزشتہ ایک آدھ برس میں پاک افغان تعلقات میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان سرحد پر باڑ لگانے پر نہ صرف اختلافات موجود ہیں‘ بلکہ سرحد کی حفاظت پر مامور فوجی دستوں میں جھڑپوں کے بھی متعدد واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ ان جھڑپوں کی وجہ سے پاکستان کو افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد کو بند کرنا پڑا۔ سرحد بند ہونے سے نہ صرف ان ہزاروں افغان اور پاکستان کے پشتون باشندوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا‘ جو ہر روز روزگار‘ علاج‘ کاروبار اور تعلیم کے سلسلے میں ایک دوسرے کے ہاں آتے جاتے ہیں‘ بلکہ پاکستان اور افغانستان کی دو طرفہ تجارت بھی اس حد تک متاثر ہوئی کہ دو بلین امریکی ڈالر سالانہ سے کم ہو کر اس کی مالیت محض چند سو ملین ڈالر رہ گئی ہے۔ افغانستان نے پاکستان کے ساتھ ملنے والی اپنی سرحد پر آئے دن کی جھڑپوں اور بار بار کی بندش کے سبب اپنی بیرونی تجارت کا رخ ایران کے ذریعے موڑ دیا ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کیلئے معاشی طور پر ہی نقصان دہ نہیں بلکہ سیاسی طور پر بھی باعث تشویش ہے‘ کیونکہ بھارت پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کا فائدہ اٹھا کر ''ناردرن کوریڈور‘‘ کو مزید فنکشنل بنانے کی کوشش کر رہا ہے‘ جس کا مقصد ممبئی سے ایرانی بندرگاہ چابہار کے راستے ایران‘ افغانستان‘ وسطی ایشیا اور روس کے ساتھ تجارت میں اضافہ کرکے پاکستان کو بائی پاس کرنا ہے۔ بھارت کی مدد سے چابہار کی بندرگاہ کی تعمیر اور ترقی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ گزشتہ ماہ ایرانی صدر حسن روحانی کے دورۂ بھارت کے دوران ایران اور بھارت کے درمیان جو معاہدات ہوئے تھے‘ ان میں ''ناردرن کوریڈور‘‘ کو مزید فعال بنانے کیلئے چابہار بندرگاہ کی گنجائش کو بھارت کی مدد سے وسعت دینا بھی شامل ہے۔ پاکستان کو اپنے قرب و جوار میں ہونے والے ان واقعات کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے اور کسی کو وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے برادر مسلم ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو ہائی جیک نہیں کرنے دینا چاہئے۔ اس جانب سب سے زیادہ ضروری اور فوری اہمیت کا حامل اقدام افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا ہے۔ اس سیاق و سباق میں افغان صدر کی طرف سے پاکستانی وزیر اعظم کو دورۂ کابل کی دعوت خصوصی اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔ لیکن کیا وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے کابل میں افغان حکام کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوں گے؟ کیا دونوں ملکوں کے درمیان موجودہ کشیدگی میں کمی اور باہمی اعتماد کی بحالی کے امکانات ہیں؟ اگر ہم ماضی کو سامنے رکھیں تو اس سلسلے میں زیادہ امید کی گنجائش نہیں‘ کیونکہ گزشتہ ڈیڑھ دھائی میں اس نوع کی متعدد کوششیں کی جا چکی ہیں اور افغانستان اور پاکستان میں بہتری نہیں آ سکی۔ تاہم حال ہی میں افغانستان میں جنگ کے خاتمے اور پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے کے قریب لانے کیلئے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر چند ایسے اقدامات کئے گئے ہیں‘ جنہیں اپنی نوعیت کے ناصرف پہلے بلکہ سنجیدہ اقدامات کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ ان کوششوں میں چین لیڈ کر رہا ہے۔ چین کے ایما پر گزشتہ برس دسمبر میں بیجنگ میں پاکستان‘ افغانستان اور چین کے وزرائے خارجہ کی سہ فریقی کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ اس کانفرنس میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مصالحت اور تعاون کو فروغ دینے کیلئے افغانستان کو سی پیک میں شمولیت کی دعوت دی گئی تھی۔ گزشتہ ماہ کے آخر میں کابل میں ''کابل پراسیس‘‘ کے نام سے دوسری کانفرنس کا انعقاد بھی ان کوششوں کا حصہ تھا۔ اس کانفرنس کے موقعہ پر افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کو تشدد کا راستہ چھوڑ کر حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے امن قائم کرنے کی اپیل کی تھی۔ اس ضمن میں امریکہ کی طرف سے پاکستان پر افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے جو دبائو بڑھ رہا ہے‘ اس کے مضر اثرات سے بچنے کا بھی واحد طریقہ یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد بحال کیا جائے‘ اور مصالحت کو فروغ دیا جائے‘ تاکہ نہ صرف دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے درپیش مسائل کا حل ڈھونڈا جائے بلکہ افغانستان میں برسوں سے جاری خانہ جنگی کا بھی خاتمہ کیا جائے۔ پاکستان‘ افغانستان اور افغان طالبان کو اب یہ بات پوری طرح سمجھ لینی چاہئے کہ بین الاقوامی برادری افغانستان میں خانہ جنگی کو زیادہ دیر تک مزید برداشت کرنے کو تیار نہیں‘ کیونکہ اس کے جاری رہنے سے ارد گرد کے ممالک کے علاوہ عالمی سطح پر بھی امن‘ استحکام اور سلامتی کیلئے نئے خطرات پیدا ہو رہے ہیں۔ اس لئے پیشتر اس کے کہ افغان جنگ کسی بڑے تصادم کا پیش خیمہ بن جائے‘ پاکستان اور افغانستان کو نہ صرف اپنے دو طرفہ تعلقات میں بہتری بلکہ افغانستان میں جنگ کے خاتمے پر بھی ایک اتفاق رائے پیدا کرنا چاہئے۔ وزیر اعظم عباسی کا دورۂ کابل اس ضمن میں ایک موقعہ ہے‘ جسے کسی صورت میں ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہئے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں