سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے ایک امریکی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا میں باقی اقوام کی طرح اسرائیل کے باشندوں کو بھی اپنی سرزمین پر رہنے کا پورا پورا حق ہے۔ البتہ اسے ممکن بنانے کیلئے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ایک امن معاہدہ طے پانا ضروری ہے‘ تاکہ یہودیوں اور فلسطینی عربوں کی دو ریاستیں ساتھ ساتھ اچھے ہمسایوں کی طرح قائم رہیں۔ اگرچہ مصر اور اردن نے علیحدہ علیحدہ اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کر کے بالواسطہ طور پر اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر رکھا ہے‘ لیکن یہ پہلا موقعہ ہے کہ عالمِ عرب ہی نہیں بلکہ پوری دنیائے اسلام میں ایک خاص مقام رکھنے والے ملک کے ایک اہم عہدے دار نے فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلیوں کے حق کو کھلم کھلا تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ اس سے قبل 1950ء کی دہائی میں تیونس کے ایک سابق صدر حبیب بورغبہ نے عربوں اور اسرائیل کے درمیان مستقل حالتِ جنگ کو ختم کرنے اور قیام امن کیلئے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مشورہ دیا تھا‘ لیکن نہ تو عربوں اور نہ ہی مسلمان حلقوں میں ان کے موقف کو کسی قسم کی کوئی پذیرائی مل سکی۔
عربوں اور اسرائیل کے درمیان 1970ء کی دہائی کے وسط تک چار بڑی جنگیں لڑی گئیں‘ لیکن سوائے مصر‘ ترکی اور اردن کے کسی عرب اور مسلمان ملک نے اسرائیل کو تسلیم نہ کیا۔ سابق شاہ ایران کے زمانے میں ایران اور اسرائیل کے درمیان تعلقات قائم تھے‘ لیکن ان تعلقات کو کبھی
بھی پورے سفارتی‘ سیاسی اور معاشی تعلقات کا درجہ حاصل نہ ہو سکا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ 1948ء میں امریکہ‘ روس اور دیگر مغربی طاقتوں نے اقوامِ متحدہ کے دیگر اراکین پر مختلف قسم کے دبائو ڈال کر فلسطین کو تقسیم کر کے اسرائیل کے نام سے ایک یہودی ریاست قائم کی تھی۔ اسرائیل کے قیام سے مشرق وسطیٰ میں عرب اسرائیل تنازع نے مزید پیچیدہ شکل اختیار کر لی۔ اس کا سبب فلسطین کے ان علاقوں سے لاکھوں فلسطینیوں کی بے دخلی تھی‘ جن پراسرائیل کی ریاست قائم کی گئی۔ اس کے علاوہ 1967ء میں عربوں اور اسرائیل کے درمیان تیسری جنگ میں مشرقی بیت المقدس‘ غزہ‘ سطح مرتفع گولان اور دریائے اردن کے مغربی کنارے پر اسرائیلی قبضے نے عربوں اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی اور تصادم نے ایک نئی شکل اختیار کر لی۔ اب تک مسئلہ فلسطین پر عربوں بلکہ پوری ملتِ اسلامیہ کا موقف یہ رہا ہے کہ جب تک اسرائیل کی موجودہ حکومت 1948ء میں اپنے گھر بار سے زبردستی نکالے جانے والے فلسطینی مہاجرین کو واپس ان کے گھروں میں جانے کی اجازت نہیں دیتی‘ دریائے اردن کے مغربی کنارے پر یہودی بستیوں کو آباد کرنے کا کام نہیں روکتی اور بیت المقدس پر اپنا قبضہ ختم نہیں کرتی‘ اس وقت تک اسرائیل کا وجود تسلیم نہیں کیا جائے گا‘ نہ ہی اس کے ساتھ دیگر ممالک کی طرح معمول کے تعلقات قائم کئے جائیں گے۔ لیکن شہزادہ محمد کے اس بیان نے پورے عالمِ اسلام میں ایک تہلکہ مچا دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیشتر عرب اور اسلامی ممالک اسرائیل کی موجودہ پالیسیوں خصوصاً فلسطینی علاقوں میں یہودیوں کے لئے نئے گھر تعمیر کرنے اور غزہ میں آئے دن فلسطینی شہریوں کو فضائی حملوں کا نشانہ بنانے کی وجہ سے اسرائیل کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ شہزادہ محمد کے والد اور سعودی عرب کے فرماں روا‘ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ولی عہد کے اس بیان کے فوری بعد سرکاری طور پر وضاحت کی کہ مسئلہ فلسطین پر سعودی عرب کا روایتی موقف تبدیل نہیں ہوا اور سعودی عرب ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے علاوہ فلسطینیوں کے تمام حقوق کی حمایت کرتا ہے‘ جن میں ان کے چھڑائے ہوئے وطن کو واپسی کا حق بھی شامل ہے‘ لیکن شہزادہ محمد کے بیان سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کا بحران تیزی کے ساتھ گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے ہی اس میں کئی پیچیدگیاں ہیں اور کچھ نئی پیچیدگیوں کے اضافے سے جزیرہ نما عرب کا جیو پولیٹیکل نقشہ تیزی سے تبدیل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس لئے شاہ سلمان کی وضاحت کے باوجود شہزادہ محمد کے بیان کو اس کے سیاق و سبا ق میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس کے خطے میں بیک وقت تین محاذوں پر بہت اہم واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان محاذ آرائی کا سماں ہے۔ اسی انٹرویو میں شہزادہ محمد نے ایران پر مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس کے علاقے میں توسیع پسندی کا الزام عاید کرتے ہوئے ایران کے سپریم رہنما آیت اللہ خامنہ ای کو ہٹلر سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا۔ یمن میں سعودی عرب کی جنگی مداخلت ایران کے ساتھ اس کی محاذ آرائی کا ہی نتیجہ ہے۔ سعودی عرب اور اس کے حلیف خلیجی ممالک مثلاً متحدہ عرب امارات اور بحرین‘ کا دعویٰ ہے کہ ایران حوثی قبائل کی پشت پناہی کر کے بحر احمر کے اس حصے پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘ جو نہر سویز کے راستے یورپ سے آنے والے تجارتی جہازوں کیلئے بحر ہند میں داخل ہونے کیلئے ایک گیٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی طرح افریقہ اور بحر ہند کے دیگر حصوں تک رسائی کیلئے بھی یمن کا جغرافیائی محلِ وقوع زبردست حیثیت کا حامل ہے۔
جہاں تک اسرائیل کی طرف سے سعودی عرب کی روز افزوں گرم جوشی کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اگرچہ دونوں ملکوں میں باقاعدہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں لیکن ریاض اور تل ابیب نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہیں بلکہ اہم علاقائی مسائل پر دونوں کے موقف میں نمایاں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ اس کا انکشاف حال ہی میں اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے بڑے فخر سے کیا تھا۔ اسرائیل کیلئے سعودی عرب کی خیرسگالی اور مددگاری کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ حال ہی میں ایئر انڈیا نے بھارت اور اسرائیل کے درمیان جس فضائی سروس کا اجرا کیا تھا‘ اس کے جہازوں کو سعودی عرب نے اپنی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس طرح 70سال سے سعودی عرب نے اسرائیل سے آنے اور جانے والے ہوائی جہازوں پر جو پابندی عائد کر رکھی تھی‘ وہ ختم کر دی گئی ہے۔ اس سے سعودی عرب کی تیزی سے بدلتی ہوئی علاقائی پالیسی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب کو امریکہ کا ایک اہم حلیف ہونے کی حیثیت تو بہت عرصہ سے حاصل تھی‘ لیکن اب یہ دونوں ملک ایک دوسرے کے مزید قریب آ چکے ہیں۔ اس اتحاد کا سب سے اہم اور نمایاں پہلو سعودی عرب کی طرف سے اربوں ڈالر مالیت کے امریکی ہتھیاروں کی خریداری ہے۔ ان ہتھیاروں کو حاصل کرکے سعودی عرب 34عرب اور اسلامی ملکوں پر مشتمل فوج کو لیس کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان بھی اس فوجی اتحاد کا حصہ ہے اور کیل کانٹے سے مسلح اس کی ایک ڈویژن فوج سعودی عرب میں موجود ہے۔ پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ اس کے سعودی عرب میں موجود فوجی دستے کو ایران کے خلاف یا یمن کی خانہ جنگی میں حصہ لینے کیلئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ مگر بیشتر غیر ملکی مبصرین کی رائے ہے کہ سعودی عرب کی جنگی تیاریوں کا مقصد ایران کے خلاف فوجی کارروائی کرنا ہے۔ ان حالات میں شہزادہ محمد کا اسرائیل کے بارے میں بیان حیران کن نہیں رہتا‘ بلکہ ایران کے بارے میں اسرائیل کے معاندانہ روئیے کا منطقی نتیجہ ہے۔ تاہم اس بیان سے اگر کسی کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے تو وہ صرف اسرائیل ہے‘ جو عرب اور اسلامی ملکوں میں نفاق کی موجودگی میں فلسطینیوں کو اپنی جارحیت کا مزید نشانہ بنائے گا۔