"DRA" (space) message & send to 7575

وزیر اعظم کا حالیہ دورۂ افغانستان

پاکستان کے لئے اپنے مغربی ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ قریبی اور دوستانہ تعلقات ہمیشہ خصوصی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ایک لمبی (تقریباً 2500 کلومیٹر طویل) مشترکہ سرحد ہے‘ جس کے دونوں اطراف بسنے والے لوگوں کی بھاری اکثریت مشترکہ نسلی‘ لسانی‘ مذہبی اور ثقافتی اقدار کی حامل ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان کے لئے پاکستان اور پاکستان کے لئے افغانستان کی جغرافیائی پوزیشن اس وجہ سے بہت اہم ہے کہ اول الذکر کو جنوبی ایشیا (بھارت) اور مؤخرالذکر کو وسطی ایشیا کے ممالک سے تعلقات استوار کرنے کے لئے کشیدگی سے پاک اور تعاون پر مبنی تعلقات کی ضرورت ہے‘ لیکن چونکہ آزادی سے لے کر موجودہ وقت تک دونوں ملکوں کے درمیان بعض امور پر اختلافات رہے ہیں‘ اس لئے نہ تو پاکستان اور نہ ہی افغانستان علاقائی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں سے پوری طرح مستفید ہو سکا ہے۔ مثلاً باوجود اس کے کہ افغانستان جنوبی ایشیا کے ممالک کی تنظیم برائے علاقائی تعاون ''سارک‘‘ کا باقاعدہ رکن اور جنوبی ایشیا کے ممالک پر مشتمل آزاد تجارت کے معاہدے ''سیفٹا ‘‘ میں شامل ہے‘ بھارت کے ساتھ پاکستان کے راستے تجارت نہیں کر سکتا۔ اس کے ٹرک تجارتی سامان لے کر پاکستان کے راستے واہگہ سرحد تک تو جا سکتے ہیں‘ لیکن واپسی پر وہ بھارت کی تجارتی اشیا کو لاد کر پاکستان کے راستے نہیں لا سکتے۔ اس کی وجہ پاک بھارت تعلقات ہیں۔ 2010 میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ٹرانزٹ ٹریڈ کے معاہدے پر نظر ثانی کرتے ہوئے‘ افغانستان نے اپنی سرزمین سے پاکستان کو وسط ایشیائی ممالک تک رسائی کی سہولت دے دی تھی‘ مگر افغانستان میں مسلسل جاری خانہ جنگی کی وجہ سے پاکستان اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھا سکا۔ اسی طرح دونوں ملکوں کی مختلف حکومتوں کی شدید خواہش کے باوجود ترکمانستان کی گیس کو افغانستان کے راستے پاکستان اور اس سے آگے بھارت تک لے جانے کے لئے پائپ لائن (ترکمانستان‘ افغانستان‘ پاکستان‘ انڈیا پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اسے ''تاپی‘‘ کا نام دیا گیا ہے) کی تعمیر کا منصوبہ مکمل نہیں ہو سکا۔ تاجکستان سے افغانستان کے راستے 1000 میگا واٹ بجلی درآمد کرنے کے منصوبے پر بھی تاحال انہی وجوہات کی بنا پر عمل درآمد ممکن نہیں ہو سکا‘ حالانکہ اس معاہدہ کا حصہ سبھی رکن ممالک وقتاً فوقتاً اس منصوبے کی ناگزیریت پر زور دیتے رہے ہیں۔ لیکن دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کے لئے درکار حکمتِ عملی پر اختلافات کی وجہ سے پاک افغان تعلقات میں اس قدر کشیدگی اور بدگمانی پائی جاتی ہے کہ اسے امن‘ استحکام اور انسانی جانوں کے لئے سب سے سنگین مشترکہ خطرہ تسلیم کرنے کے باوجود آپس میں تعاون کرنے کے لئے تیار نہیں۔ امن کی خاطر دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے مل کر کام کرنا تو بڑی دور کی بات ہے‘ پاکستان اور افغانستان کے درمیان نارمل تعلقات بھی قائم نہیں۔ بلکہ ان شعبوں میں جہاں پہلے تعاون موجود تھا‘ حالات تیزی کے ساتھ تنزلی کی طرف جا رہے ہیں۔ اس کی سب سے نمایاں مثال دو طرفہ تجارت میں گزشتہ دو برسوں میں ہونے والی ڈرامائی کمی ہے۔ ایک زمانے میں افغانستان پاکستان کے لئے سب سے بڑی ایکسپورٹ مارکیٹ تھا‘ لیکن اب یہ تجارت گھٹ کر ایک تہائی سے بھی نیچے آ چکی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ پاک افغان مشترکہ سرحد کی آئے دن کی بندش ہے۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ افغانستان سے سرحد عبور کر کے دہشت گرد پاکستان میں داخل ہو کر کارروائیاں کرتے ہیں‘ اس لئے انہیں روکنے کے لئے سرحد کی سخت نگرانی اور کنٹرول ضروری ہے۔ جبکہ افغانستان کی طرف سے پاکستان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ افغانستان میں حکومت اور نیٹو افواج کے خلاف لڑنے والے طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے جنگجوئوں کو پاکستان کی پشت پناہی حاصل ہے۔ دونوں ملکوں میں سوچ کے اس فرق اور پالیسیوں کے اختلافات کی وجہ سے نہ صرف پاک افغان تعلقات بری طرح متاثر ہوئے ہیں بلکہ افغانستان کے اندر لڑائی میں شدت بھی آئی ہے‘ اور اسے ختم کرنے یا مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھانے کی اب تک کی تمام کوششیں بے کار ثابت ہوئی ہیں۔ یہ واضح رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات خراب کرنے میں اس خطے میں مخصوص مقاصد کے لیے سرگرم قوتوں کی جانب سے پیدا کی گئی بدگمانیوں کا بھی بڑا کردار ہے۔ 
افغانستان کے دیگر ہمسایہ ممالک خصوصاً چین اور روس کو افغانستان کی موجودہ صورت حال پر سخت تشویش ہے۔ چین کی تشویش کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ افغانستان میں جنگ جاری رہنے کی صورت میں امریکہ کو افغانستان میں اپنی فوج رکھنے کا جواز مل جاتا ہے اور اس کی بنیاد پر امریکہ چین کے بڑھتے ہوئے معاشی اثر و رسوخ کے آگے بند باندھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسری یہ کہ افغانستان میں جنگ جاری رہنے کی وجہ سے پاک افغان تعلقات بہتر ہونا محال ہیں۔ اور یہ صورت حال چین کی طرف سے شروع کردہ پاک چین اکنامک کوریڈور کی ترقی میں رکاوٹ کا سبب بن سکتی ہے۔ اسی طرح روس بھی افغانستان میں جنگ جاری رہنے کی وجہ سے فکر مند ہے‘ کیونکہ اس سے اس کی سرحد سے ملحقہ وسط ایشیائی ریاستیں متاثر ہو سکتی ہیں اور یہ واضح ہے کہ اس کے منفی اثرات روس پر بھی مرتب ہوں گے۔ ان وجوہات کی بنا پر ہی چین اور روس‘ دونوں افغانستان میں قیام امن کی خاطر طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کے انعقاد کی کوشش کر رہے ہیں۔ روس اور چین‘ دونوں کو یقین ہے کہ افغان طالبان کو مذاکرات میں شرکت پر آمادہ کیا جا سکتا ہے‘ کیونکہ ان کی لڑائی روس اور چین سے نہیں بلکہ امریکہ سے ہے۔ تاہم روس اور چین یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس میں پاکستان ایک کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس عمل کو آگے بڑھانے کے لئے ہی مذکورہ دونوں ممالک پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کی بجائے تعاون بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا پچھلے دنوں ایک روزہ دورہ افغانستان انہیں کوششوں کا نتیجہ تھا۔ وزیر اعظم نے یہ دروہ اگرچہ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی دعوت پر کیا‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ کافی عرصے سے بین الاقوامی برادری کے سرکردہ رکن ممالک پس پردہ جن کوششوں میں مصروف رہے ہیں‘ یہ دورہ اسی عمل کا تسلسل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم کے دورہ کابل اور افغان دارالحکومت میں افغان صدر اشرف غنی‘ چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور دیگر اعلیٰ افسران کے ساتھ ان کی ملاقاتوں کے بعد جو اعلامیہ جاری کیا گیا ہے‘ وہ کافی حوصلہ افزا ہے۔ پاکستان نے پہلی مرتبہ کھل کر افغان طالبان کو مذاکرات کی راہ اپنانے کا مشورہ دیا ہے۔ اسی طرح پاک افغان تعلقات کو ایک دفعہ پھر معمول پر لانے کے لئے اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ طور پر کارروائی کرنے کے لئے جن اقدامات کی نشان دہی کی گئی ہے‘ اس سے امید کی جا سکتی ہے کہ وزیر اعظم کا یہ دورہ اور کابل میں ان کی افغان حکام کے ساتھ بات چیت سے نہ صرف دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں کشیدگی کم ہو گی بلکہ افغانستان کے اندر خانہ جنگی ختم‘ اور قیامِ امن کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ اس دورے اور بات چیت کے نتیجے میں دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان جو کثیر نکاتی حکمتِ عملی طے پائی ہے‘ اس پر اگر خلوص نیت کے ساتھ عمل کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی اور پیدا ہونے والی بدگمانیوں کا خاتمہ نہ کیا جا سکے۔ خلوص ضروری ہے‘ اگر یہ نہ ہوا تو مسائل برقرار رہیں گے ۔ جس طرح افغان صدر نے چند ہفتے قبل پاکستانی وزیر اعظم کو دورہ افغانستان کی دعوت دی‘ اور جس انداز میں اپنی مصروفیات ایک طرف رکھ کر وزیر اعظم عباسی نے افغانستان کے دورے کا وقت نکالا اور وہاں بات چیت کے نتیجے میں دہشت گردی کے خلاف باہمی تعلقات بہتر بنانے کے لئے معاملات طے پائے‘ وہ خلوص کا ہی پتا دیتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں