جوں جوں آئندہ پارلیمانی انتخابات قریب آ رہے ہیں پاکستان کی سیاست میں تلاطم بھی بڑھ رہا ہے۔ اس میں نئی سیاسی تحریکوں اور سیاسی اتحادوں کا ظہور بھی شامل ہے‘ اور پرانی سیاسی دھڑے بندیوں کی شکست و ریخت کا بڑھتا ہوا عمل بھی نظر آ رہا ہے۔ اراکین اسمبلی کی طرف سے پارٹی وفاداریاں تبدیل کرنے کے عمل میں پچھلے کچھ عرصے میں تیزی آئی ہے اور اس عمل سے کوئی بھی سیاسی پارٹی محفوظ نہیں رہی‘ اگرچہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی اس سے زیادہ متاثر نظر آتی ہیں۔ متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے احیا کے بعد ''جنوبی پنجاب صوبہ تحریک‘‘ کا آغاز ملک میں سیاست کے نئے رخ کو ظاہر کرتا ہے‘ لیکن صوبہ پختون خوا میں جماعت اسلامی کی طرف سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سرکردگی میں قائم مخلوط حکومت سے علیحدگی کے اشارے ان سے بھی زیادہ اہم سیاسی واقعہ ہے۔ سینیٹ کے انتخابات سے قبل صوبہ بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے خاتمے اور عبدالقدوس بزنجو کی حکومت کے قیام کے بعد صوبہ خیبر پختونخوا میں جماعت اسلامی کی صوبائی مخلوط حکومت سے علیحدگی یقیناً ایک ایسا واقعہ ہے جس کا نہ صرف صوبائی بلکہ قومی سطح پر بھی انتخابی سیاست پر اثر پڑے گا۔ بادی النظر میں تو یہ عجیب لگتا ہے کہ ایسے موقع پر جب خیبر پختونخوا کی حکومت کی مدت میں صرف ایک ماہ رہ گیا تھا‘ جماعت اسلامی نے اپنی اتحادی جماعت پی ٹی آئی کا ساتھ چھوڑ دیا ہے بلکہ پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے تو یہاں تک کہا کہ جماعت اسلامی نے جہاں پی ٹی آئی کے ساتھ چار سال گیارہ ماہ تک اقتدار کے مزے لوٹے‘ وہاں ایک ماہ اور ساتھ نبھا لیتی‘ لیکن جماعت اسلامی کے فیصلے کے پیچھے ایک منطق اور ایک دلیل ہے اور اس کا مقصد متعلقہ سیاسی حلقوں کو ایک خاص پیغام پہنچانا ہے‘ کیونکہ جماعت اسلامی کا یہ فیصلہ اس کے امیر سراج الحق کے اس بیان کے بعد آیا ہے‘ جس میں انہوں نے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک سے منسوب ایک بیان دیا تھا کہ سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب میں پی ٹی آئی نے صادق سنجرانی کو ووٹ ''اوپر سے حکم‘‘ کے تحت دیا تھا۔ سراج الحق کے اس بیان پر تحریک انصاف کی جانب سے سخت رد عمل آیا تھا اور اس کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات فواد چودھری تو امیر جماعت اسلامی پر خوب برسے تھے۔ جماعت اسلامی کو تقریباً 4 سال گیارہ ماہ تک پی ٹی آئی کے ہمراہ پختونخوا میں اقتدار کی پینگیں جھولنے کا طعنہ دے کر فواد چودھری نے کہا تھا کہ اگر جماعت اسلامی کو پی ٹی آئی سے اتنا اختلاف ہے تو وہ حکومت سے الگ کیوں نہیں ہو جاتی، بلکہ انہوں نے سراج الحق سے سینیٹ کی سیٹ چھوڑنے کا مطالبہ بھی کیا تھا کیونکہ ان کے دعوے کے مطابق سراج الحق پی ٹی آئی کے ووٹوں سے ایوانِ بالا کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ ایک تجربہ کار اور منجھی ہوئی سیاسی پارٹی ہونے کی وجہ سے جماعت اسلامی نے فواد چودھری کے حسب عادت غیر ذمہ دارانہ بیان پر فوری رد عمل تو نہیں دیا تھا‘ مگر مخلوط حکومت سے علیحدگی کے اعلان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پرویز خٹک سے منسوب بیان سے پہلے ہی جماعت اسلامی نے پی ٹی آئی سے اپنی راہیں علیحدہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ البتہ اس بیان کے بعد جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا تھا کیونکہ اس بیان نے پی ٹی آئی کی سیاسی ساکھ کو کافی نقصان پہنچایا تھا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ 2014ء کے دھرنے کے موقع پر عمران خان اور ''اس کے امپائر‘‘ کے بارے میں جاوید ہاشمی کے انکشاف کے بعد عمران خان اور اس کی پارٹی کی سیاسی ساکھ کو یہ سب سے بڑا دھچکا لگا ہے تو یہ کوئی مبالغہ آرائی نہ ہو گی۔ اگرچہ امیر جماعت اسلامی نے جو کچھ کہا‘ وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ ایک کھلا راز ہے‘ لیکن ایک قریبی سیاسی حلیف جماعت کے سربراہ کی طرف سے اس کی تصدیق ایک ایسا بیان ہے جس نے پی ٹی آئی کی سیاست کو بالکل ایکسپوز کر دیا ہے۔ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی میں سرد جنگ ایک عرصے سے جاری تھی۔ دونوں جماعتیں ایک صوبے کی مخلوط حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود قومی سیاست میں مختلف راہوں پر چل رہی تھیں۔ مثلاً جماعت نے دھرنے میں پی ٹی آئی کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ اس پر عمران خان نے جماعت سے شکوہ بھی کیا تھا۔ جب عمران خان نے فوری انتخابات کا مطالبہ کیا تو جماعت نے اس کی حمایت سے انکار کر دیا‘ بلکہ اس بات پر اصرار کیا کہ منتخب اسمبلیوں کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ اگرچہ ماضی میں جماعت اسلامی فوجی آمروں کا بغل بچہ رہی ہے اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں اس نے اقتدار کے خوب مزے لوٹے ہیں لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ اب جماعت اسلامی قومی سیاست میں کسی غیر سیاسی طاقت کی مداخلت کی مخالفت کرنے میں پیش پیش ہے۔ اس کے مقابلے میں پی ٹی آئی سیاست میں غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت کی حمایت ہی نہیں کرتی رہی بلکہ موجودہ منتخب جمہوری حکومت کو اقدار سے علیحدہ کرنے کے لئے بقول جاوید ہاشمی ان قوتوں کے مشترکہ آپریشن کی امید بھی لگائے بیٹھی رہی ہے۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی کے ایک بڑے حصے خصوصاً لاہور کے حلقوں کا موقف ہے کہ پنجاب میں اس کی تیزی سے گرتی ہوئی مقبولیت کی وجہ پی ٹی آئی کے ساتھ سیاسی اتحاد ہے۔ یہ گروپ پی ٹی آئی کی بجائے، پاکستان مسلم لیگ ن کو نہ صرف ایک فائدہ مند سیاسی اتحادی بلکہ قدرتی حلیف سمجھتا ہے۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے حلقوں میں بھی جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کو تحریک کے کاندھوں پر ایک غیر ضروری بوجھ قرار دیا جا رہا تھا بلکہ کراچی کی پی ٹی آئی کی قیادت تو شہر میں سابق بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کی شکست کی ذمہ داری جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد پر ڈال چکی ہے۔ پچھلے دنوں جب جماعت اسلامی نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ساتھ مل کر ایم ایم اے کو بحال کیا اور دینی جماعتوں کے اس اتحاد کی قیادت مولانا فضل الرحمن کے ہاتھ میں دینے پر رضا مندی ظاہر کر دی تو اس بارے میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہا کہ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی اپنا اپنا راستہ جدا کرنے والی ہیں۔ پنجاب میں جماعت اسلامی کی سیاست کا انحصار اس کی طلبا تنظیم، اسلامی جمعیت طلبا پر ہے۔ جمعیت تعلیمی اداروں پر پی ٹی آئی کے اثر و رسوخ بلکہ موجودگی کو برداشت کرنے کیلئے بھی تیار نہیں۔ جہاں تک کے پی میں جماعتِ اسلامی اور پی ٹی آئی کا اتنے عرصہ تک ایک ہی کشتی میں سوار رہنے کا تعلق ہے تو اس کی وجہ صوبہ پختونخوا کے مخصوص حالات ہیں۔ اس صوبے میں کسی سیاسی جماعت کی بقا یا سیاسی اتحاد کی تشکیل کا تعلق ''اچھے طالبان‘‘ کے بارے میں اس کے رویے سے ہے۔ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی ''اچھے طالبان‘‘ کے علاوہ ان طالبان کو بھی اپنا ''بھائی‘‘ کہہ چکی ہیں جن کے ہاتھ ہماری فوج، پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز کے بہادر افسروں اور جوانوں کے علاوہ ہزاروں معصوم شہریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کا صوبہ پختونخوا میں اتحاد طالبان کیلئے اسی محبت پر مبنی تھا۔ بہت سے لوگوں کی شروع سے ہی یہ رائے تھی کہ یہ اتحاد غیر فطری ہے اور پائیدار نہیں رہے گا۔ ان کی رائے سچ ثابت ہو رہی ہے۔ علاقائی سطح پر تیزی سے بدلتے ہوئے حالات نے پاکستان کی اندرونی سیاست کو بھی متاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے اتحاد کا خاتمہ آنے والے دنوں میں پاکستان کی سیاسی قوتوں کے درمیان نئی صف بندیوں کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔ اس بات کا امکان ہے کہ جماعت اسلامی ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے آئندہ انتخابات میں پنجاب میں مسلم لیگ ن کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے قومی اور صوبائی اسمبلی کی کچھ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے گی۔ اسی طرح سینیٹ کے انتخابات کی طرز پر آئندہ پارلیمانی انتخابات میں بھی پولیٹیکل انجینئرنگ کے ذریعے جو مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ جماعت اسلامی ایم ایم اے کے ذریعے مسلم لیگ ن کا ساتھ دے کر سینیٹ کے تجربے کو دہرانے کی کوشش کو ناکام بنانے کی کوشش کرے گی۔