تین سال قبل امریکہ سمیت یورپی یونین اور سلامتی کونسل کے دیگر مستقل ممبران ‘ جن میں برطانیہ‘ فرانس‘ روس اور چین شامل ہیں‘ نے طویل مذاکرات کے بعد ایران کے ساتھ جو جوہری معاہدہ کیا تھا‘ امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے یک طرفہ طور پر ختم کر دیا ہے۔ یہ معاہدہ ٹرمپ کے پیش رو امریکہ کے سابق صدر بارک اوبامہ کے دور میں طے پایا تھا‘ اور مغربی ممالک کے علاوہ پوری دنیا میں اس کا خیر مقدم کیا گیا تھا‘ کیونکہ اس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں ایک خوفناک جنگ کا خطرہ ٹل گیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت ایران نے یورینیم کی افزودگی کی سطح اور مقدار کو محدود کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی اور اس کے بدلے ایران کے خلاف امریکہ اور اقوام متحدہ کی طرف سے جو اقتصادی پابندیاں عائد کی گئی تھیں‘ انہیں ختم کر دیا گیا تھا۔ اسرائیل کو شروع سے ہی اس معاہدے پر بڑا ملال تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے جارحانہ عزائم خصوصاً فلسطینیوں کے بے دریغ قتل عام سے روکنے کیلئے اگر کوئی آواز سب سے مؤثر ہے تو وہ ایران کی ہے۔ امریکی یہودی لابی کے زیر اثر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2016ء میں اپنی صدارتی مہم کے دوران نہ صرف اس معاہدے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا بلکہ یہ اعلان بھی کیا تھا کہ وہ منتخب ہونے کے بعد اس معاہدے کو ختم کر دیں گے۔ برطانیہ‘ فرانس اور یورپی یونین کے نمائندہ ملک جرمنی نے صدر ٹرمپ کو اس اقدام سے باز رکھنے کی بڑی کوشش کی‘ لیکن طاقت کے گھمنڈ میں ٹرمپ نے نہ صرف اس معاہدے سے اپنے ملک کی علیحدگی کا اعلان کر دیا بلکہ ایران کے خلاف سخت ترین اقتصادی پابندیاں بھی نافذ کر دیں۔ معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے الزام لگایا کہ ایران اس معاہدے کی پاس داری نہیں کر رہا تھا اور خفیہ طور پر جوہری ہتھیار بنانے میں مصروف تھا۔ یہ الزام ایک سفید جھوٹ ہے۔ اس لئے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو کو روکنے والا اقوام متحدہ کا ادارہ ''انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی‘‘ (IAEA) ایران کی ایٹمی تنصیبات کا معائنہ کرنے کے بعد متعدد بار تصدیق کر چکا ہے کہ ایران اس معاہدے پر سو فیصد کاربند ہے۔ اسی طرح معاہدے میں شامل یورپی ممالک بھی اپنے اپنے ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق اعلان کر چکے ہیں کہ ایران معاہدے کی تمام شرائط کی پابندی کر رہا ہے اور اس کی جانب سے چوری چوری ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کی کوشش کے کوئی شواہد موجود نہیں۔ اس کے باوجود ٹرمپ نے اس معاہدے سے امریکہ کو کیوں الگ کیا؟ اور امریکی صدر کے اس اقدام کے عالمی سیاست‘ خصوصاً مشرقِ وسطیٰ اور یورپی ممالک کے ساتھ امریکی تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ جنوبی ایشیا کے تقریباً تمام ممالک کے ایران کے ساتھ قریبی تجارتی اور اقتصادی تعلقات قائم ہیں۔ ان میں پاکستان اور بھارت بھی شامل ہیں۔ جنوبی ایشیا پر ٹرمپ کے اس فیصلے کا کیا اثر پڑے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں‘ جو ٹرمپ کے اعلان کے بعد اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس کالم میں ان سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی جائے گی۔ یاد رہے کہ امریکہ کے نکل جانے سے یہ معاہدہ ختم نہیں ہوا۔ ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس معاہدے کی پابندی بدستور جاری رکھے گا بشرطیکہ دوسرے ممالک‘ جنہوں نے اس معاہدے پر دستخط کئے تھے اس معاہدے میں شامل رہیں۔ اس ضمن میں فرانس‘ جرمنی‘ چین اور روس نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس معاہدے سے علیحدگی اختیار نہیں کریں گے‘ بلکہ انہوں نے ایران پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاہدے کی شرائط کی پابندی کرتے ہوئے یورینیم کی افزودگی کے گریڈ میں اضافہ نہ کرے۔ لیکن ٹرمپ نے ایران پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کرتے ہوئے ان ممالک کو بھی خبردار کیا ہے‘ جو امریکی فیصلے کے بعد ایران کے ساتھ کسی قسم کا لین دین رکھیں گے۔ امریکی فیصلے کا یہ پہلو یورپی ممالک کیلئے بہت تشویش ناک ہے‘ کیونکہ یورپی یونین کے رکن ممالک خصوصاً جرمنی اور فرانس نے 2015ء میں ایران کے خلاف عائد شدہ پابندیاں اٹھائے جانے کے بعد اس سے اربوں ڈالر مالیت کے سودے کر رکھے ہیں۔ اب وہ تمام سودے خطرے میں پڑ گئے ہیں‘ اور یورپی ممالک‘ جو پہلے ہی کساد بازاری اور بے روزگاری جیسے مسائل سے دوچار ہیں‘ معاشی طور پر سخت دبائو میں آ جائیں گے۔ اس لئے ٹرمپ کے اقدام کا سب سے پہلا نتیجہ امریکہ اور یورپ کے درمیان کشیدگی کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ اور جب ہم یورپ اور امریکہ یعنی ٹرانس اٹلانٹک تعلقات کو ان کی حالیہ تاریخ کے پس منظر میں دیکھتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ آنے والے دنوں میں امریکہ اور یورپی ممالک کے درمیان اختلافات کی خلیج مزید وسیع ہو جائے گی۔ مشرق وسطیٰ خصوصاً عرب اسرائیل تنازعہ پر امریکہ اور یورپی ممالک میں ہمیشہ بُعد رہا ہے۔ خلیج فارس خصوصاً ایران کے بارے میں یورپی ممالک نے امریکی رویئے کی کبھی مکمل طور پر حمایت نہیں کی‘ کیونکہ امریکہ کی مشرق وسطیٰ کے معاملات میں دلچسپی کا آغاز محض دوسری جنگ عظیم کے بعد ہوا اور وہ بھی اسرائیل کے مفادات کے تحفظ پر مرکوز رہی ہے۔ جبکہ یورپ اور مشرق وسطیٰ کے درمیان روابط ہزاروں سال پُرانے ہیں۔ کچھ حلقوں کے نزدیک صدر ٹرمپ کے اقدام کا ایک مقصد مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس کے علاقوں میں یورپی ممالک کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا راستہ روکنا ہے‘ کیونکہ اس طرح مشرق وسطیٰ خلیج فارس اور بحیرۂ روم کے علاقوں میں امریکی مفادات اور بالا دستی خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔
ٹرمپ کے اس اقدام سے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ معاہدے سے الگ ہونے کے بعد ٹرمپ ایران کو مشتعل کرنے کی کوشش کرے گا۔ ان کارروائیوں میں شام میں سرکاری فوجوں اور حکومت کی اہم تنصیبات کو نشانہ بنانا بھی شامل ہے اور شام پر اسرائیل کے حملے کی شکل میں اس پالیسی پر عمل درآمد کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یمن کی جنگ میں تیزی آ سکتی ہے۔ ان سب کا مقصد ایران کو مقامی طور پر کسی جنگ میں الجھانا ہے۔ اس لئے ٹرمپ کے فیصلے کے بعد ایران پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور اسے پوری پوری کوشش کرنی چاہئے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے بچھائے ہوئے جال میں نہ آئے۔ ایران کیلئے یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ پاکستان اور ترکی نے ٹرمپ کے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے اور ترکی کے صدر طیب اردوان نے ٹیلی فون پر ایرانی صدر حسن روحانی سے بات کرکے ایران کو حمایت کا یقین دلایا ہے۔ اسی طرح روس اور چین نے بھی ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے ایران کو یقین دلایا ہے کہ وہ بدستور اس معاہدے کی پاس داری کرتے رہیں گے۔
جہاں تک پاکستان اور بھارت کا تعلق ہے‘ امریکی اقدام سے ان ممالک کے ایران کے ساتھ دو طرفہ تجارتی اور اقتصادی تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان اور ایران نے دو طرفہ تجارت کے حجم میں اضافے کا جو منصوبہ بنایا تھا‘ اس کی تکمیل کے راستے میں سنگین رکاوٹیں کھڑی ہو گئی ہیں۔ اگرچہ ایران کے خلاف امریکہ اور اقوام متحدہ کی پابندیوں کے سابقہ دور میں پاکستان اور ایران دو طرفہ تجارتی اور اقتصادی تعلقات بہت محدود ہو گئے تھے‘ تاہم 2015ء کے معاہدے کے بعد ان پابندیوں کے بتدریج خاتمے سے حوصلہ پا کر پاکستان ایران کے ساتھ اپنے تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو نہ صرف بحال بلکہ انہیں فروغ دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ ٹرمپ کے اس اقدام سے پاکستان کی ان کوششوں کو بھی نقصان پہنچے گا۔ ٹرمپ کے اقدام نے بھارت کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے‘ کیونکہ بھارت کی تیل کی درآمدات میں سب سے زیاہ حصہ ایران کا ہے۔ ٹرمپ کی اقتصادی پابندیوں کا اصل ہدف ایران کی تیل اور گیس کی برآمدات ہیں‘ کیونکہ ایران کی معیشت ان دو خام اشیا کی برآمد سے حاصل ہونے والی آمدنی پر مبنی ہے۔ اسی طرح چابہار کی بندرگاہ کی توسیع اور اسے جدید بنانے کیلئے بھارت کی طرف سے ایران کو جو ٹیکنیکل اور مالی امداد دی جا رہی ہے‘ بھارت کیلئے اسے جاری رکھنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ سب سے زیادہ تشویش ناک صورتحال ''ناردرن ٹرانسپورٹیشن کوریڈور‘‘ کو پیش آ سکتی ہے۔ بھارت نے پاکستان کے راستے افغانستان اور اس سے آگے وسطی ایشیا اور روس کے ساتھ تجارتی راستے کے متبادل کے طور پر ممبئی سے چابہار ‘ افغانستان‘ وسطی ایشیا اور روس تک تجارتی سامان کیلئے ایک کوریڈور ''ناردرن ٹرانسپورٹیشن کوریڈور‘‘ کے نام سے قائم کیا تھا۔ اس کی کامیابی کا تمام تر انحصار ایران کی طرف سے مہیا کردہ امداد پر ہے۔ کیا امریکی پابندیوں کے نفاذ کے بعد ایران اس امداد کو فراہم کرنے کے قابل ہو گا۔ یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے!