آج کل پاکستان اور امریکہ کے تعلقات سفارتی سطح پر کشیدگی کا شکار ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے اور امریکہ میں چار مزیدقونصل خانوں میں کام کرنے والے تقریباً ڈھائی سو پاکستانی سفارت کاروں کی نقل و حرکت پر جو پابندیاں لگائی تھیں‘ ان کے جوا ب میں پاکستان نے بھی اپنے ہاں مقیم امریکی سفیروں پر برابر کی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ اس پاکستانی اقدام کے خلاف ردعمل کے طور پر ابھی امریکہ کی طرف سے کسی مزید اقدام کا اعلان تو نہیں کیا گیا تاہم باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرف سے پاکستانی اقدام کے جواب میں اقدامات متوقع ہیں۔ اس سے سفارتی محاذ پر جاری جنگ میں شدت آ سکتی ہے۔ لیکن جو حلقے حکومت پاکستان کے ساتھ قریبی رابطہ رکھتے ہیں‘ ان کے مطابق پاکستان اس کے لئے تیار ہے۔ دریں اثنا پاکستان کے جوابی اقدام میں پاکستان میں مقیم امریکی سفارت کاروں پر جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ہاں امریکی سفارت کاروں کو کتنی غیر معمولی اور خصوصی رعایتیں حاصل تھیں۔ مثلاً امریکی سفارت کاروں کو سیاہ شیشوں والی سرکاری اور غیر سرکاری گاڑیوں میں گھومنے پھرنے کی اجازت تھی۔ اس کے علاوہ امریکی سفارت کار ڈیوٹی کے دوران میں اپنی گاڑی پر غیر سرکاری نمبر والی پلیٹ استعمال کر سکتے تھے۔ اس طرح موبائل فون میں ایسی سم استعمال کر سکتے تھے ‘ جس کی پاکستان میں کسی بائیومیٹرک کے ذریعے تصدیق نہیں کی جا سکتی تھی۔ امریکی سفارت کاروں کو پاکستان میں کرایہ پر مکان یا کوئی عمارت لینے کیلئے حکومت پاکستان سے این او سی لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ اسی طرح اگر کوئی سفارت کار پاکستان کیلئے ویزے میں درج مدت سے زیادہ پاکستان میں رہائش جاری رکھتا تھا تو اس پر بھی تعرض نہیں کیا جاتا تھا۔ اکثر امریکی سفارت کاروں کے پاس ایک سے زیادہ پاسپورٹ ہوتے تھے۔ پاکستانی حکام نے اس پر بھی کبھی اعتراض نہیں کیا تھا۔ سب سے بڑھ کر امریکی سفارت کاروں کو پورے ملک میں گھومنے پھرنے کی اجازت تھی‘ لیکن اب ان کی نقل و حرکت کو اسلام آباد کے علاقے میں 40کلومیٹر تک محدود کر دیا گیا ہے۔
ملکوں میں ایک دوسرے کے ہاں مقیم سفارت کاروں پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد کرنے کا عمل غیر معنوی یا زیادہ باعث تشویش نہیں ہوتا‘ لیکن پاکستان اور امریکہ کے درمیان سفارتی محاذ آرائی کی موجودہ کیفیت کا ایک مخصوص سیاق و سباق ہے۔ اس لئے اسے ضرورت سے زیادہ تشویش کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ جب سے موجودہ صدر ٹرمپ نے امریکہ میں اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی ہے‘ امریکہ اور پاکستان میں بگاڑ کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا ہے‘ کہ سنبھلنے کا نام نہیں لیتا‘ بلکہ دن بدن خرابی کی طرف گامزن ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ اگست میں صدر ٹرمپ کی ایک تقریر سے شروع ہوا تھا‘ جس میں امریکی صدر نے افغانستان اور جنوبی ایشیا کے بارے میں اپنی حکومت کی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے بھارتی قیادت کی تعریفوں کے پل باندھ دئیے تھے اور پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ حالانکہ گزشتہ سترہ برسوں سے پاکستان دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں امریکہ کا قریبی اتحادی چلا آ رہا ہے۔ اور افغانستان میں لڑنے والی امریکی اور نیٹو افواج کیلئے رسد اور کمک کو پہنچانے میں مدد فراہم کرتا رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو نظر انداز کرکے اس پر بے بنیاد الزامات عائد کرنے سے پاکستان کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی تھی‘ لیکن اس سال یکم جنوری کو صدر ٹرمپ کی ایک ٹویٹ نے تو رہی سہی کسر ختم کر دی تھی۔ اس ٹویٹ میں امریکی صدر نے پاکستان پر اربوں ڈالر کی امداد وصول کرنے کے عوض ''جھوٹ اور دھوکہ دہی‘‘ پر مبنی پالیسی اختیار کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ٹرمپ انتظامیہ نے امریکہ سے پاکستان کو ملنے والی امداد میں بھاری کمی بھی کر دی اور یہ کمی کا سلسلہ برابر جاری ہے۔ پچھلے دنوں امریکی کانگریس کے ایوان ِ نمائندگان کی آرمڈ سروسز کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ امریکی بجٹ میں پاکستان کیلئے امداد کی مد میں 700ملین ڈالر کی جو رقم مختص کی گئی ہے‘ اس میں سے آدھی یعنی 350ملین ڈالر کی ادائیگی روک لی جائے گی اور اسے اس شرط پر پاکستان کو ادا کیا جائے گا کہ امریکی وزیر دفاع کانگریس میں سرٹیفکیٹ پیش کریں کہ پاکستان افغانستان میں افغان اور امریکی افواج سے برسر پیکار حقانی نیٹ ورک کے خلاف موثر اقدامات کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ کی طرف سے پاکستان پر امریکی مالی دبائو کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ''کولیشن سپورٹ فنڈ‘‘ (CSF) کی مد میں پاکستان کے 9بلین ڈالر امریکہ کے ذمے کئی برسوں سے واجب الادا ہیں‘ لیکن امریکہ ان رقوم کی ادائیگی پر تیار نہیں۔ اس مد میں اس سال پاکستان کو ملنے والی رقم صرف 14کروڑ ڈالر ہے۔ اگرچہ امریکی دبائو کم کرنے کیلئے پاکستان نے ایک طرف افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے‘ اور افغان طالبان کو دو ٹوک الفاظ میں بتا دیا ہے کہ وہ طاقت کی بجائے مذاکرات کے ذریعے افغانستان کا مسئلہ حل کرنے میں مدد دیں‘ تاہم امریکہ کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری بدستور موجود ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ا مریکہ کی جانب سے بھارت کو نہ صرف افغانستان بلکہ جنوبی ایشیا کے پورے خطے میں زیادہ فعال کردار ادا کرنے کی ترغیب دینا ہے۔ بھارت کو اس کردار کی ادائیگی میں مدد دینے کیلئے امریکہ نے بھارت کے ساتھ تقریباً تمام شعبوں ‘ جن میں دفاع اور جدید ٹیکنالوجی بھی شامل ہیں‘ میں قریبی تعاون پر مبنی تعلقات استوار کئے ہیں۔ ان تعلقات کے قیام کا سلسلہ سابق صدر بش کے زمانے میں شروع ہوا تھا۔ امریکہ اوربھارت کے درمیان سول نیوکلیئر ڈیل اس کی سب سے نمایاں مثال ہے‘ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے ان تعلقات کو نئی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے۔ اس وقت امریکہ بھارت کو صرف ایشیا ‘ بحرالکاہل کے خطے میں ہی نہیں بلکہ بحر ہند کے علاقے میں بھی سٹریٹیجک پارٹنر سمجھتا ہے۔ اس میں جنوبی ایشیا اور بحر ہند کے علاقے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے آگے بند باندھنے کیلئے امریکہ بھارت کو دفاعی اور معاشی طور پر طاقت ور بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ پاکستان کی قومی سلامتی کے نقطہ نظر سے یہ صورتحال تشویشناک اور ناقابل قبول ہے۔ اس کا مطلب نہ صرف گزشتہ 17برسوں میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں اور خدمات کا سرے سے ہی انکار ہے بلکہ پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک پر بھی بھارت کی بالا دستی قائم کرنا ہے۔ پاکستان نے صدر ٹرمپ کے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ اپنی آزادی و خود مختاری اور قومی مفاد پر کبھی سودے بازی نہیں کرے گا۔ اور نہ ہی خطے میں بھارت کی اجارہ داری قبول کرے گا۔
سفارتی محاذ آرائی کے باوجود پاکستان اور امریکہ کے حکام کے درمیان علاقائی سلامتی کے مسائل پر رابطے موجود ہیں۔ افغانستان میں قیامِ امن اور مصالحت کے فروغ کیلئے نہ صرف رابطے قائم ہیں بلکہ باہمی صلاح مشورے کا بھی سلسلہ جاری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں پاکستان کے کلیدی کردار کا امریکہ ابھی تک معترف ہے اور ٹرمپ انتظامیہ کے تمام ارکان طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بٹھانے میں پاکستان کے تعاون کے خواہشمند ہیں ۔ بین الاقوامی برادری میں غالب رائے سے اتفاق کرتے ہوئے روس اور چین بھی افغانستان میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کو ناگزیر سمجھتے ہیں اور اسے ممکن بنانے کیلئے پاکستان پر اپنا مثبت کردار ادا کرنے کیلئے زور ڈال رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان اور امریکہ سٹریٹیجک ڈائیلاگ کے تحت مختلف شعبوں مثلاً تعلیم‘ صحت‘ ماحولیات‘ زراعت‘ صنعت‘ واٹر مینجمنٹ اور توانائی میں تعاون کر رہے ہیں۔ ہزاروں پاکستانی طلبہ امریکہ کی طرف سے مہیا کردہ سکالرشپ کے تحت امریکی یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں۔ امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی ملک کے مفاد کیلئے سرگرم عمل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان امریکہ پر اپنا انحصار کم کر رہا ہے اور جوں جوں پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کامیابیوں کی منزلیں طے کرتا ہوئے آگے بڑھے گا پاکستان کی خود کفالت میں اضافہ ہوتا جائے گا‘ لیکن امریکہ کے ساتھ تعلقات بلکہ قریبی تعاون کی پاکستان کو طویل عرصے تک ضرورت ہے۔ اس طرح پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات امریکہ کے بھی مفاد میں ہیں۔ دونوں ملک اس حقیقت کے معترف ہیں اس لئے سفارتی سطح پر یہ محاذ آرائی عارضی ثابت ہو گی اور بہت جلد دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات نارمل ہو جائیں گے۔