عرف عام میں جسے عرب، اسرائیل تنازعہ کہتے ہیں۔ اس میں فلسطینی عربوں اور اسرائیل کے درمیان حل طلب تین اہم مسائل ہیں۔ ایک ہے 1948ء میں فلسطین سے اپنے گھر بار سے جبراً نکالے گئے فلسطینی مہاجرین کی اپنے گھروں کی واپسی، دوسرے دریائے اردن کے مغربی کنارے اور بیت المقدس کے ارد گرد فلسطینی عربوں کی زمینوں پر یہودی بستیوں کی تعمیر اور تیسری بیت المقدس کی حیثیت، ان تینوں مسائل میں بیت المقدس سب سے اہم ، سب سے حساس اور سب سے پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیت المقدس دنیا کے تینوں بڑے مذاہب یعنی اسلام، عیسائیت اور یہودی مذہب کیلئے مقدس ہے کیونکہ ان تینوں مذاہب کے مقدس مقامات اس شہر میں ہیں۔ مسلمانوں کیلئے یہ شہر اس لئے مقدس ہے کہ ایک عرصہ تک اس شہر کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ مسجد اقصیٰ جہاں سے رسول اکرمؐ معراج پر تشریف لے گئے تھے۔ اسی شہر میں واقع ہے ۔ حضرت عیسیٰ ؑ کی جائے پیدائش کے علاوہ وہ مقام جہاں انہیں تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا وہ بھی بیت المقدس میں ہے۔ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ بیت المقدس یعنی یروشلم کی بنیاد حضرت دائود نے رکھی تھی۔ اور صدیوں تک یہ شہر ان کی سلطنت کا پایہ تخت رہا۔ اس کے علاوہ بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والے انبیاء کرام بھی اسی شہر میں مدفون ہیں۔
مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کی طرف سے ان دعوئوں کی وجہ سے اقوام متحدہ نے نومبر 1947ء میں جب فلسطین کی عرب ریاست کو تقسیم کر کے یہودی ریاست کے قیام کے حق میں فیصلہ دیا تو بیت المقدس کے بارے میں طے ہوا کہ اس شہر کو ان تینوں مذاہب کے پیروکاروں کے حوالے کرنے کی بجائے اسے ایک بین الاقوامی شہر قرار دے دیا جائے۔ جہاں ان تینوں مذاہب کے ماننے والوں کو شہر میں اپنے اپنے مقدس مقامات کی زیارت کرنے کی مکمل اجازت حاصل ہوگی۔ لیکن 1958ء میں اسرائیل کے قیام کے اعلان کے ساتھ ہی جب عربوں اور یہودیوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی تو اسرائیلی افواج نے جو تعداد میں کم ہونے کے باوجود عرب فوجوں کے مقابلے میں زیادہ تربیت یافتہ اور بہتر ہتھیاروں سے لیس تھیں، مصر، اردن اور شام کی مشترکہ افواج کو شکست دے دی اور جنگ بندی سے پہلے بیت المقدس کے مغربی حصے یا جدید بیت المقدس پر قبضہ کر لیا، تاہم اصل بیت المقدس مشرقی یعنی پرانا بیت المقدس ہی ہے کیوں کہ ان تینوں مذاہب کے مقدس مقامات شہر کے اس حصے میں ہیں۔ اسرائیلی فوج نے اس پر قبضہ کرنے کی سرتوڑ کوشش کی مگر جنرل گلب (Glubb) پاشا کی کمانڈ میں لڑنے والی فوج نے یہودیوں کو اس شہر کے مشرقی حصے پر قبضہ نہ کرنے دیا۔ لیکن اسرائیلی بیت المقدس پر اپنے دعوے سے دستبردار نہیں ہوئے۔ اور وہ موقعہ کی تلاش میں رہے کہ کب وہ مشرقی بیت المقدس پر قبضہ کر کے پورے شہر کو اپنے قبضہ میں لاتے ہیں۔ بالآخر ان کو 1967ء میں عرب ، اسرائیل کی تیسری جنگ جسے جون کی جنگ یا چھ دن کی جنگ بھی کہا جاتا ہے کی صورت میں یہ موقع مل گیا ۔ اسی جنگ میں اسرائیل نے اپنی سرحدوں پر جمع شام، مصر اور اردن کی فوجوں پر اچانک حملہ کر دیا تھا اور اسی حملے میں انہوں نے سب سے پہلے بیت المقدس پر قبضہ کیا۔ اور قبضہ کرنے کے ساتھ ہی بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ قرار دینے کا اعلان کر دیا۔ لیکن اسرائیل کے اس دعوے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی اور نہ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں اسرائیل کا یہ اقدام جائز تھا۔ کیونکہ اقوام متحدہ متعدد بار قرار دادوں کی صورت میں بیت المقدس کو ایک بین الاقوامی شہر قرار دے چکی تھی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسرائیل کے ہی اقدام کو بھی جس کے تحت بیت المقدس کو اپنا دارالخلافہ قرار دیا تھا ناجائز قرار دیا اور اسی کی سخت مذمت کی۔ عالم اسلام میں بھی اسرائیل کے اس اقدام پر سخت رد عمل کا اظہار کیا گیا۔ 1969ء میں ''اسلامی ملکوں کی تنظیم‘‘ او آئی سی کا قیام اسی رد عمل کا نتیجہ تھا۔ اور اگر کہا جائے کہ 1973-74ء میں عربوں اور اسرائیل کے درمیان چوتھی جنگ اسرائیل کے اسی اقدام کی وجہ سے لڑی گئی تھی تو مبالغہ نہ ہوگا۔ بیت المقدس کو اسرائیل کی جانب سے اپنا دارالخلافہ قرار دینے کے خلاف عالمی رد عمل اتنا سخت تھا کہ اسرائیلی اقدام عملاً بے معنی ہو کر رہ گیا تھا۔ کیونکہ عالم اسلام اور خصوصاً عرب ملکوں اور فلسطینیوں کے رد عمل کے خوف سے سوائے ایک دو اور کسی ملک نے بھی اسرائیل کے اس فیصلے سے اتفاق رائے کرتے ہوئے اپنا سفارت خانہ بیت المقدس منتقل نہیں کیا۔ حتیٰ کہ امریکہ جو اسرائیل کا سب سے بڑا دوست ہے اور جس نے اپنی یہودی ریاست کے قیام سے اب تک اس کا بھرپور ساتھ دیا ہے کو بھی اپنا سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ تاہم موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آخر کار یہ قدم اٹھا لیا۔
ٹرمپ کے اس اقدام کے کیا محرکات ہیں؟ خصوصاً ایک ایسے وقت پر جبکہ مشرق وسطیٰ کے کئی علاقوں میں جنگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔ شام میں خونریزی جاری ہے اور غزہ کی سرحد پر فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی موجود ہے۔ اس کے باوجود ٹرمپ کو ایک خطرناک موڑ پر یہ اقدام کرنے کی کیا سوجھی ہے؟ جن تبصرہ نگاروں نے صدر ٹرمپ کے اس اقدام کا جائزہ لیا ہے ان کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں اس اقدام کا وعدہ کیا تھا۔ اور اب صدر منتخب ہونے کے بعد اس نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے۔ لیکن بعض کی نظریں ٹرمپ کا یہ اقدام ان مسائل اور مشکلات سے امریکی عوام اور دنیا بھر کی توجہ ہٹانا ہے جو اسے مختلف سکینڈلوں کی وجہ سے اپنے تک ہی در پیش ہیں۔ ٹرمپ کی مختلف حرکتوں خصوصاً جنسی سکینڈلوں کی وجہ سے خود اس کی اپنی پارٹی (ری پبلکن) کے لوگ اس کے مخالف ہو گئے ہیں اور صدر ٹرمپ مواخذے کے خطرے سے دو چار ہیں۔ ان حالات میں یہ بیت المقدس ہی امریکی سفارت خانہ منتقل کرنے سے ٹرمپ کو بیک وقت دو فائدے حاصل ہوں گے۔ ایک یہ کہ ملک کے اندر اس کے خلاف میڈیا میں جو مہم زور و شور سے جاری ہے وہ مدھم پڑ جائے گی۔ اور دوسری وہ کانفرنس میں یہودی لابی کی مدد سے وہ اپنے خلاف مواخذے کی کسی کوشش کو ناکام بنا سکتے ہیں لیکن ان سب باتوں سے قطع نظر امریکی صدر کا یہ اقدام ایک سوچا سمجھا فیصلہ ہے۔ جس کے فوری اور دور رس نتائج کو امریکی صدر نے اعلان کرنے سے قبل یقینا پیش نظر رکھا ہو گا۔ امریکہ کو معلوم ہے کہ اس کے اس اقدام سے نہ صرف فلسطینیوں بلکہ عربوں اور پورے عالم اسلام میں سخت رد عمل پیدا ہو گا۔ اور ایسا ہی ہوا ہے۔ امریکی فیصلے پر عمل درآمد کے پہلے روز ہی اسرائیل کی فائرنگ سے 60 کے قریب فلسطینی شہید ہوئے ہیں ۔ اس کے علاوہ تمام مسلم ممالک میں امریکہ کے اس فیصلے کے خلاف احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کے لئے یہ صورتحال فائدہ مند ہے کیونکہ ایشیا ،یورپ اور افریقا کے درمیان واقع مشرقی وسطیٰ کے ممالک میں جنگ اور تصادم سے پیدا ہونے والے سیاسی عدم استحکام سے چین اور روس کی طرف سے ان ممالک کے ساتھ تجارتی اور معاشی تعلقات استوار کرنے کی کوششوں کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر چین کی طرف سے مشرقی وسطیٰ کے راستے ایشیا اور یورپ کے درمیان ''ون بیلٹ ، ون روڈ‘‘ کے ذریعے تجارتی اور ثقافتی روابط بڑھانے کا جو منصوبہ شروع کیا گیا ہے اسے اسی صورت ہی ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اقوام متحدہ عالمی برادری مسلم دنیا اور عربوں کی مخالفت کے باوجود، بیت المقدس میں امریکی سفارت خانہ منتقل کر کے جلتی پر تیل پھینکا ہے۔