"DRA" (space) message & send to 7575

فاٹا اصلاحات کا بل

وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں سیاسی اور انتظامی اصلاحات کے بل کے مسودے پر پارلیمانی پارٹیوں میں اتفاق ہونے کے بعدیہ بل قومی اسمبلی اور سینٹ سے بھی منظور ہو چکا اور اب صدر مملکت کے دستخطوں کے بعد ایک قانون کی شکل اختیار کر جائے گا۔ پارلیمانی پارٹیوں کا یہ اجلاس جس کی صدارت وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کی تھی ‘ بدھ یعنی 23 مئی کو اسلام آباد میں منعقد ہوا تھا اور اس میں پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی پارٹیوں نے شرکت کی۔ تاہم جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی‘ جو کہ موجودہ حکومت کی اتحادی جماعتیں ہیں ‘نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس سے ایک روز قبل وفاقی کابینہ نے بل کو آخری شکل دی اور اسے 30 ویں آئینی ترمیم کے نام سے قومی اسمبلی میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ بل میں شامل تجاویز کے مطابق سات ایجنسیوں پر مشتمل ''فاٹا‘‘ کو مرحلہ وار صوبہ پختونخوا میں ضم کر دیا جائے گا۔ اس کیلئے صوبہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی کی موجودہ جنرل نشستوں کی تعداد کو 99 سے بڑھا کر 117 کر دیا جائے گا۔ اسی طرح خواتین، اقلیتوں اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کیلئے مخصوص نشستوں میں بھی اضافہ کر دیا جائے گا۔ اس کے نتیجے میں خیبرپختونخوا اسمبلی میں نشستوں کی کل تعداد 126 سے بڑھ کر 147 ہو جائے گی۔
فاٹا کے مستقبل کے بارے میں قومی سطح پر بحث جاری تھی۔ کچھ حلقے اسے ایک علیحدہ صوبہ بنانے کے حق میں تھے۔ جبکہ بیشتر سیاسی جماعتیں اسے صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم کرنا چاہتی تھیں۔ صوبہ خیبرپختونخوا کی اسمبلی بھی 14 دسمبر 2016ء کو ایک قرار داد منظور کر کے اسے صوبے کا حصہ بنانے کا مطالبہ کر چکی ہے۔ موجودہ حکومت نے سرتاج عزیز کی سرکردگی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی‘ جس کا کام فاٹا کے مستقبل کے بارے میں اپنی سفارشات پیش کرنا تھا۔ کمیٹی نے بھی فاٹا کو صوبہ خیبرپختونخوا کاحصہ بنانے کے حق میں سفارش کی تھی‘ لیکن ان سفارشات پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور محمود خان اچکزئی کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی طرف سے فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی مخالفت تھی۔ یہ دونوں پارٹیاں نہ صرف موجودہ حکومت کی اتحادی ہیں بلکہ پختون پارٹیاں ہیں۔ ان پارٹیوں کو فاٹا کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام پر کچھ تحفظات ہیں جن کی وجہ سے حکومت کے اعلانات کے باوجود سرتاج کمیٹی کی سفارشات پر مکمل طور پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ تاہم دیگر سیاسی پارٹیوں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی، قومی وطن پارٹی اور خود حکمران پاکستان مسلم لیگ (ن) شامل ہیں، کی جانب سے فاٹا کو فوری طور پر صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ فاٹا میں سیاسی اور انتظامی اصلاحات کے نفاذ اور اسے صوبہ خیبرپختونخوا کا حصہ بنانے کیلئے بل کی منظوری ایک تاریخی اقدام کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں سو سال سے زائد عرصہ سے نافذ نو آبادیاتی نظام کا ڈھانچہ ختم ہو جائے گا اور فاٹا کے عوام بھی ان حقوق اور سہولتوں کے مالک بن جائیں گے‘ جو ان کے ہم وطنوں کو پاکستان کے دیگر حصوں میں میسر ہیں۔ 
یہ بات قابلِ غور ہے کہ آزادی کے حصول کے بعد پاکستان میں برطانوی نو آبادیاتی نظام کی بہت سی باقیات کو ختم کر دیا گیا تھا‘ لیکن فاٹا کے عوام کو ایف سی آر جیسے کالے قانون کے تحت 70 برس تک سیاسی ، سماجی اور آئینی حقوق سے محروم رکھا گیا ۔ اس کے نتیجے میں فاٹا ترقی کی دوڑ میں نہ صرف ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں پیچھے رہ گیا۔ بلکہ اس کے لاکھوں باشندے علاقائی اور عالمی سیاست کے مفادات کی بھینٹ چڑھتے رہے۔ اس کی وجہ فاٹا کا جغرافیائی محل وقوع ہے۔ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جس کی سرحدیں نہ صرف پاکستان کے بندوبستی علاقوں اور کشمیر سے ملتی ہیں بلکہ افغانستان ، چین اور وسطی ایشیا کے ساتھ بھی اس علاقے کا زمینی رابطہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انیسویں اور بیسویں صدی کی گریٹ گیم (Great Game) ہو یا 9/11 کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ‘فاٹا کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ موجودہ حالات میں ''فاٹا‘‘ انتہا پسندی، فرقہ وارانہ تشدد، بیرونی ممالک سے بھاگ کر آ جانے والے دہشت گردوں، منشیات اور اسلحہ سمگل کرنے والے اور دیگر جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا ہے اور اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ فاٹا میں کوئی مؤثر اتھارٹی نہیں ہے ۔فوج نے شمالی اور جنوبی وزیرستان اور کئی ایجنسیوں میں آپریشن کر کے دہشت گردوں کو بھگا دیا ہے‘ لیکن وہ ایک نئے روپ میں واپس آ چکے ہیں۔ ان کے آنے سے اغوا، ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ چونکہ فوج کا کام سول انتظامیہ چلانا نہیں، اسی لئے ان علاقوں میں قانون کی حکمرانی اور حکومت کی رٹ کو نافذ کرنے کیلئے ایک مضبوط سول انتظامیہ کی ضرورت ہے۔ پارلیمنٹ سے فاٹا بل کی منظوری اور اس پر عمل درآمد سے نہ صرف فاٹا کے عوام مستفید ہوں گے بلکہ اس اقدام کا ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال پر خوشگوار اثر پڑے گا۔ سب سے نمایاں فرق صوبہ خیبرپختونخوااور بلوچستان کی سیاست میں نمودار ہوگا۔ فاٹا کو ساتھ ملانے کے بعد صوبہ خیبرپختونخوا کی آواز قومی اور علاقائی خصوصاً افغانستان کے معاملات کے بارے میں زیادہ مؤثر ثابت ہوگی۔ اس لئے کہ اس وقت افغانستان میں جاری جنگ سے سب سے زیادہ پختون علاقے متاثر ہو رہے ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات سے بھی پختون علاقوں میں رہنے والے لوگ نقصان اٹھا رہے ہیں۔ پاکستان کی شمالی مغربی سرحد کے ساتھ ساتھ واقع خیبرپختونخوا اور بلوچستان دونوں صوبے اس وقت سیاسی تلاطم سے گزر رہے ہیں اور جنگ اور دہشت گردی کی وجہ سے ایسی قوتوں کو سر اٹھانے کا موقع مل رہا ہے جو پاکستان کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہیں۔ فاٹا بل کی منظوری اور اس کے نفاذ سے فاٹا میں تعمیر و ترقی کا عمل تیز ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طویل المیعاد پروگرام کے تحت فاٹا میں تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لئے 10 بلین روپے کا فنڈ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ فاٹا میں برسوں سے قائم جمود کو توڑنے کیلئے کئی اقدامات پہلے ہی کئے جا چکے ہیں ان میں ایف سی آر کا خاتمہ اور پشاور ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو فاٹا تک توسیع دینا شامل ہے۔ اس سے قبل پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کے دور میں فاٹا میں سیاسی پارٹیوں کو کام کرنے کی اجازت دی جا چکی ہے۔ اصلاحات کے اس عمل کی بنیاد 1996ء میں رکھی گئی تھی۔ جب فاٹا کو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر براہ راست اپنے نمائندے منتخب کرنیکا اختیار دیا گیا تھا۔ 1997ء کے انتخابات میں فاٹا کے عوام نے اسی بنیاد پر اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔ اگرچہ صوبہ خیبر پختونخوا میں فاٹا کا انضمام مرحلہ وار پایۂ تکمیل تک پہنچے گا‘ لیکن اس کا آغاز اور اس پر ملک کی تمام بڑی سیاسی پارٹیوں کا اتفاق رائے ایک انتہائی خوش آئند اقدام ہے۔ اس سے علاقے کی ترقی کی رفتار میں ہی اضافہ نہیں ہوگا، بلکہ جمہوری سیاسی عمل بھی مستحکم ہو گا۔ کیونکہ یہ تمام فیصلے جمہوری حکومت کے دور میں باہمی صلاح مشورہ کے ساتھ کیے جا رہے ہیں۔ صلاح مشورہ کے اس عمل میں تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سے فیصلہ سازی میں تاخیر تو ہوئی ہے‘ لیکن چونکہ تمام اہم سٹیک ہولڈرز اس میں شریک رہے ہیں اس لئے جو بھی فیصلہ کیا گیا ہے ‘وہ دیر پا ثابت ہو گا اور اس سے سب کو فائدہ پہنچے گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں