چند دن پیشتر پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کے لئے ایک اہم پیش رفت ہوئی۔ اس کا تعلق لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر امن کے قیام سے ہے۔ ملک میں چونکہ انتخابات سر پر ہیں، سابقہ حکومت کی مدت ہونے کے بعد مرکز میں قائم مقام وزیر اعظم حلف اٹھا چکے ہیں اور صوبوں میں عبوری سیٹ اپ کے قیام کی کوششیں جاری ہیں‘ اس لئے ابلاغِ عامہ کی توجہ پاکستان اور بھارت کے ڈی جی ایم اوز (DGMOs) کے درمیان ہونے والی اس مفاہمت کی طرف نہیں گئی جس کے تحت دونوں ملکوں نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول اور پاکستانی علاقوں سے متصل ریاست جموں و کشمیر کی سرحد‘ جسے ورکنگ بائونڈری کہتے ہیں‘ پر 2003ء کے جنگ بندی کے سمجھوتے پر سختی سے عمل کرتے ہوئے امن و امان کے قیام پر اتفاق کیا ہے۔ یہ اہم پیش رفت دونوں ملکوں کے ڈی جی ایم اوز کے درمیان ٹیلیفون پر رابطے کے نتیجے میں ہوئی اور اس کے تحت فریقین نے نہ صرف سرحد کے پار سے ایک دوسرے کے موچوں پر فائرنگ اور گولہ باری سے اجتناب کرنے کا عہد کیا ہے‘ بلکہ اس پر بھی اتفاق ہوا ہے کہ اگر مقامی طور پر کوئی مسئلہ پیدا ہو تو اسے 2003ء کے معاہدے میں درج طریق کار کے مطابق حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر پاکستان اور بھارت کی سرحدی افواج کے درمیان 2008ء کے بعد سے فائرنگ کا سلسلہ جاری تھا‘ لیکن 2014ء میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے قیام کے بعد اس میں تیزی آ گئی تھی‘ اور اب گزشتہ دو برس سے اس کی شدت میں اور بھی اضافہ ہو چکا تھا۔ اس کی وجہ سے نہ صرف سرحد کے دونوں طرف شہری آبادی کو بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے‘ بلکہ اس بات کا بھی شدید خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ دونوں طرف سے فائرنگ کا یہ سلسلہ‘ جس میں بھاری ہتھیاروں کا بھی استعمال شروع ہو گیا تھا، بڑھتے بڑھتے کہیں کسی بڑے تصادم کی شکل اختیار نہ کر جائے‘ اور دونوں ملک چونکہ جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں‘ اس لئے کسی غلط فہمی یا مہم جوئی کی بنیاد پر یہ تصادم ایٹمی جنگ میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔ یہ وہ خدشات ہیں جن کے پیش نظر بین الاقوامی برادری خصوصاً وہ ممالک جن کے لئے جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام خصوصی اہمیت کا حامل ہے، پاکستان اور بھارت پر لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر کشیدگی کم کرنے اور باہمی مسائل کو پُرامن مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دے رہے تھے۔ ان ممالک میں امریکہ، روس، یورپی یونین اور چین بھی شامل ہے کیونکہ چین کی طرف سے جنوبی ایشیا کے ممالک کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی شعبوں میں تعلقات کو جس طرح فروغ دیا گیا ہے‘ خاص طور پر پاک چین اکنامک کوریڈور کے اجراء کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی موجودگی، خطے میں چین کے طویل المیعاد مفادات کے لئے نقصان دہ ہے۔ اس پیش رفت پر امریکہ کی طرف سے بھی خیر مقدمی کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر بڑھتی ہوئی کشیدگی سے مغربی ممالک بھی فکرمند تھے۔ پاکستان اور بھارت کے فوجی کمانڈروں نے آپس میں بات کر کے اس بے مقصد لیکن تباہ کن سرحدی جنگ کے شعلوں کو ٹھنڈا کرنے پر اتفاق کر کے جس دانش مندی کا مظاہرہ کیا ہے اس پر ان بین الاقوامی حلقوں میں یقیناً اطمینان کا اظہار کیا جائے گا‘ جو جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے قیام کے خواہاں ہیں۔
لیکن اصل خوشی تو ان ہزاروں خاندانوں میں محسوس کی جائے گی جو اس گولہ باری سے تنگ آ کر اپنے گھر بار چھوڑ کر سرحد سے دور پناہ لینے پر مجبور ہو چکے تھے اور بہت سے مسائل کا سامنا کر رہے تھے‘ جن میں سے ایک روزگار کے مواقع نہ ہونا بھی تھا۔ یہ لوگ نہ تو اپنی زمینیں آباد کر سکتے تھے‘ نہ اپنا کاروبار چلا سکے تھے اور نہ ہی ان کے بچے سکول جا سکتے تھے۔ اب تک جتنا جانی نقصان ہوا ہے اس میں سب سے زیادہ شہری آبادی کا ہوا ہے۔ اور ان میں بھی زیادہ تعداد بچوں اور عورتوں کی ہے۔ مال مویشی بھی بڑی تعداد میں ہلاک و زخمی ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے اندر بھی اس اقدام کو سراہا جا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق جنگ بندی پر عمل درآمد کے ساتھ ہی سرحدی آبادی کی بڑی تعداد واپس اپنے گھروں کو آنا شروع ہو گئی ہے۔ اگر جنگ بندی مستحکم رہی تو امید کی جا سکتی ہے کہ سرحد کے دونوں طرف معمولاتِ زندگی جلد ہی بحال ہو جائیں گے اور زندگی کا دھارا ایک بار پھر ماضی ہی کی طرح رواں دواں ہو جائے گا۔ لیکن کیا لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر امن اور سکون پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ مسائل خصوصاً کشمیر کے مسئلہ کے حل کیلئے کسی با معنی اور سنجیدہ مذاکرات کے آغاز کا سبب بن سکتا ہے؟ اس سوال کی اہمیت یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان پائیدار مستقل امن بلکہ تعاون کے لئے ضروری ہے کہ ان مسائل کو حل کیا جائے، جن کی وجہ سے پاکستان اور بھارت ماضی میں تین بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں۔ امید کی جا سکتی ہے کہ اگر لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری کے آر پار فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ کچھ عرصہ کے لئے رک جاتا ہے اور سرحدی علاقوں میں حالات معمول پر آ جاتے ہیں‘ تو دونوں ملکوں میں دو طرفہ مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو سکتا ہے۔ مذاکرات کا یہ سلسلہ 2011ء سے معطل چلا آ رہا ہے۔ نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد اس کو دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کی گئی تھی‘ لیکن بھارتی حکومت کی ہٹ دھرمی اور بہانے بازی کے باعث اس میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ اس عرصے میں کئی بار مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا اور اتنی ہی بار قدم واپس کھینچ لئے گئے۔ لیکن اب ایسے آثار پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں‘ جن کو دیکھ کر امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان اور بھارت مذاکرات کے اس سلسلے کو دوبارہ شروع کر دیں‘ جس کا آغاز 2004 میں ہوا تھا۔ بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ‘ دونوں نے الگ الگ بیانات میں کہا ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ تمام تنازعات پر بات چیت کے لئے تیار ہے؛ البتہ انہوں نے پیشگی شرط یہ عائد کی ہے کہ اس کے لئے بقول ان کے پاکستان کو دہشت گردی ترک کرنا پڑے گی۔ اس کے مقابلے میں پاکستان غیر مشروط اور فوری مذاکرات کا خواہاں ہے۔ بین الاقوامی برادری جن میں امریکہ ، چین اور اقوام متحدہ شامل ہیں‘ بھی غیر مشروط اور فوری مذاکرات پر زور دے رہی ہے۔ اسے ممکن بنانے کے لئے غیر سرکاری سطح پر کوششیں جاری ہیں۔ ان کوششوں کو ''بیک چینل‘‘ یا ''ٹریک ٹو‘‘ ڈپلومیسی کا نام دیا جاتا ہے۔ نہ صرف علاقائی اور عالمی ماحول، بلکہ پاکستان اور بھارت کے اندرونی حالات کا بھی یہی تقاضا ہے کہ دونوں ممالک کشیدگی کو ہوا دینے اور تصادم کی فضا پیدا کرنے کی بجائے باہمی تنازعات کو مل بیٹھ کر طے کریں۔ اب جبکہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر قیام امن کے بارے میں اتفاق ہو گیا ہے اور دونوں ملکوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں‘ اور نہ ہی مستقل کشیدگی دونوں ملکوں کے عوام کے لئے سود مند ہے، تو امید کی جا سکتی ہے کہ اس مفاہمت کو بنیاد بنا کر پاکستان اور بھارت امن مذاکرات کے سلسلے کو دوبارہ شروع کر دیں گے۔ یاد رہے کہ 2003ء میں جب پاکستان اور بھارت نے لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کا معاہدہ کیا تھا‘ تو 2008ء تک اس معاہدے کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی تھی‘ اسی لئے اسے پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے کامیاب سی بی ایمز (Confidence Building Measures ) کا نام دیا گیا تھا۔