"DRA" (space) message & send to 7575

ملا فضل اللہ کی ہلاکت اور اس کے اثرات

13 جون کو انسداد دہشت گردی کی مہم میں یقینا ایک اہم دن کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔ اس دن ایک انتہائی مطلوب دہشت گرد ملا فضل اللہ امریکی ڈرون حملے میں اپنے چار کمانڈروں سمیت کیفر کردار کو پہنچا۔ ملا فضل اللہ پر یہ حملہ افغانستان کے صوبہ کنڑ میں کیا گیا۔ اس صوبے کی سرحدیں پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا سے ملتی ہیں اور یہیں بیٹھ کر سوات کا یہ سفاک دہشت گرد پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کو منظم کرتا رہا ۔ ان کارروائیوں میں پاک، افغان سرحدپر واقع افواجِ پاکستان کی چوکیوں پر حملوں کے علاوہ ملک کے اندر خود کش حملے اور سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کی وارداتیں بھی شامل تھیں۔ ملا فضل اللہ کو 16 دسمبر 2014ء کے پشاور آرمی پبلک سکول پر حملے کا ماسٹر مائنڈ بھی سمجھا جاتا ہے۔ امریکی ڈرون حملے میں اس کی موت کی نہ صرف امریکہ کے فوجی ذرائع نے تصدیق کی بلکہ افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے اس کی مصدقہ اطلاع خودپاکستان کی حکومت کو فراہم کی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملا فضل اللہ کی موت خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کتنی بڑی کامیابی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ملا فضل اللہ کی افغانستان میں موجودگی اور وہاں سے اس کی جانب سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کو منظم کرنے کی وجہ سے پاک افغان تعلقات متاثر ہو رہے تھے۔ پاکستان کو شکایت تھی کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا سربراہ افغانستان کی سر زمین کو پاکستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال کر رہا ہے اور افغانستان کی موجودہ حکومت اس کے سد باب کے لیے کچھ نہیں کر رہی۔ اسی طرح امریکہ‘ جو آئے دن پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے کرتا رہتا ہے‘ کی طرف سے ملا فضل اللہ کو نشانہ بنانے سے گریزپاک امریکہ تعلقات پر بھی اثر انداز ہو رہا تھا۔ پاکستان میں یہ تاثر تقویت پکڑتا جا رہا تھا کہ امریکہ اور افغانستان کی موجودہ حکومت کالعدم ٹی ٹی پی کو پاکستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال کر رہی ہے؛ چنانچہ ملا فضل اللہ کی موت کے بعد کئی اہم سوالات پیدا ہوئے ہیں جیسا کہ کیا اس کی موت کے بعد ٹی ٹی پی مزید کمزور ہو جائے گی اور آخر کار دہشت گردی کے خلاف اس پیچیدہ جنگ میںاپنی اہمیت کھو دے گی؟ دوسرا یہ کہ کیا اب پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات بہتر ہو جائیں گے؟ اس کے علاوہ ملا فضل اللہ کی موت کا پاک امریکہ تعلقات پر کیا اثر پڑے گا؟ اور سب سے اہم یہ کہ کیا اس سے افغانستان میں امن اور مصالحت کے عمل کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی؟
جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے تو تحریکِ طالبان پاکستان اور تحریکِ طالبان افغانستان‘ دونوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے بانی اور پہلے امیر نیک محمد کے بعد بیت اللہ محسود بھی ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہو گئے تھے‘ لیکن اس سے تنظیم کی کارروائیوں اور طاقت پر کوئی اثر نہ پڑاکیونکہ اس کی قیادت حکیم اللہ محسود نے سنبھال لی۔ حکیم اللہ محسود بھی ایک امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا مگر ٹی ٹی پی نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور ملا فضل اللہ کی قیادت میں اس نے دہشت گردی کے کئی ہائی پروفائل حملوں میں پاکستان کے معصوم شہریوں اور سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا۔ افغان طالبان کی تحریک کے بانی اور سپریم لیڈر ملا عمر غالباً 2013ء میں وفات پا گئے تھے لیکن ان کے انتقال سے افغان طالبان کی جدوجہد متاثر نہ ہوئی۔ اسی طرح ملا اختر منصور‘ جنہوں نے ملا عمر کے بعد افغان طالبان کی قیادت سنبھالی‘ بھی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت سے افغانستان میں طالبان کی کارروائیوں پر کوئی اثر نہ پڑابلکہ موجودہ امیر ملا ہیبت اللہ کی قیادت میں طالبان نے افغانستان میں پہلے کے مقابلے میں زیادہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ 2007ء میں پاکستان کے عسکری حلقوں میں یہ سوچ راسخ تھی کہ نواب اکبر بگٹی کو اگر راستے سے ہٹا دیا جائے تو بلوچستان میں قوم پرستوں کی تحریکِ مزاحمت دم توڑ دے گی لیکن ایسا نہیں ہوا‘ بلکہ نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد بلوچستان میں شورش نے زور پکڑا۔ 
چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے عام طور پر کسی تنظیم کے سربراہ کو منظرِ عام سے ہٹانے سے اس تنظیم کی کارروائیاں رک نہیںجاتیں‘تاہم یہ کہنا بھی درست نہ ہو گا کہ ملا فضل اللہ کی ہلاکت سے پاک افغان خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر نہیں ہو گی‘ اس کے برعکس اسے انسداد دہشت گردی کی سمت میں ایک اہم پیش رفت کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان رنجش کی ایک بڑی وجہ دور ہو گئی ہے اور دونوں ملک دہشت گردی کے خلاف اور افغانستان میں امن و مصالحت کے فروغ کے لیے باہمی تعاون میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ اس کے آثار ابھی سے ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ عید کے موقع پر افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان جنگ بندی میں توسیع کے لیے امریکہ نے پاکستانی حکام سے رابطہ کر کے جس طرح مدد کی خواہش کا اظہار کیا ‘ وہ انہی آثار کا ایک حصہ ہے۔ اسی طرح عید کے بعد افغانستان کے ایک اعلیٰ سطح کے سکیورٹی وفد کی پاکستان آمد اور پاکستان کے اعلیٰ حکام کے ساتھ بات چیت بھی اس کا بین ثبوت ہے کہ پاکستان‘ افغانستان اور امریکہ خطے میں دہشت گردی کے قلع قمع اور افغانستان میں قیام امن کے لیے ایک پیج پر آ رہے ہیں۔ چین کی طرف سے افغانستان میں جنگ بندی اور امن مذاکرات پر جس طرح زور دیا گیا ‘ اس سے بھی یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ افغانستان میں قیامِ امن اور مصالحت کے فروغ کے لیے کوششیں دوبارہ شروع کر دی جائیں گی‘ لیکن کسی ٹھوس پیش رفت کے حصول میں ابھی خاصا وقت لگے گا کیونکہ اس خطے میں دہشت گردی کا خاتمہ اور افغانستان میں امن کا قیام ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اور اس میں کئی اندرونی اور بیرونی عوامل کار فرما ہیں۔ ملا فضل اللہ کی ہلاکت ایک اہم واقعہ ہے اور اس سے ایک بڑی رکاوٹ دور ہو گئی ہے۔ لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حتمی کامیابی یا افغانستان میں قیام امن اور مصالحت کے حصول میں اس کی موت فیصلہ کن کردار ادا نہیں کر سکتی کیونکہ فضل اللہ کی موت سے ٹی ٹی پی اگر کمزور بھی ہو جائے تو اس کی جگہ نیا گروپ یا کوئی نئی تنظیم دہشت گردی کی چیمپئن بن کر سامنے آ سکتی ہے۔ ہمارے سامنے داعش سر اٹھا رہی ہے جو پاکستانی اور افغان طالبان کے مقابلے میں کہیں زیادہ متشدد اور تباہ کن نظریئے کی حامل ہے۔ اس لیے محض ملا فضل اللہ کی ہلاکت پر بغلیں بجانا یا اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک فیصلہ کن کامیابی قرار دینا درست نہ ہو گا۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے اس کے تمام پہلوئوں یعنی اس کی ابتدا ‘ ارتقا‘ ترقی اور نیٹ ورک کا جائزہ لے کر ایک جامع حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے لیے طاقت کے استعمال کے علاوہ ایک مؤثر بیانیہ تشکیل دینا پڑے گا۔ اس کے ساتھ عوام کے ذہنوں میں موجود ان سوالات کا جواب دینا بھی انتہائی ضروری ہے کہ وہ کون سی طاقتیں تھیں جنہوں نے ملا فضل اللہ کو 'ملا ریڈیو‘ بنا کر سوات پر چھا جانے میں مدد دی؟ وہ کون سے ہاتھ تھے جنہوں نے ملا ریڈیو کی پشت پناہی کی اور پھر فوجی آپریشن لانچ کرنے سے پہلے اسے سوات سے بچ کر افغانستان پہنچ جانے میں مدد فراہم کی؟ ہو سکتا ہے ان سوالات کا فوری جواب نہ مل سکے لیکن جب تک ان کا تسلی بخش جواب نہیں آتا عوام کے ذہنوں میں یہ سوالات موجود رہیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں