پنجاب کے ہوم ڈپارٹمنٹ نے ایک خط جاری کیا ہے جس میں خبر دار کیا گیا ہے کہ صوبے میں انتخابی مہم کے دوران دہشت گردی کا خطرہ ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ انتخابی مہم میں حصہ لینے والے امیدواروں کے علاوہ جلسے جلوسوں اور کارنر میٹنگز میں شریک ہونے والے لوگ بھی دہشت گردوںکا نشانہ بن سکتے ہیں۔ پنجاب حکومت نے یہ وارننگ خفیہ ذرائع سے حاصل ہونے والی اطلاعات کی بنیاد پر جاری کی ہے۔ ان ذرائع کے مطابق پاکستان مخالف بیرونی ممالک کی ایجنسیوں کی اعافت سے ملک میں موجود دہشت گردوں کے مختلف گروپ انتخابی گہما گہمی سے فائدہ اٹھا کر صوبے کے 141 قومی اور 297 صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں میں کہیں بھی کارروائی کر سکتے ہیں۔ خط میں واضح کیا گیا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران ہی خطرہ صرف دہشت گرد گروپوں سے ہی نہیں‘ ایک دوسرے کے مد مقابل امیدواروں اور ان کے پرجوش حامیوں کے درمیان بھی تصادم کا خطرہ ہے۔ دہشت گرد اس صورتحال سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دینے والی دھواں دھار تقریروں سے بھی کشیدگی اور تصادم کی ایسی فضا پیدا ہو سکتی ہے جس کی آڑ میں دہشت گرد اور انتہا پسندوں کیلئے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا آسان ہو جائے گا۔ احتیاطی اقدامات کے طور پر پنجاب حکومت کے ہوم ڈپارٹمنٹ نے صوبہ بھر میں ہر قسم کے ہتھیار لے کر چلنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ان ہتھیاروں میں لائسنس یافتہ ہتھیار بھی شامل ہونگے۔ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو ہتھیار رکھنے کی اجازت ہو گی۔ اس کے ساتھ ہی انتہا پسندی اور مذہب کے نام پر تشدد پر اکسانے والے رجحانات کی روک تھام کیلئے لائوڈ سپیکر کے غلط استعمال پر پابندی عائد کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے اور نفرت انگیز تقاریر کو سختی سے منع کر دیا گیا ہے۔
پنجاب کی نگران حکومت کے یہ اقدامات قابل تحسین اور بروقت ہیں۔ لیکن اس قسم کے اختیاطی اور ضروری اقدامات کی ملک کے تمام صوبوں میں ضرورت ہے‘ کیونکہ دہشت گردی اور خصوصاً انتخابات کو سبو تاژ کرنے کا خطرہ ہر جگہ موجود ہے۔ اسی خطرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نگران وفاقی وزیر داخلہ نے بھی سکیورٹی کے سخت اقدامات پر زور دیا ہے۔ ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہزاروں پولنگ سٹیشنوں کے اندر اور باہر فوجی جوانوں اور افسروں کی تعیناتی اسی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کیلئے عمل میں لائی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن کے سیکرٹری بابر یعقوب فتح محمد نے کچھ روز پیشتر سینیٹ کے روبرو ایک بریفنگ میں بھی اس خطرے کی نشاندہی کی تھی۔ ان کا بیان تھا کہ کچھ غیر ملکی طاقتیں آئندہ انتخابات کو ناکام بنانے پر تلی ہوئی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے سیکرٹری نے اس حوالے سے بند کمرے میں سینیٹ کے ارکان کو بریفنگ دینے کی پیشکش کی تھی۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن کے بیان کے بعد سے اب تک حکومت کو مختلف ذرائع سے موصول ہونے والی اطلاعات کی روشنی میں جو تصویر ابھر کر سامنے آئی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ الیکشن کو سبوتاژ کرنے والے بیرونی اور اندرونی عناصر نہ صرف ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہیں بلکہ باہمی تعاون کے ذریعے پاکستان کے اس اہم جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے کی سازش تیار کر چکے ہیں۔ اس سازش کا مقصد انتخابی مہم کے دوران میں اور ووٹ ڈالنے کے موقع پر دہشت گردی کی کارروائیاں کر کے عوام کو پولنگ سٹیشنوں سے دور رکھنا ہے‘ تا کہ پاکستانی عوام اپنے جمہوری سفر کے اس اہم سنگ میل سے نہ گزر سکیں۔ دہشت گردوں اورانتہا پسندوں نے اس قسم کی مذموم کوشش گزشتہ یعنی 2013ء کے انتخابات کے موقع پر بھی کی تھی‘ بلکہ 2013 کے انتخابات کے موقع پر دہشت گردوںنے الیکشن کو سبوتاژ کرنے کی نہ صرف دھمکی دی تھی بلکہ اس پر عمل بھی کیا تھا۔ کالعدم تحریک طالبان نے عوام کو خبر کیا تھا کہ وہ پولنگ ڈے پر پولنگ سٹیشنوں سے دور رہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے تین اہم سیاسی پارٹیوں یعنی پاکستان پیپلز پارٹی ‘ عوامی نیشنل پارٹی اورمتحدہ قومی موومنٹ کے جلسوں اور جلوسوں کو خود کش حملوں اور بم بلاسٹ کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان تینوں سیاسی پارٹیوں کیلئے انتخابی مہم چلانا تقریباً نا ممکن ہو گیا۔ ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کا سب سے زیادہ نشانہ اے این پی کے تقریباً ایک ہزار کے قریب رہنما اور کارکن ‘جن میں پارٹی کے مرکزی لیڈر اور اسمبلیوں کے نمائندے بھی شامل تھے ‘شہید کر دیئے گئے۔ لیکن آفرین ہے پاکستانی عوام پر جنہوں نے ان دھمکیوں اور خونریز دہشت گردی کے حملوں کی پرواہ کیے بغیر جوق در جوق پولنگ سٹیشنوں پر پہنچ کر اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اور یوں ملک دشمن اور جمہوریت دشمن قوتوں کی سازش کو ناکام بنا دیا۔ 25 جولائی 2018ء کے دن منعقد ہونے والے انتخابات کو بھی اس قسم کے خطرات کا سامنا ہے۔ اگرچہ 2013 کے انتخابات کے برعکس کسی دہشت گرد تنظیم یا گروپ کی جانب سے ابھی تک کوئی کھلم کھلا دھمکی سامنے نہیں آئی‘ لیکن خطرہ پوری طرح موجود ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ ملک میں نگران سیٹ اپ بھی اس خطرے سے پوری طرح آگاہ ہے اور حفاظتی اقدامات کی ضرورت کو بھی محسوس کرتا ہے‘ لیکن اگر ہم اس خطرے کو وسیع تر تناظر میں دیکھیں تو اس کے کچھ پہلوئوں کی بھی نشاندہی کرنا پڑے گی‘ جن کو عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا ان کو کم اہمیت دی جاتی ہے۔ ان میں الیکشن کمیشن کے ذریعے انتخابات میں حصہ لینے والی تمام پارٹیوں اور امیدواروں کو نہ صرف الیکشن کوڈ کے مرتب کرنے‘ بلکہ اس پر مکمل طور پر عمل درآمد کرنے پر آمادہ کرنا بھی شامل ہے تا کہ سیاسی پارٹیوں اور امیدواروں کے درمیان محاذ آرائی کسی قسم کے تصادم کا باعث نہ بن سکے۔
پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے کسی ملک میں بھی انتخابی معرکے تشدد سے خالی نہیں رہے۔ ہر انتخاب کے موقعہ پر سیاسی پارٹیوں اور امیدواروں کے حامیوں کے درمیان تصادم کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں‘لیکن پاکستان میں 2018 کے انتخابات کے موقعہ پر تشدد کا اس لیے زیادہ خطرہ ہے کیونکہ انتخابات سے قبل ہی سیاسی درجہ حرارت میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ پاکستان میں سیاسی دھڑے بندی نمایاں ہے اور اس کی وجہ سے حریف سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے درمیان تصادم کا خطرہ موجود ہے۔ غالباً ایسے ہی ناخوشگوار واقعات کو روکنے کیلئے پولنگ سٹیشنوں پر فوج کو تعینات کیا گیا ہے۔ لیکن فوج کا دائرہ اختیار صرف پولنگ سٹیشنوں تک ہی محدود ہے۔ انتخابی سرگرمیاں پورے ملک میں اور دور دراز مقامات تک پھیلی ہوں گی‘ جہاں امن و امان کے قیام اور تصادم کو روکنے کیلئے فوجی دستے تعینات نہیں کیے جا سکتے۔ ان علاقوں میں امن و امان کا قیام نگران صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے‘ اور یہ حکومتیں یقینا اپنے فریضے سے آگاہ بھی ہوں گی اور ضروری اقدامات بھی کر رہی ہوں گی۔ جیسا کہ پنجاب میں ان اقدامات کا آغاز ہوا ہے۔ لیکن ان اقدامات کے لیے صوبائی نگران حکومتوں کو جن وسائل کا سہارا لینا پڑے گا وہ فوجی نہیں بلکہ سول ہیں‘ لیکن سول انتظامیہ (جن میں پولیس بھی شامل ہے) خصوصاً پنجاب اور سندھ میں جس طرح اکھاڑ پچھاڑ کی گئی ہے‘ اس سے ایک طرف تو پولیس اوربیورو کریسی میںڈی موریلائزیشن (Demoralization) بڑھ رہی ہے اور دوسری طرف چند سیاسی پارٹیوں کی طرف سے اس میں امتیازی سلوک کا الزام عائدکیا جا رہاہے‘ کیونکہ پولیس اور بیورو کریسی میں چھوٹے سے بڑے عہدوں تک‘ اہلکاروں اور افسروں کا جس پیمانے پر تبادلہ کیا گیا‘ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ عمل زیادہ تر پنجاب اور سندھ تک محدود ہے ‘جہاں بالترتیب پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی برسر اقتدار تھیں۔ ملک میں عام تاثر یہ ہے کہ نہ صرف صوبوں بلکہ مرکز میں بھی جو سب کچھ ایک مخصوص پارٹی کے دبائو کے تحت کیا جا رہاہے۔ کم از کم تین بڑی سیاسی پارٹیوں یعنی مسلم لیگ (ن) ، پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے بار بار الزام لگایا جا رہا ہے کہ ان کے امیدواروں کو پارٹی وفاداریاںتبدیل کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ شکایت کنندگان نے الیکشن کمیشن اور مرکز اور صوبوں میں نگران حکومتوں کی توجہ اس طرف دلائی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن اور نگران حکومتیں ان شکایات کی چھان بین کیلئے کوئی اقدامات نہیں کرتیں تو انتخابات کو کیسے آزاد‘ شفاف اور منصفانہ قرار دیا جائے گا اور کیا اس کی وجہ سے تصادم اور تشدد کا امکان پیدا نہیں ہو گا؟ اگر ایسا ہوا تو انتخابی عمل کو بیرونی طاقتوں کی سرپرستی میں کام کرنے والے دہشت گردوں سے بچانے کیلئے انتظامات دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ اور پورا انتخابی عمل اپنے معنی کھو دے گا۔