پاکستان اور چین کے درمیان گزشتہ تین برسوں سے تجارتی اور اقتصادی راہداری کے جس منصوبے یعنی ''سی پیک‘‘ پر عمل ہو رہا ہے اس کے بارے میں خدشات کا سلسلہ شروع سے چلا آ رہا ہے۔ لیکن ان میں سے اکثر خدشات بے بنیاد، افواہوں پر مبنی اور ان لوگوں کے اپنے ذہنوں کی اختراع ثابت ہوئے جو پاکستان اور چین کے درمیان دوستی اور تعاون کے رشتوں کو مزید مضبوط ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ اس لیے یہ افواہیں اور من گھڑت کہانیاں جلد دم توڑ گئیں اور سابق حکومت کے آخری دو ڈھائی برسوں میں مشکلات کے باوجود اس کے تحت متعدد منصوبوں کو مکمل کیا گیا ۔ کئی منصوبوں پر کام جاری ہے۔ تاہم چند خدشات ایسے ہیں جو حقیقی ہیں اور ان کی شروع سے ہی نشان دہی کی جاتی رہی ہے۔ ان میں سرفہرست پاکستان میں سیاسی عدم استحکام، لاء اینڈ آرڈر ،سکیورٹی کا مسئلہ اور پالیسیوں کے تسلسل کے بارے میں بے یقینی جیسے معاملات ہیں۔ پاکستان میں عوام کی اکثریت ''سی پیک‘‘ کو ایک ایڈپیکیج سمجھتی ہے۔ اور ایسا سمجھنا قدرتی ہے کیونکہ پاکستانی عوام کو شروع سے ہی ایڈ پیکیجز کی عادت ڈال دی گئی تھی۔ کبھی یہ سرد جنگ میں کمیونزم کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینے کے عوض ایڈ ہوتی تھی۔ کبھی افغانستان کی جنگ کی آگ میں انگلیاں جلانے کے بدلے صدر ریگن کی طرف سے ایڈپیکیج ملا تھا اور حال ہی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان میں طالبان سے برسرپیکار امریکی اور نیٹو افواج کو رسد پہنچانے والے کنٹینرز کو اپنی سر زمین سے گزرنے کی اجازت دینے پر ''کولیشن سپورٹ فنڈ‘‘ کی شکل میں ایڈ پیکیج ملا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اپریل 2015 ء میں جب پاکستان اور چین کے درمیان کاشغر اور گوادر کے درمیان سڑکوں، ریلوے، آئل اور گیس پائپ لائنوں اور توانائی کے منصوبوں کے قیام کیلئے مشترکہ سرمایہ کاری کے معاہدے پر دستخط ہوئے تو پاکستانی عوام نے اسے بھی ایک ایڈ پیکیج سمجھا، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ چین کی طرف سے سی پیک پاکستان کو معاشی طور پر فائدہ پہنچانے کیلئے ایک عظیم کوشش ہے۔ مگر یہ ایک ایڈ پیکیج نہیں ہے بلکہ ایک کاروباری معاہدہ ہے جسے کامیاب بنانے کیلئے دونوں ملکوں نے توانائی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کیلئے مشترکہ سرمایہ کاری پر اتفاق کیا ہے۔ اس میں چین کی طرف سے پاکستان کو دی جانے والی امداد یا گرانٹ کا حصہ بہت کم ہے۔ بیشتر حصہ چین کی طرف سے قرضوں اور چین کے پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے سرمایہ کاری پر مشتمل ہے۔
چین کے پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے سرمایہ کاری زیادہ تر توانائی کے شعبوں میں کی جا رہی ہے اور چونکہ 57 ارب ڈالر میں سے 35 ارب ڈالر توانائی کے منصوبوں پر خرچ کئے جائیں گے، اس لیے ''سی پیک‘‘ کے مستقبل کا انحصار چین کے پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے سرمایہ کاری پر ہے۔ لیکن تازہ ترین اطلاعات کے مطابق چین کے پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے پاکستان میں مزید سرمایہ کاری پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ اس کی تین وجوہات ہیں۔ ایک تو پاکستان میں سیاسی غیر یقینی صورتحال کا نہ ختم ہونے والا دور، دوسرے سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پاکستانی معیشت اور مالی حالات کو در پیش مشکلات اور تیسرے اس قسم کی اطلاعات کہ 25 جولائی کے انتخابات کے بعد آنے والی حکومت ،جس کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت ہو گی، سی پیک کو اگر ختم نہیں تو کم از کم اس کی رفتار کم کر دے گی۔ یہ خدشات اب اتنے نمایاں ہو گئے ہیں کہ نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کو ایک بیان کے ذریعے یقین دہانی کرانا پڑی کہ ''پاکستان سی پیک پر پہلے کی طرح کاربند رہے گا۔‘‘ حکومت کی طرف سے باضابطہ طور پر جاری ہونے والے اس بیان میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کے درمیان سی پیک پر مکمل اتفاق ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''سی پیک کے منصوبوں کو ان ہی شرائط کے تحت طے شدہ پروگرام کے مطابق مکمل کیا جائے گا۔‘‘ اس سلسلے میں اگر بعض افراد کی طرف سے غیر ذمہ دارانہ بیانات سامنے آئے ہیں تو ان کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ یہ بیانات سی پیک کے بارے میں مکمل لا علمی پر مبنی ہیں اور ان کی وجہ سے پاکستان اور چین کی لازوال دوستی کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے جو کچھ فرمایا وہ حرف بحرف درست ہے اور پوری پاکستانی قوم اس سے متفق ہے۔ لیکن ان کی خدمت میں مودبانہ عرض ہے کہ بعض حقائق ایسے ہیں جن سے منہ نہیں موڑا جا سکتا اور ان کی روشنی میں فوری اور مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تا کہ پاکستان کو ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار کرنے والا یہ منصوبہ متاثر نہ ہو۔ مثلاً نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں شرکاء کے نوٹس میں یہ حقیقت لائی جاسکتی ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی سے پاکستان کی معیشت پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور اگر پاکستان کی معیشت کمزور ہو گی اور بحران کا شکار ہو گی تو اس سے سی پیک متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔ پچھلے دنوں بین الاقوامی میڈیا کے حوالے سے اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ پاکستان کے مالی بحران کی وجہ سے سی پیک منصوبے کا مستقبل مخدوش ہو گیا ہے ۔ اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ پاکستان کو عام قسم کا نہیں بلکہ شدید مالی بحران در پیش ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر جس قدر نیچے گر گئی ہے وہ اس بحران کی بہت سی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں میں عدم توازن کا مسئلہ در پیش ہے۔ درآمدات کے مقابلے میں برآمدات میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ جو تھوڑی بہت سرمایہ کاری ہوئی ہے وہ سی پیک کی مرہون منت ہے۔ اب اگر سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی کی صورتحال سے سی پیک کا منصوبہ بھی متاثر ہونے لگے گا تو اس کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت کا کیا حال ہو گا؟ اس کا اندازہ لگاتے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کیونکہ دہشت گرد تنظیموں کو مالی وسائل کی فراہمی روکنے میں ناکامی پربین الاقوامی ادارے ''فنانشل ایکشن ٹاسک فورس‘‘ نے پاکستان کے خلاف جزوی معاشی پابندیاں عائد کر کے ''گرے لسٹ‘‘ (Grey List) میں ڈال رکھا ہے۔ اس کی وجہ سے پاکستانی معیشت مزید دبائو میں آ چکی ہے۔ اگرچہ موجودہ حکومت کا مینڈیٹ صرف 25 جولائی تک ہے لیکن ملک کو اس وقت جو چیلنجز در پیش ہیں ان کو حل کرنے میں ایک دن کی تاخیر بھی مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ اور سی پیک کے سلسلے میں تو اقدامات فوری کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ بڑا حساس مسئلہ ہے۔ اس کا تعلق دو ملکوں یعنی پاکستان اور چین کے درمیان سرکاری سطح پر تعلقات سے نہیں بلکہ چین کے پرائیویٹ سیکٹر سے بھی ہے۔ دنیا کے ہر پرائیویٹ سیکٹر کی طرح چین کا پرائیویٹ سیکٹر بھی اپنا سرمایہ لگانے سے پہلے سرمایہ کاری کے ماحول کا جائزہ لیتا ہے اور اگر سرمایہ کاری کے لئے ماحول سازگار نہ ہوا تو چین کا پرائیویٹ سیکٹر ،جو اپنے ملک کے بینکوں سے بھاری شرح سود پر قرضہ جات لے کر پاکستان میں توانائی کے اور دیگر منصوبوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے ،اپنا ہاتھ کھینچ لے گا۔ اس سے سی پیک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ یاد رہے کہ چین کا پرائیویٹ سیکٹر ماضی میں بھی پاکستان میں سکیورٹی کی مخدوش صورت حال کے پیش نظر سرمایہ کاری پر تیار نہیں تھا۔ اسی وجہ سے معاشی تعلقات کے مقابلے میں پاکستان کے چین کے ساتھ دفاعی شعبے میں تعلقات زیادہ وسیع رہے ہیں۔ یہ دو سابقہ سیاسی حکومتوں یعنی پیپلز پارٹی (2008-2013) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) (2013-2018) کی کوششوں اور سب سے بڑھ کر پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کامیابیوں کا نتیجہ ہے کہ چین کا پرائیویٹ سیکٹر پاکستان میں سرمایہ کاری پر آمادہ ہوا۔ اور یوں سی پیک کی بنیاد رکھی گئی۔ اب اگر سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی کی وجہ سے چین کا پرائیویٹ سیکٹر ایک دفعہ پھر پیچھے ہٹ جاتا ہے تویہ ایک بہت بڑا قومی نقصان ہو گا۔ اس لیے موجودہ نگران سیٹ اپ کو ایسے اقدامات کی اجازت نہیں دینی چاہئے جو سیاسی ماحول اور سکیورٹی کی صورتحال کو مزید خراب کر دیں۔ ڈاکٹر شمشاد اختر کی خدمت میں عرض ہے کہ مسائل بے شک معاشی نوعیت کے ہوں لیکن ان کے حل کا راستہ سیاسی فیصلوں کی روشنی میں نکالا جاتا ہے۔