کیا پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) ایک دفعہ پھر ایک دوسرے کے قریب آ رہی ہیں؟ چند ماہ پیشتر تو ایسا ممکن نظر نہیں آ رہا تھا‘ کیونکہ سال رواں کے اوائل میں سینیٹ کے اراکین اور چیئرمین کے انتخاب میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کے مبینہ کردار کی وجہ سے دونوں میں دوری ہی نہیں بلکہ کافی تلخی آ چکی تھی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن)‘ جو کافی عرصہ سے پیپلز پارٹی پر تنقیدی حملوں سے احتراز کر رہی تھی، نے سندھ میں پی پی پی کی کارکردگی اور زرداری صاحب کی مبینہ کرپشن کے حوالے سے دوبارہ حملے شروع کر دیئے تھے۔ جواب میں پیپلز پارٹی نے بھی نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف لفظوں کی یلغار شروع کر دی تھی۔ لیکن اب دونوں کے درمیان برف پگھلتی نظر آ رہی ہے اور اس کی وجہ پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی جانب سے جاری ہونے والے ایسے بیانات ہیں جن سے بعض امور پر مسلم لیگ (ن) کے مؤقف سے اتفاق بھی کیا گیا تھا‘ اور اپنی حریف جماعت کی حمایت بھی کی گئی تھی۔ مثلاً 13 جولائی کو مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی لاہور آمد سے قبل ملک بھر میں خصوصاً پنجاب میں ن لیگ کے کارکنوں اور رہنمائوں کو جس طرح ہراساں کیا گیا اور قید میں ڈالا گیا، بلاول بھٹو نے اس پر سوال اٹھایا تھا۔ اس پر شہباز شریف نے پیپلز پارٹی اور بلاول بھٹو کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ پری پول دھاندلی کے ذریعے مطلوبہ انتخابی نتائج حاصل کرنے کے الزامات پر بھی پیپلز پارٹی نے پاکستان ن لیگ کی ہاں میں ہاں ملا دی تھی۔ دونوں سیاسی جماعتوں نے یک زبان ہو کر یہ بھی کہنا شروع کر دیا تھا کہ 2018ء کے انتخابات کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے؛ تاہم بلاول بھٹو کا تازہ ترین بیان‘ جس میں انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایک اور چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کرنے کیلئے تیار ہے‘ ن لیگ کے ساتھ پی پی کی مفاہمت کے امکان کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ اس بیان کو پی پی کے چیئرمین کی طرف سے ن لیگ کو ایک پیغام کے مترادف قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ن لیگ کی ایک اہم رہنما اور سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے بلاول بھٹو کے اس بیان کا خیر مقدم کیا اور کہا ہے کہ ن لیگ پیپلز پارٹی کے ساتھ ایک اور مفاہمت کرنے کیلئے تیار ہے۔ ن لیگ کی طرف سے بلاول بھٹو کے بیان پر فوری اور مثبت رد عمل کی وجہ بالکل واضح ہے۔ ن لیگ کی ٹاپ لیڈرشپ کو نا اہل قرار دے کر جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ جو باقی بچے ہیں نیب ان کا پیچھا کر رہی ہے۔ جو علاقے اس کا گڑھ سمجھے جا رہے تھے وہاں پارٹی کے سابق ارکان اسمبلی کو پارٹی وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ لیگ کے قریبی ذرائع کے مطابق پورے ملک خصوصاً پنجاب میں اس کے ہزاروں کارکنوں کو مختلف مقدمات میں ملوث کرکے جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ ن لیگ اس وقت جن مشکلات سے دوچار ہے‘ ان کے پیش نظر پیپلز پارٹی کی طرف سے مفاہمت کی پیش کش ن لیگ کیلئے غیبی امداد سے کم نہیں۔ اگرچہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو‘ دونوں کی طرف سے کچھ عرصہ پیشتر ن لیگ کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمت کو خارج از امکان قرار دے دیا گیا تھا‘ لیکن پولنگ ڈے کے قریب آنے پر ملک میں تیزی کے ساتھ ایسی سیاسی اور انتظامی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہو گئیں‘ جن کے پیش نظر پیپلز پارٹی سمیت باقی تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں کو احساس ہونے لگا کہ یہ سب ایک مخصوص سیاسی پارٹی کے اقتدار کے راستے کو ہموار کرنے کیلئے کیا جا رہا ہے۔ خصوصاً جب ایک بینک کے چیف ایگزیکٹو کو منی لانڈرنگ کے ایک کیس کے سلسلے میں حراست میں لیا گیا اور آصف زرداری اور فریال تالپور کے خلاف اقدامات کا اعلان کیا گیا تو پیپلز پارٹی کی قیادت کو یقین ہو گیا کہ ن لیگ کے بعد اس کی باری آنے والی ہے۔ مولا بخش چانڈیو نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ سندھ میں جہاں پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی پوزیشن مضبوط ہے، پارٹی ٹکٹ ہولڈرز کو یا تو پارٹی ٹکٹ واپس کرنے یا دوسری پارٹیوں میں شمولیت اختیار کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ان اطلاعات کی بنیاد پر چانڈیو صاحب نے خود کہا تھا کہ معلوم ہوتا ہے کہ ن لیگ کو مضمحل کرنے کے بعد اب پیپلز پارٹی کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان مفاہمت کے حق میں ان واقعات کے علاوہ اور بھی کئی اہم محرکات کار فرما ہیں۔ مثلاً بلاول بھٹو اگرچہ تحریک انصاف اور ن لیگ‘ دونوں کے ساتھ پیپلز پارٹی کے نظریاتی اختلاف کا ذکر کرتے ہیں‘ مگر اول الذکر کے ساتھ اختلافات پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ عمران خان کی طرف سے جلسوں میں آصف زرداری پر کرپشن کے سنگین الزامات کی بوچھاڑ بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر ہم 2014ء سے اب تک کے عرصے میں پیدا ہونے والے اہم سیاسی اور انتخابی مسائل کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ ان پر پیپلز پارٹی، تحریک انصاف کے مقابلے میں ن لیگ کے مؤقف سے زیادہ متفق رہی ہے۔ مثلاً عمران کے دھرنا نمبر1 کے دوران بھی پارلیمنٹ کے دفاع میں پیپلز پارٹی، ن لیگ کے ساتھ کھڑی تھی۔ گزشتہ برس 28 جولائی کو جب نواز شریف کی نا اہلی کے بعد انہیں وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونا پڑا تو عمران خان نے اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے انتخابات کا مطالبہ کیا تھا‘ لیکن پیپلز پارٹی نے اس کی مخالفت کی‘ اور اصرار کیا کہ منتخب اسمبلیوں اور حکومتوں کو اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہئے۔ نگران حکومتوں کے قیام کے بعد جب انتخابات کو دو چار ماہ کے لئے ملتوی کرنے کے حق میں ادھر ادھر سے آوازیں بلند ہونے لگیں تو پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے مل کر ان تجاویز کی مخالف کی۔ پارلیمنٹ کے بارے میں عمران کے توہین آمیز ریمارکس کی مذمت میں بھی پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) 1973ء کے آئین کے تحت پاکستان میں وفاقی پارلیمانی جمہوریت اور سویلین بالا دستی کے حق میں ہیں‘ جبکہ بقول جاوید ہاشمی عمران خان فوجی آمروں کی تقلید میں صدارتی نظامِ حکومت کے حامی اور پارلیمانی نظام یا پارلیمانی بالا دستی کے خلاف ہیں۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 2006ء میں چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کئے تھے‘ جس کے تحت دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی بجائے سیاست میں غیر سیاسی مداخلت کو روکنے اور سویلین بالا دستی پر مبنی وفاقی پارلیمانی نظام کو مضبوط کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اگرچہ دونوں سیاسی جماعتیں بحالیٔ جمہوریت کے بعد چارٹر آف ڈیموکریسی کے تحت کئے گئے وعدوں کو ایفا نہ کر سکیں؛ تاہم اس تاریخی دستاویز میں درج مقاصد سے دونوں میں سے کسی نے بھی روگردانی نہیں کی۔ اس میں درج مقاصد اور اصول لازوال ہیں‘ اور دونوں سیاسی جماعتوں کے بیانیہ کا لازمی حصہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سخت اختلافات کے باوجود دونوں سیاسی جماعتوں کی طرف سے ان اصولوں کو دوبارہ زندہ کرنے کے ارادے ظاہر کئے جاتے ہیں، جو چارٹر آف ڈیموکریسی کی بنیاد تھے۔
اس وقت پاکستان کے حالات ایسے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) ایک دوسرے کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بلاول بھٹو نے ایک اور چارٹر آف ڈیموکریسی میں تمام پارٹیوں کی شمولیت کی بات کی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں وہی سیاسی پارٹیاں شامل ہو سکتی ہیں جو پاکستان میں وفاقی پارلیمانی جمہوریت، آئین کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالا دستی پر یقین رکھتی ہیں۔ پاکستان کے موجودہ حالات کی روشنی میں ایسے سوشل کنٹریکٹ کی جتنی اب ضرورت ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔ ابھی بلاول بھٹو نے ایک تجویز پیش کی ہے۔ انتخابات کے بعد تجویز پر باقاعدہ عمل درآمد کا آغاز ہو سکتا ہے کیونکہ یہ انتخابات پاکستان کی تاریخ میں اہم ترین انتخابات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں فیصلہ ہو جائے گا کہ ملک میں جمہوری عمل اپنا تسلسل برقرار رکھ سکے گا یا ایک اور شب خون کا شکار ہو جائے گا۔