"DRA" (space) message & send to 7575

نئی حکومت اور خارجہ پالیسی

پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے 2018ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں جہاں ملک کو در پیش چیلنجز کا ذکر کیا وہاں خارجہ پالیسی خصوصاً افغانستان اور بھارت کے ساتھ کشیدگی کا بھی ذکر کیا ۔ ان کا یہ کہنا بجا ہے کہ امن کی جتنی ضرورت اس وقت پاکستان کو ہے دنیا میں شاید ہی کسی اور ملک کو ہو۔ اس سلسلے میں انہوں نے پاکستان کے ان دونوں ہمسایہ ممالک کا نام لیا۔ عمران خان کا یہ کہنا درست ہے کہ جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوتا‘ پاکستان میں حالات پر امن نہیں ہو سکتے ۔ اسی طرح بھارت کے ساتھ پر امن ہمسائیگی کی بنیاد پر اچھے تعلقات کی اہمیت بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے خطے میں امن اور استحکام پیدا ہو گا اور دونوں ملکوں کے عوام فائدہ اٹھائیں گے۔ اسی لیے انہوں نے افغانستان کے ساتھ دوستانہ اور قریبی تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور بھارت کو بھی متنازعہ امور پر بات چیت کی دعوت دی ‘تاہم تحریک انصاف کے چیئر مین اور متوقع وزیراعظم نے ان دونوں ملکوں کے ساتھ تعلقات میں ڈیڈ لاک کو توڑنے کیلئے کوئی ٹھوس تجویز پیش نہیں کی۔ جہاں تک پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوستی اور توازن پر مبنی تعلقات کی بات ہے‘ تو یہ نہ صرف دونوں ملکوں کے عوام بلکہ پورے خطے کے امن و استحکام کیلئے اہمیت کے حامل ہیں۔ عالمی برادری بھی اسے خطے کے امن اور افغانستان میں جنگ کے خاتمے کیلئے ضروری سمجھتی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ سابق امریکی صدر بارک اوباما اور چین کی موجودہ قیادت کی طرف سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان فاصلے کم کرنے کی بہت کوششیں ہو چکی ہیں۔خود پاکستان اور افغانستان بھی اس میدان میں دوسروں سے پیچھے نہیں ‘ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے اپنی طویل مدت صدارت میں 20 سے زائد مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا اور پاکستان اور افغانستان کو جڑواں بھائی قرار دیا۔ کچھ عرصہ پہلے تک دونوں ملکوں کے درمیان ڈھائی ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کی دو طرفہ تجارت تھی‘ مگر اس کے باوجود دونوں ملکوں میں الزام بازی بند نہیں ہو سکی‘ کیونکہ دونوں کے درمیان اعتماد کی کمی ہے۔ جب عمران خان وزیر اعظم کی حیثیت سے اختیارات سنبھالیں گے تو ان کے سامنے سب سے اہم سوال یہ ہو گا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد کو کیسے فروغ دیا جا سکتا ہے۔ صرف یہ کہنے سے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات یورپی یونین کی مانند ہونے چاہئیں‘ پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے‘ بلکہ اس قسم کا بیان افغانستان میں مزید غلط فہمیوں کو جنم دے سکتا ہے۔
افغانستان کے علاوہ عمران خان نے پاک‘ بھارت تعلقات پر بھی باتیں کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دونوں کے باہمی تعلقات کشیدگی سے پاک ہونے چاہئیں اور تجارت بحال ہونی چاہئے‘ کیونکہ اس سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہو گا۔ اس کے لیے انہوں نے بات چیت پر زور دیا اور کہا کہ اگر بھارت اس کیلئے آمادہ ہے تو پاکستان بھی تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر بہتر تعلقات کی خاطر بھارت پاکستان کی جانب ایک قدم اٹھاتا ہے تو پاکستان دو قدم بڑھنے کے لیے تیار ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی وجہ سے پاک بھارت تعلقات میں پیش رفت نہیں ہو رہی۔یہ باتیں بھی پرانی ہیں اور انہیں ایک عرصہ سے ہم سنتے آ رہے ہیں‘ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک عرصے سے جو ڈیڈ لاک چلا آ رہا ہے‘ اسے ختم کرنے کیلئے کوئی راستہ نکالا جائے‘ اور دونوں ممالک کم از کم بات چیت کا سلسلہ شروع کر سکیں۔ اس کے لیے دونوں ملکوں کو بغیر کسی پیشگی شرط کے بات چیت کا آغاز کرنے کی پیش کش کرنی چاہیے۔ پاکستان کا تو یہی مؤقف ہے کہ دونوں ملکوں کو غیر مشروط طور پر دو طرفہ امن مذاکرات کا آغاز کر دینا چاہیے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کا ایک راستہ2004ء میں شروع کیا جانے والا مذاکرات کا سلسلہ تھا‘ جسے کمپوزٹ ڈائیلاگ کہتے ہیں۔اس سلسلے کونہ صرف بین الاقوامی سطح پر‘ بلکہ پاکستان اور بھارت‘ حتیٰ کہ لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف رہنے والے کشمیریوں کی بھی پذیرائی حاصل ہوئی۔ ان مذاکرات کے چار رائونڈ بغیر کسی تعطل کے 2008ء تک جاری ر ہے‘ مگر نومبر 2008ء میں ممبئی حملوں کی وجہ سے بھارت نے انہیں معطل کر دیا اور دو تین سال تک معطل رہے‘ تاوقتیکہ پاکستان اور بھارت کے اس وقت کے وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور من موہن سنگھ کے درمیان کھٹمنڈو میں ایک ملاقات کے نتیجے میں انہیں دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق ہوا۔ مگر 2011ء اور 2012ء میں لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے واقعات کی وجہ سے یہ مذاکرات ایک آدھ ملاقاتوں سے آگے نہ بڑھ سکے۔ اس کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جن شعبوں مثلاً تجارت‘ سفری سہولتوں اور عوامی رابطوں میں جو اہم اقدامات کئے جا سکتے تھے وہ نہ کئے جا سکے۔ ان اقدامات میں پاکستان کی طرف سے بھارت کیلئے ایم ایف این سٹیٹس کا اعلان بھی تھا‘ لیکن دونوں ملکوں کے درمیان لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کی وجہ سے اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد جب میاں محمد نواز شریف وزیراعظم بنے تو انہوں نے بھی متنازعہ مسائل پر بات چیت کے ذریعے بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش کی اور اس کے حق میں انہوں نے بھی وہی دلائل پیش کئے جو تحریک انصاف کے چیئر مین نے پیش کئے ہیں‘ لیکن یہ کوشش بھی ناکام رہی اور دونوں ملکوں نے ایک دوسرے پر اس ناکامی کی ذمہ داری ڈال دی۔
کشمیر میں حالات خراب ہونے کی وجہ سے مذاکراتی عمل کا احیاء اور بھی مشکل ہو گیا ہے‘ کیونکہ دونوں ملکوں نے اس مسئلے پر اپنے اپنے مؤقف میں سخت گیری اختیار کر لی ہے۔ بھارت کا مطالبہ ہے کہ پاکستان پہلے ممبئی میں دہشت گردی میں ملوث مبینہ پاکستانی نان سٹیٹ ایکٹرز کو ان کے جرائم کے مطابق سزا دے‘ جبکہ پاکستان نے شرط عائد کی ہے کہ مذاکرات میں پہلے کشمیر پر بحث ہو گی۔ یہ ڈیڈ لاک تین سال سے جاری ہے اور اس کی وجہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات اتنے کشیدہ ہو چکے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر سنگین تشویش کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے اور دونوں ملکوں پر کشیدگی کو کم کرنے پر زور بھی دیا جا رہا ہے۔ انتخابات 2018 ء کے بعد اس معاملے میں پیش رفت کی توقع کی جا سکتی ہے‘ کیونکہ پاکستان میں نئی حکومت اقتدار سنبھالنے والی ہے۔ عمران خان بھارت میں جانی پہچانی شخصیت ہیں اور جیسا کہ قوم سے اپنے پہلے خطاب میں انہوں نے کہا کہ بھارت میں وہ بہت سے لوگوں کو جانتے ہیں‘ اس لئے پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازعہ امور پر بات چیت کے انعقاد کے ٹھوس امکانات موجود ہیں‘ تاہم دونوں ملکوں کو اسے حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے ایک دوسرے کو رعایتیں دینا پڑیں گی۔ بھارت کا سب سے اہم مطالبہ ممبئی دہشت گرد حملوں میں مبینہ طور پر ملوث پاکستان کے نان سٹیٹ ایکٹرز کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنا اور جنوری 2016ء میں پٹھانکوٹ کے بھارتی فوجی اڈے پر مبینہ طور پر جیش محمد کے ملوث ہونے کی تفتیش کرنا ہے۔ پاکستان نے ان دونوں معاملات میں قانون اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے سے انکار نہیں کیا۔ اس کے جواب میں بھارت کو بھی اپنے مؤقف میں لچک پیدا کرنا پڑے گی‘ خصوصاً کشمیر میں اس وقت جو صورتحال ہے اس کی وجہ سے پاکستان میں سخت بے چینی پائی جاتی ہے ‘ اگر اس صورتحال کو یونہی جاری رہنے دیا گیا تو پاکستان اور بھارت کے درمیان با معنی اور بار آور مذاکرات کا امکان اور بھی مشکل ہو جائے گا۔ اگرچہ بھارت میں یہ پارلیمانی انتخابات کیلئے تیاری کا سال ہے اور بی جے پی کے ہمراہ بھارت کی تمام سیاسی جماعتیں اس میں پوری طرح مصروف ہیں‘ اس کے باوجود عام رائے یہ ہے کہ نریندر مودی کی حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات یا کشمیر پر کوئی بڑا قدم نہیں اٹھائے گی‘ اور اگر کسی پیش رفت کی توقع ہے تو وہ 2019ء کے انتخابات کے بعد ہی پوری ہو گی۔ مگر پاکستان میں حکومت کی تبدیلی نے ایک نیا موقعہ پیدا کیا ہے‘ دونوں ملکوں کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ واہگہ سرحد کے دونوں اطراف اور لائن آف کنٹرول سے آر پار رہنے والے لوگوں کی بھی خواہش ہے کہ پاکستان اور بھارت باہمی تعلقات کو معمول کی سطح پر لانے کیلئے ایک دوسرے کی طرف قدم بڑھائیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں