انتخابات کے بعد حکومت سازی کیلئے سیاسی جماعتوں کے مابین کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اتحاد معمول کی بات ہے لیکن بعض اتحاد ایسے ہوتے ہیں جو اپنے ممکنہ مضمرات کی وجہ سے غیر معمولی اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک معاہدہ حالیہ انتخابات میں اکثریتی پارٹی بن کر ابھرنے والی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے درمیان طے پانے والا 9 نکاتی معاہدہ ہے‘ جس کے تحت ایم کیو ایم اپنے چھ اراکین قومی اسمبلی کے ہمراہ مرکز میں پی ٹی آئی کی قیادت میں تشکیل پانے والی مخلوط حکومت کا حصہ ہو گی۔ بدلے میں پی ٹی آئی کی مرکزی حکومت نے ایم کیو ایم کے جن مطالبات کو تسلیم کرکے ان پر عملدرآمد کرنے کا وعدہ کیا ہے ان میں کراچی کے لیے ایک سپیشل پیکیج، پولیس اصلاحات، چند انتخابی حلقے دوبارہ کھولنا، مردم شماری کے نتائج کی تصدیق کیلئے چند بلاکس کا آڈٹ اور حیدر آباد میں یونیورسٹی کا قیام‘ شامل ہیں۔ قابل غور یہ ہے کہ ایم کیو ایم کو بھی حالیہ انتخابات کے بارے میں شکایت ہے اور دھاندلیوں کے خلاف اس نے تحریک بھی چلا رکھی ہے‘ لیکن دھاندلیوں کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں کی تحریک میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ ایم کیو ایم اپنے آپ کو سندھ کے شہری مراکز یعنی کراچی، حیدر آباد اور سکھر کا نمائندہ سمجھتی ہے۔ (اگرچہ حالیہ انتخابات میں اسے کراچی سے صرف 4 اور حیدر آباد سے 2 قومی اسمبلی کی نشستیں حاصل ہوئی ہیں) لیکن اس نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں ہاتھ نہیں دیا، حالانکہ انتخابات میں موخرالذکر کو پورے صوبے کا مینڈیٹ حاصل ہوا ہے۔ صوبہ سندھ لسانی بنیادوں پر دو حصوں میں منقسم ہے۔ اردو زبان بولنے والے سندھی جو صوبے کے بڑے بڑے شہری مراکز میں مقیم ہیں‘ اور سندھی زبان بولنے والے سندھی جن کی بھاری اکثریت اندرون سندھ دیہی علاقوں میں آباد ہیں۔ پاکستان میں امن اور سیاسی استحکام کے خواہشمند حلقوں کی متفقہ رائے یہ رہی ہے کہ سندھ میں امن اور ترقی کیلئے ان دونوں لسانی گروپوں میں اتفاق، اتحاد اور تعاون ضروری ہے۔ اسی لیے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کو ''نیچرل پارٹنرز‘‘ سمجھا جاتا رہا ہے۔ اس سوچ کی بنا پر شہید محترمہ بے نظیر بھٹو (1988-1990) اور آصف علی زرداری (2008-13) نے ایم کیو ایم کو مرکز اور صوبے‘ دونوں میں اپنا اتحادی بنایا لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایم کیو ایم نے اس خیر سگالی کا جواب مثبت صورت میں نہیں دیا۔ دسمبر 1989 میں اتحادی ہونے کے باوجود بے نظیر حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کا ساتھ دیا اور زرداری دور حکومت میں شریک اقتدار ہونے کے باوجود کراچی میں امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کیلئے پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت سے پوری طرح تعاون نہیں کیا۔ ایم کیو ایم کی اس روش کے باعث کراچی میں پیپلز پارٹی کے حلقے، ایم کیو ایم سے نہ صرف نالاں تھے بلکہ اس سے اتحاد بھی ختم کرنا چاہتے تھے‘ لیکن صدر زرداری اور ان کے بعض قریبی رہنما ایم کیو ایم سے ہر صورت میں اتحاد برقرار رکھنا چاہتے تھے‘ ان میں رحمان ملک بھی شامل تھے‘ جبکہ ذوالفقار مرزا، ایم کیو ایم کو بلیک میلر اور کراچی میں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کی وارداتوں کا ذمہ دار قرار دیتے تھے۔ ایم کیو ایم کے بارے میں پالیسی ہی دراصل زرداری، ذوالفقار مرزا اختلاف کا باعث بنی۔ یہاں تک کہ بلاول بھٹو زرداری بھی اپنے والد کی ایم کیو ایم کو ہر قیمت پر خوش رکھنے کی پالیسی پر ناراض تھے۔ جو لوگ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے تعلقات کے پس منظر سے آگاہ ہیں‘ وہ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے حالیہ معاہدے پر قطعاً حیران نہیں ہوں گے۔ یہ معاہدہ ایم کیو ایم کے سابقہ ریکارڈ کے عین مطابق ہے۔ ایک پُرامن، خوشحال اور مستحکم سندھ کی خاطر صوبے کی سب سے بڑی پارٹی کا ہمنوا ہونے کی بجائے ایم کیو ایم نے ہمیشہ صوبے سے باہر ایسی قوت کا سہارا ڈھونڈنے کی کوشش کی‘ جو پیپلز پارٹی کو اپنا حریف سمجھتی تھی‘ خواہ یہ ضیاالحق تھا یا جنرل مشرف۔ سپریم کورٹ کی طرف سے کراچی میں امن و امان کے مسئلے پر از خود نوٹس لینے کے بعد ستمبر 2013 میں جب پولیس اور رینجرز مشترکہ آپریشن کا نواز شریف حکومت کے دور میں فیصلہ کیا گیا تو ایم کیو ایم نے اس کی کمانڈ، پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کی بجائے مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے ہاتھ میں دینے کی حمایت کی‘ لیکن سابق وزیر اعظم نواز شریف نے سندھ میں پیپلز پارٹی کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے ناصرف کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کی تجویز مسترد کر دی بلکہ سندھ میں پیپلز پارٹی حکومت کے وزیر اعلیٰ کو کراچی آپریشن کا ''کیپٹن‘‘ مقرر کر دیا۔ دورانِ آپریشن ایم کیو ایم کی طرف سے احتجاج ہوتا رہا کہ یہ یکطرفہ کارروائی ہے اور اس میں صرف ایم کیو ایم کے کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس آپریشن سے کراچی میں ناصرف امن و امان کے قیام میں مدد ملی بلکہ ایم کیو ایم کے حصے بخرے کرنے کا مقصد بھی حاصل ہو گیا۔ ایم کیو ایم کے جس دھڑے کے ساتھ پی ٹی آئی نے معاہدہ کیا ہے وہ اگرچہ تنظیمی طور پر الطاف حسین کی زیرِ قیادت ایم کیو ایم لندن سے الگ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ نظریاتی طور پر دونوں ایک ہیں۔ دونوں کی سیاست مہاجر قومیت کے گرد گھومتی ہے۔ ان کے فلسفے اور پروگرام کا ایک ہی مقصد ہے، سندھ کے شہری علاقوں‘ جہاں اردو زبان بولنے والے لوگوں کی اکثریت آباد ہے‘ کو باقی سندھ سے کاٹ کر علیحدہ یونٹ بنایا جائے۔ یہ مقصد کبھی مہاجر صوبے، کبھی سندھ کو دو یا دو سے زیادہ انتظامی یونٹس میں تقسیم کرنے اور کبھی کراچی کو وفاقی علاقہ قرار دینے کے مطالبے کی صورت میں سامنے آتا رہا ہے۔ الطاف حسین کی زیر قیادت ایم کیو ایم کا بھی یہی مطالبہ تھا اور الطاف حسین کی براہ راست قیادت کے بغیر بھی ایم کیو ایم (پاکستان) کا یہی نعرہ ہے۔ ایم کیو ایم (پاکستان) کے ایک اہم رہنما اور سینیٹر بیرسٹر فروغ نسیم حال ہی میں کراچی کو وفاقی حکومت کی تحویل میں دینے کی تجویز دے چکے ہیں۔ موصوف یہ بھی بیان کر چکے ہیں کہ ایم کیو ایم کو سب سے زیادہ فائدہ ملک میں مارشل لا ادوار میں ہوا۔ اس سلسلے میں انہوں نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور کی مثال دی۔
ایم کیو ایم کی طرف سے پی ٹی آئی کے ساتھ جا کھڑا ہونے میں اس یہ تاریخی بیگیج بھی پوری طرح اور واضح طور پر اس کے ہمراہ ہے۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ پی ٹی آئی کس حد تک ایم کیو ایم کے اس بیگیج سے متفق ہے‘ لیکن 9 نکاتی معاہدے میں شامل ایم کیو ایم کے مطالبات کو تسلیم کر کے پی ٹی آئی نے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ سندھ حکومت کو بائی پاس کر کے کراچی یا صوبے کے دیگر شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کی خواہش کے مطابق ترقیاتی یا انتظامی اقدامات کرے گی۔ اگر پی ٹی آئی کی آئندہ وفاقی حکومت نے اس راہ پر چلنے کا فیصلہ کیا تو وفاق اور سندھ کے تعلقات میں کشیدگی لازماً پیدا ہو گی۔ اگر ایسی صورت حال پیدا ہوئی تو یہ پاکستان کے وفاقی ڈھانچے کو کمزور کرنے کے مترادف ہو گی۔ پاکستانی وفاق میں سندھ کی اہمیت محض اس لئے ہے کہ بلوچستان کی طرح یہ صوبہ بھی قدرتی اور معدنی وسائل سے مالا مال ہے۔ سندھ میں تیل اور گیس کے نئے ذخائر دریافت ہو رہے ہیں۔ تھر میں کوئلے کے وسیع ذخائر ان کے علاوہ ہیں۔ ان وسائل کی دریافت کا سندھ کی سیاست پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔ حالیہ انتخابات میں بھی توقع کے برعکس سندھ میں جو نتائج سامنے آئے ہیں‘ ان سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ سندھ کروٹ لے رہا ہے اور اس کے پیچھے سندھ کے دیہی ہی نہیں بلکہ دور دراز علاقوں‘ جہاں کسی زمانے میں رسائی ممکن نہ تھی، اپنے صوبے کی ثقافت، معیشت اور تاریخ پر فخر کا عنصر کار فرما ہے۔ سیاسی قوتیں ابھر رہی ہیں۔ اس ماحول میں اگر وفاقی حکومت نے ایک مخصوص لسانی گروہ کو ساتھ ملا کر سندھ کے بنیادی مفادات کے خلاف اقدامات کئے تو سندھ کے اتحاد اور استحکام کیلئے نقصان دہ ثابت ہو گا۔