"DRA" (space) message & send to 7575

پاک امریکہ تعلقات : نئی حکومت کا پہلا امتحان

پاکستان کی نئی حکومت کو در پیش چیلنجوں پر ان کالموں میں جب بھی کوئی بات ہوئی ‘تو خارجہ پالیسی کے محاذ کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے ارد گرد واقع خطوں میں ایسے حالات اور مسائل موجود ہیں ‘جن سے عہدہ برآ ہونے کے لیے پاکستان ایک کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ بین الاقوامی برادری کی خواہش ہے کہ اسلام آباد اس میں ایک فعال اور مثبت کردار ادا کرے۔ پاکستان بھی اس سے متفق ہے‘ اور اسے ان علاقوں میں اپنے ذمہ دارانہ کردار کی اہمیت کا پورا احساس ہے۔ اس کا ثبوت بحر ہند میں میری ٹائم سکیورٹی فورس میں پاکستان کی موجودگی اور اسی ماہ روس میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے زیر اہتمام رکن ممالک جن میں بھارت بھی شامل ہے‘ کی مشترک فوجی مشقوں میں‘ پاکستانی فوجی دستوں کی شرکت ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے ہمسایہ ملک افغانستان سے بھی راہ و رسم بہتر بنانے کے لیے پوری سنجیدگی کے ساتھ سلسلہ جنبانی کی ہے‘ لیکن افغانستان اور جنوبی ایشیا کے امن اور استحکام کے حوالے سے ایک اہم سٹیک ہولڈر(امریکہ) پاکستان کی ان کاوشوں سے مطمئن نہیں۔ اس کی تازہ مثال امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو اور وزیراعظم عمران خان کے درمیان ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو ہے۔ اس گفتگو کے حوالے سے امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ترجمان کا دعویٰ تھا کہ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے کردار کی اہمیت تسلیم کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ پاکستان اس ضمن میں اپنی کوششوں کو مزید تیز کرنے کے علاوہ 'اپنے ہاں سرگرم دہشت گرد تنظیموں اور گروپوں‘ کی سرکوبی کے لیے بھی اقدام کرے گا۔ اس پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے اس بات کی تردید کی ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور امریکی وزیر خارجہ کے درمیان ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران پاکستان میں سرگرم دہشت گردوں پر کسی قسم کی کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے‘تاہم امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان اپنی بات پر مُصر ہیں۔ اس طرح پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات جو تقریباً ایک برس سے متواتر بحران کا شکار چلے آ رہے تھے‘ اب ایک نئی صورتحال سے دو چار ہو گئے ہیں‘ جو پہلے کی نسبت کہیں زیادہ سنگین ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت کو اقتدار سنبھالے ابھی ایک ہفتہ ہی ہوا ہے۔ 
پاکستان کے خارجہ تعلقات میں امریکہ کے ساتھ تعلقات کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ حالیہ دنوں میں پیدا ہونے والی دوریوں اور بد گمانیوں کے باوجود دونوں ممالک کے لیے ان تعلقات کو مستحکم اور مثبت شکل میں رکھنا بہت ضروری ہے‘ خاص طور پر پاکستان اس وقت جس صورتحال سے دو چار ہے ‘امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی پاکستان کیلئے مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔ امریکہ کے ساتھ بگڑتے ہوئے تعلقات اور خاص طور پر صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کی طرف سے کئے گئے اقدامات کے جواب میں پاکستان کارد عمل یقینا ملک کے مفادات کے مطابق ہو گا‘ لیکن حتمی مؤقف اختیار کرنے سے پہلے نئی حکومت کو چند ایک حقائق کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ ان میں سے پہلا یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کو پاکستان سے جو شکایتیں ہیں‘ وہ پرانی ہیں۔ ان سے پہلے بھی امریکی حکومتیں‘ مثلاً: باراک اوباما کے دور میں بھی پاکستان سے 'ڈومور‘ کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے میڈیا میں پاکستان پر افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ اس مطالبے کی حمایت امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیاں یعنی ری پبلکن اور ڈیموکریٹ کر رہی ہیں‘ یہ الگ بات ہے کہ ٹرمپ کی زبان اور لہجہ سفارتی آداب کے خلاف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے بارے منفی رویے پر امریکہ میں قوی اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ یہی حال کم و بیش باقی ممالک کا ہے‘ جہاں پاکستانی بیانیہ کی بجائے امریکی بیانیہ کو زیادہ پذیرائی حاصل ہے‘ حالانکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور ان کا اعتراف بھی کیا جاتا ہے‘ لیکن اس کے باوجود پاکستان سے 'ڈومور‘ کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس کی توجیح یہ پیش کی جاتی ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنی ناکامی کو چھپانے کیلئے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتا ہے۔ افغانستان کی نہ ختم ہونے والی جنگ سے دامن چھڑانے کیلئے امریکہ پاکستان کی مدد کا طلب گارہے اور چاہتا ہے کہ پاکستان افغان طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے انہیں افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بٹھائے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان کے بارے میں سخت امریکی ردعمل کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ افغان حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ گزشتہ ہفتے افغانستان کے شہر غزنی پر طالبان حملوں کے دوران لڑائی میں مارے جانے والے طالبان کی میتیں اور زخمی پاکستان لائے گئے۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے ان اطلاعات کو غلط قرار دیاہے‘ مگر غزنی اور افغانستان کے دیگر شہروں بشمول کابل پر طالبان کے منظم حملوں کے بعد افغان حکومت اور امریکہ نے سخت رویہ اختیارکیا ہوا ہے‘اس کا ثبوت یہ ہے کہ امریکہ اور افغان حکومت نے روس کی میزبانی میں اس ماہ ہونے والے امن مذاکرات میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ اس کانفرنس میں 12 ممالک کو مدعو کیا گیا ہے اور ان میں طالبان بھی شامل ہیں‘ جنہوں نے اس کانفرنس میں شرکت پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ لیکن افغان حکومت نے یہ کہہ کر کہ وہ کسی تیسرے فریق کی موجودگی کے بغیر افغان طالبان کے ساتھ براہ راست بات کرنے کی خواہشمند ہے‘ اس کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور افغان حکومت طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی پالیسی برقرار رکھتے ہوئے‘ طالبان کے خلاف فوجی کارروائیوں کو تیز کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ نے مشہور سفارت کار زلمے خلیل زاد کو افغانستان میں اپنا سفیر مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ خلیل زاد پہلے بھی افغانستان میں امریکہ کے سفیر رہ چکے ہیں اور وہ اپنی پاکستان دشمنی کے لیے مشہور ہیں۔ لیکن مسئلہ صرف افغانستان تک محدود نہیں۔
باراک اوباما سے ڈونلڈ ٹرمپ تک امریکی انتظامیہ پاکستان پر یہ الزام بھی عائد کرتی آئی ہے کہ پاکستان میں سرگرم دہشت گرد گروپ افغانستان کے علاوہ بھارت میں بھی کارروائیوں میں ملوث پائے گئے ہیں اور پاکستان ان پر قابو پانے میں ناکام رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو کی حالیہ ٹیلی فونک گفتگو کے حوالے سے اس الزام کی بات کی جا رہی ہے‘ جسے پاکستان نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ صورتحال ایک ایسے وقت میں پیدا ہوئی ہے‘ جب نئی حکومت اقتدار کی کرسی پر ابھی پوری طرح سنبھل کر بیٹھی بھی نہیں ۔ دوسرا نئی حکومت کے اب تک کئے گئے اقدامات مثلاً پہلی کابینہ کے فیصلے‘ جن میں سابق وزیراعظم نواز شریف‘ ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا فیصلہ بھی شامل ہے‘کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکمران جماعت ابھی تک نواز لیگ کے خلاف ایجی ٹیشن اور الیکشن موڈ سے باہر نہیں نکلی ۔ شاید وزیراعظم عمران خان کی ترجیحات میں خارجہ پالیسی شامل نہیں ہے‘ حالانکہ اب یہ تیزی سے واضح ہوتا جا رہا ہے کہ پاکستان کی علاقائی پالیسی پر اس کے ہمسایہ ممالک اور بین الاقوامی برادری کو جو تحفظات ہیں‘ انہیں دور کئے بغیر پاکستان کے اندرونی حالات میں بہتری نہیں آ سکتی۔ وزیر خارجہ نے 24 اگست کو بیان دیتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کو افغانستان میں امریکی خدشات دور کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا‘ مگر معاملہ افغانستان تک محدود نہیں‘ نئی حکومت کو پورے خطے میں اپنی پالیسی اور کردار پر نظر ثانی کرنا پڑے گی۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں