پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اسلام آباد میں اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں اس تاثر کو غلط قرار دیا ہے کہ چین کے ساتھ 2015 ء میں طے پانے والے معاہدے ''سی پیک‘‘ پر نظر ثانی کی جارہی ہے ۔ اس سے قبل چینی وزارت خارجہ کے ترجمان بیجنگ میں ایک بیان جاری کر چکے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات '' سی پیک‘‘ چین کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ چینی وزیر خارجہ وانگ ژی کے دورۂ پاکستان کے اختتام پر ان کے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں بھی ''سی پیک‘‘ کے ساتھ پاکستان کی کمٹمنٹ کا اعادہ کیا گیا اور واضح طورپر اعلان کیا گیا کہ '' سی پیک‘‘ کے تمام منصوبے مکمل کئے جائیں گے۔ پاکستان میں چین کے سفیر بائوجنگ سے جی ایچ کیو راولپنڈی میں ملاقات کے دوران چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی '' سی پیک ‘‘ کو پاکستان کا مستقبل قرار دیا ہے۔اس کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کی '' سی پیک‘‘ کے بارے میں پالیسی کو گول مول ‘غیر یقینی بلکہ مشکوک قرار دیا جارہا ہے۔ اس کی سب سے اہم وجہ تو ''فنانشنل ٹائمز‘‘ میں چھپنے والی ایک رپورٹ ہے جس میں پاکستان کے معروف صنعتکار اور وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے کامرس ، ٹیکسٹائل ، انڈسٹری، پیداوار اور سرمایہ کاری عبد الرزاق دائود کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ موجودہ حکومت چین کے Belt and Road Initiative میں پاکستان کی شرکت پر نظر ثانی کررہی ہے۔
'' فنانشل ٹائمز ‘‘ میں چھپنے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی موجودہ حکومت کے وزیروں اور مشیروں کی نظر میں '' سی پیک ‘‘ سے چین کو زیادہ فائدہ پہنچ رہا ہے۔ سابقہ حکومت نے ''سی پیک ‘‘ پر دستخط کرتے وقت پاکستان کے مفاد کو پوری طرح پیش نظر نہیں رکھا تھا‘ جس کی وجہ سے پاکستان کی بجائے چین زیادہ فائدہ اٹھا رہا ہے ۔ اگرچہ رزاق دائود نے فنانشل ٹائمز کی اس رپورٹ کو بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیا اور دعویٰ کیا ہے کہ اخبار نے ان کے انٹرویو کو توڑ مروڑ کر اور سیاق و سباق سے الگ کر کے پیش کیا ہے۔تاہم باوثوق ذرائع کے مطابق موجودہ حکومت نے سی پیک پر Go slowرویہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ اس کی تصدیق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کے ایک بیان سے بھی ہوتی ہے‘ جس میں انہوں نے سابقہ حکومت پر الزام لگایا ہے کہ اس نے سی پیک کے تحت توانائی کے منصوبوں پر دستخط کرتے وقت پاکستان کے مفاد کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا اور ان منصوبوں سے پاکستان کو مہنگے داموں بجلی خریدنی پڑ رہی ہے۔
پاکستان میں پارلیمانی انتخابات اور حکومت کی تبدیلی سے سی پیک کے تحت مختلف منصوبوں پر گزشتہ تین ماہ سے یا تو کام بند پڑا ہے یا اس کی رفتار بہت سست ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ سی پیک اب موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے‘ تو غلط نہ ہوگا‘ حالانکہ چینی وزیر خارجہ کے دورے پر دونوں ملکوں نے جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا تھا اس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ سی پی کے منصوبوں پر کام کی رفتار کو تیز کیا جائے گا‘ مگر وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے اس سمت کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا ہے۔ سی پیک کے منصوبوں پر کام کی رفتار تیز کرنے اور اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی بجائے حکومت نے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی خسرو پرویز کی سرکردگی میں ایک نیا ورکنگ گروپ قائم کیا ہے جو سی پیک کے منصوبوں پر عمل درآمد کی آئندہ سمت متعین کرنے کے لئے چین کے ساتھ مشاورت کا عمل شروع کرے گا۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان اپنے امپورٹ بل کو کم کرنے کے لئے سی پیک میں شامل بعض منصوبوں کو ترک کرسکتا ہے ۔ ان میں درآمدی کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر شامل ہوسکتے ہیں۔ اس کی بجائے حکومت مقامی سطح پر دستیاب ایندھن کے ذرائع کو بجلی گھروں کی تعمیر میں استعمال کرسکتی ہے۔ حکومت کے دعوے کے مطابق اس سے فائدے ہوسکتے ہیں‘ ایک تو درآمدات کم ہوں گی اور ملک کی بیرونی ادائیگیوں کے توازن میں بہتری آئے گی اور دوسرا توانائی کے بیرونی ذرائع پر انحصار کم ہوگا۔ لیکن یہ کہنا جتنا آسان ہے ‘ اتنا ہی عملی طور پر کرنا مشکل ہے۔ کیونکہ اس نوع کی کوششیں پہلے بھی کی جاچکی ہیں‘ مگر کامیابی نہیں ہوئی۔ نئی حکومت ایک دفعہ پھر اسی نسخے کو آزمانے کی کوشش کررہی ہے‘مگر یہ وقت ہی بتائے گا کہ یہ تدبیر کہاں تک کامیاب ہوسکتی ہے۔ لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت سی پیک سے دستبردار ہورہی ہے۔ اگر اس طرف کوئی قدم اٹھایا گیا تو یہ ملک کے لئے بہت تباہ کن ثابت ہوگا۔ اس لیے کہ سی پیک پاکستان اور چین کی اس مشترکہ سوچ اور خواہش کا نتیجہ ہے جس کے تحت دونوں ملکوں کی قیادت نے محسوس کیا کہ سیاسی ، سفارتی اور دفاعی شعبوں میں دونوں ملکوں کے قریبی اور روز افزوں تعلقات کے ساتھ ساتھ معاشی شعبے میں بھی تعاون اور شراکت کو فروغ دینا ضروری ہے‘ کیونکہ اس سے پاکستان اور چین کے درمیان پہلے سے موجود مضبوط اور مثالی رشتوں کو پائیداری کی ایک ٹھوس بنیاد مہیا ہوگی۔ اس سوچ کے تحت پاکستان اور چین نے باہمی تجارتی تعلقات اور معاشی تعاون کو بڑھانے کی طرف آج سے دس سال پہلے ہی قدم اُٹھانا شروع کر دیئے تھے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ سی پیک کی صحیح اہمیت اور افادیت کا ادراک صرف اس وقت ہوسکتاہے جب ہم گزشتہ تقریباً 25 برسوں کے دوران میں چین کی علاقائی پالیسیوں کا گہری نظر سے مطالعہ اور تجزیہ کریں گے۔ پاکستان جنوبی ایشیا کا واحد ملک نہیں جس کے ساتھ چین نے تجارتی ، معاشی ، سرمایہ کاری اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لئے معاہدوں پر دستخط کئے ہیں۔ چین نے ان شعبوں میں تعاون پیش کرنے کیلئے نیپال ، بنگلہ دیش ، سری لنکا اور مالدیپ سے بھی معاہدے کئے ہیں ۔ ان ممالک کی فہرست میں افغانستان کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح جنوبی ایشیا واحد جغرافیائی خطہ نہیں جس کے ممالک کے ساتھ چین نے تجارتی اور معاشی روابط کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔ مشرق بعید ، جنوب مشرقی ایشیا اور افریقہ بھی ایسے خطے ہیں ۔ جن کے ممالک کے ساتھ چین کے ایک عرصہ سے قریبی تجارتی اور معاشی تعلقات چلے آرہے ہیں۔ ان تعلقات کو نوعیت اور چین کی پالیسی کی روشنی میں جو اہم اور دلچسپ حقائق سامنے آئے ہیں وہ یہ ہیں کہ ان ممالک کے ساتھ معاشی تعاون اور سرمایہ کاری پر مبنی تعلقات کے ذریعے چین نے ان ممالک کو معیشت میں خود کفیل بنانے اور اپنے پائوں آپ کھڑا ہونے کے قابل بنانے پر توجہ دی ہے۔ اس کے برعکس مغربی ممالک خصوصاً امریکہ کی ایڈ پالیسی کا مقصد تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک کو خود انحصاری کی منزل سے دور رکھتا رہا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ خواہ جنوبی ہو یا وسطی اشیا یا افریقہ‘ چین نے ان شعبوں میں سرمایہ کاری سے کبھی ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیا‘ جن میں مغربی ممالک محض اس وجہ سے سرمایہ کاری سے گریزاں تھے کہ ان کو کم منافع ملنے کی توقع تھی یا '' رسک فیکٹر‘‘ موجود تھا۔ چین کا مقصد یک طرفہ منافع کا حصول نہیں رہا‘ بلکہ دیگر ممالک کے ساتھ اس کے معاشی تعلقات کی بنیاد باہمی مفاد رہی ہے۔ چین کی اس مخلصانہ اور فراخ دلانہ پالیسی کی کئی مثالیں براعظم افریقہ میں موجود ہیں اور ان خطوں کے ممالک نے ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ نے بھی چین کی اس پالیسی کی تعریف کی ہے۔ وسطی ایشیا میں روس اور افریقہ میں مغربی یورپ اور امریکہ کے مقابلے میں چین کو اگر زیادہ خیر سگالی کے جذبہ سے دیکھا جاتا ہے تو اس کی وجہ چین کی یہی پالیسی ہے۔ چین نے ان ممالک کے ساتھ معاشی اور تجارتی تعلقات قائم کرتے وقت ان ممالک کے اندرونی معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی اور نہ ہی اس نے کسی تیسری پارٹی کو اپنے دو طرفہ تعلقات کو متاثر کرنے کی اجازت دی ہے۔ گزشتہ 25 برس سے چین اپنے ہمسایہ اور دیگر خطوں کے ممالک کے ساتھ معاشی اور سرکاری شعبوں میں تعلقات کو اپنی پالیسی فریم ورک میں قائم کرتا چلا آرہا ہے۔ سی پیک بھی اس کی ایک مثال ہے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت کو سی پی کا جائزہ لیتے وقت اس اہم سیاق و سباق کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ۔