وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے حال ہی میں افغانستان کا دورہ کیا ہے۔ اس دورے کے دوران انہوں نے افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی‘ چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی اور دیگر اعلیٰ حکام سے بات چیت کی ہے۔ اس بات چیت کے بعد ایک اعلامیہ بھی جاری کیا گیا‘ جس میں بتایا گیا کہ دونوں ملکوں نے دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے اور افغانستان میں امن اور مصالحت کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے کچھ اہم اقدامات کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اس دورے کی ایک اہمیت تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے قیام کے بعد وزیر خارجہ کا پہلا بیرونی دورہ ہے‘ جس کے لیے افغانستان کا چنائو کیا گیا۔ دوسرا یہ کہ یہ دورہ اوائل ستمبر میں امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو کے اسلام آباد کے مختصر دورے کے بعد کیا گیا ہے۔ امریکہ خصوصاً صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ‘ ایک عرصے سے پاکستان پر افغانستان میں قیام امن اور مصالحت کو فروغ دینے کے لیے فعال کردار ادا کرنے پر زور دے رہی ہے۔
اسلام آباد میں امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ کی پاکستانی حکام کے ساتھ بات چیت کے بعد امریکہ کی جانب سے جو بیان جاری کیا گیا تھا‘ اس میں بھی امریکہ نے پاکستان پر بعض اقدامات جن میں مبینہ طور پر پاکستانی سرزمین پر حقانی نیٹ ورک کی محفوظ پناہ گاہوں کا خاتمہ اور افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا بھی شامل ہے‘ کرنے پر زور دیا ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اس سلسلے میں مسئلہ افغانستان کے بارے میں پاکستان کے موقف میں لچک کی طرف اشارہ کیا تھا۔ اسی موقعے پر یہ بھی اعلان کیا گیا کہ وزیر خارجہ جلد افغانستان کا دورہ کریں گے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا دورہ کابل نہ صرف سیکرٹری مائیک پومپیو کی اسلام آباد میں افغان مسئلے پر پاکستانی حکام سے بات چیت کا تسلسل ہے‘ بلکہ پاکستان کی طرف سے افغان مسئلے کے حل کی طرف کسی اہم پیش قدمی کے حصول کی ایک سنجیدہ کوشش بھی ہے‘ کیونکہ ایک اعلان کے مطابق وزیر خارجہ نے یہ دورہ اگلے ہفتہ کرنا تھا‘ مگر وزیر خارجہ ایک ہفتہ پہلے کابل سے ہو آئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان افغانستان کے محاذ پر فوری پیش رفت کا خواہاں ہے۔ اس کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ افغانستان میں جنگ کے شعلوں میں تیزی آگئی ہے اور خطرہ ہے کہ یہ شعلے بڑھ کر کہیں پاکستان کو بھی نقصان نہ پہنچائیں۔ وزیراعظم عمران خان بھی قوم کے نام اپنے پہلے خطاب میں کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کے ہمسایہ ممالک خصوصاً بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا‘ ان کی حکومت کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں شامل ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے کابل روانہ ہونے سے قبل اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں دفاعی اور خارجہ امور سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ حکام کا ایک اجلاس ہوا تھا۔ اس اجلاس میں وزیر خارجہ کے علاوہ سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ‘ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے بھی شرکت کی تھی۔ وزیر خارجہ کے دورہ کابل کے اختتام پر پاکستان نے افغانستان کے ساتھ مل کر جو اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے‘ وہ پاکستان کی سیاسی قیادت اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے متفقہ موقف کی عکاسی کرتے ہیں‘ لیکن ان اقدامات میں کوئی نیا اقدام شامل نہیں‘ بلکہ پرانے اقدامات کا ہی اعادہ کیا گیا ہے اور یہ اعادہ یا اس قسم کے اعلانات پہلے بھی کئے جاچکے ہیں‘ مگر ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ اس لئے وزیر خارجہ کے دورے سے پاک افغان تعلقات یا افغان مسئلے پر کوئی بریک تھرو نہیں ہوا۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کا سبب بننے والی چند رکاوٹوں‘ مثلاً: جلال آباد میں پاکستانی قونصلیٹ کی سکیورٹی کے مسئلے کو دورکرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کو دورہ پاکستان کی دعوت بھی دی گئی ہے‘ مگر اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اہم امور پر مکمل مفاہمت ہوگئی ہے۔ وزیر خارجہ کے دورے کے حوالے سے دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے جو بیان جاری کیا ہے‘ اس میں بتایا گیا ہے کہ کابل میں پاکستان اور افغانستان کے حکام کے درمیان جو بات چیت ہوئی اس میں زیادہ زور دو طرفہ تعلقات کے فروغ پر دیا گیا ہے‘ مثلاً: آئندہ جن چار میٹنگز پر وزرائے خارجہ نے اتفاق کیا ہے۔ ان میں سے ایک جائنٹ اکنامک کمیشن‘ دوسرا افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ کوآرڈی نیشن اتھارٹی‘تیسرا جائنٹ علماء کانفرنس کی سٹیرنگ کمیٹی اور چوتھا افغان پاکستان ایکشن پلان فارپیس اینڈ سالیڈیریٹی (APAPS) کے اجلاس شامل ہیں۔ ان تمام فریم ورکس میں دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں تعاون میں اضافے پر زور دیا گیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے دوطرفہ تعلقات کو دوبارہ پٹڑی پر چڑھانا بہت ضروری ہے ‘کیونکہ دونوں ملکوں میں اس مقصد کے لیے متعدد‘ دو طرفہ‘ یک طرفہ اور کثیر الطرفہ فریم ورک ہونے اور ان کے تحت کئی اجلاس ہونے کے باوجود پاکستان اور افغانستان کے دو طرفہ تعلقات میں بہتری نہیں آئی‘ بلکہ حالات پہلے سے زیادہ خراب ہوئے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ تجارت ڈھائی ارب ڈالر سالانہ سے کم ہو کر چند ملین ڈالر رہ گئی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ڈھائی ہزار کلو میٹر لمبی سرحد پر پاکستان کی جانب سے آہنی باڑ لگانے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان متعدد مواقع پر مسلح تصادم ہوچکے ہیں۔ اس قسم کے واقعات کے خلاف ردعمل کے طور پر پاکستان نے متعدد مرتبہ پاک افغان سرحد بند کئے رکھی ہے‘ اس سے دونوں ملکوں میں کشیدگی میں اور بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس لئے ان مسائل پر بات چیت ضروری ہے‘ لیکن افغانستان کا اصل مسئلہ وہاں گزشتہ 17 برس سے جاری جنگ ہے۔ اس جنگ میں اب تک ہزاروں افغان شہری‘ سکیورٹی اہلکار اور غیر ملکی فوج ہلاک ہوچکے ہیں۔ نہ صرف افغان عوام‘ بلکہ بین الاقوامی برادری کی طرف سے اس جنگ کے خاتمے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں پاکستان سے اہم توقعات وابستہ کی جا رہی ہیں‘ کیونکہ پاکستان اور افغانستان نہ صرف ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں‘ بلکہ مشترکہ سرحد کے دونوں طرف ایک ہی نسل‘ ایک ہی زبان بولنے والے اور مشترکہ ثقافتی رشتوں کے مالک ''پشتون قومیت‘‘ کے لوگ رہتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان یہ طویل مشترکہ سرحد انتہائی غیر محفوظ ہے۔اس لئے جنگ کی صورتحال میں اس سرحد سے آرپار جنگجوؤں کے آنے جانے کو مکمل طور پر نہیں روکاجاسکتا۔ پاکستان سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ نہ صرف مشترکہ سرحد کے آر پار جنگجوئوں کی آمدورفت کو روکے‘ بلکہ امریکہ اور کابل انتظامیہ سے برسرپیکار افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کرے۔ امریکہ کی طرف سے یہ مطالبہ شدت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے اور اسے منوانے کے لیے پاکستان پر دبائو بھی ڈالا جا رہا ہے۔ اس کی ایک شکل پاکستان کے لیے برسوں سے جاری فوجی امداد کی بندش ہے اور دوسری وہ ہے‘ جس کا اظہار ابھی امریکہ کی طرف سے کیا گیا ہے کہ پاکستان نے اگر اپنی معاشی مشکلات پر قابو پانے کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کیا تو امریکہ اس عالمی مالیاتی ادارے کی طرف سے پاکستان کو فنڈز کی فراہمی کی حمایت نہیں کرے گا۔
دوسری طرف امریکہ اور بھارت کے درمیان قربتیں بڑھ رہی ہیں اور مائیک پومپیو کے دورے کے موقعہ پر دونوں ملکوں نے جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا اس میں پہلی مرتبہ امریکہ نے بھارت کا ہم زبان ہو کر پاکستان پر نہ صرف اپنے ہاں دہشت گردوں پر ہاتھ نرم رکھنے‘ بلکہ انہیں خطے کے دیگر ممالک یعنی بھارت اور افغانستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کی اجازت دینے کا الزام عائد کیا ہے۔ پاکستان کو اپنی پوری تاریخ میں سکیورٹی کے ایسے شدید چیلنجوں کا کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا تھا اور ان تمام چیلنجوں کی جڑ افغانستان میں جاری جنگ ہے۔ اس لئے موجودہ حکومت کو ماضی سے ہٹ کر سفارتی ڈگر پر چل کر کسی طرح فوری نتائج کی کوشش کرنی چاہیے‘ ورنہ پاکستان کے گرد ان خطرات کا گھیرا اور بھی تنگ ہو جائے گا۔