پاک بھارت وزرائے خارجہ کی نیو یارک میں ملاقات کا اعلان اور پھر اس کی اچانک تنسیخ کے بعد خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ دونوں ملکوں میں پہلے سے موجود کشیدگی میں اور اضافہ ہو جائے گا۔ لیکن تعلقات اتنے خطرناک موڑ پر آ پہنچیں گے یا ان میں تلخی اور نا مناسب زبان استعمال کرنے کا عنصر اتنی شدت سے داخل ہو جائے گا‘ اس کی توقع کسی کو نہیں تھی۔ بھارتی فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت کو ہی لے لیجئے۔ اپنے تازہ ترین بیان میں انہوں نے لائن آف کنٹرول سے پار پاکستان کے سرحدی محافظوں کو ایک اور سرجیکل سٹرائیک کا نشانہ بنانے کی دھمکی دی۔ اُس کا خیال ہے کہ وزرائے خارجہ کی ملاقات منسوخ ہونے کے بعد لائن آف کنٹرول پر امن کی کوئی امید نہیں۔ حسب سابق انہوں نے اس صورت حال کی ذمہ داری پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی پر ڈال دی اور کہا کہ جب تک حکومتِ پاکستان اِن دو اداروں کا ہاتھ نہیں روکتی‘ نہ صرف لائن آف کنٹرول بلکہ پاک بھارت سرحد کے دیگر حصوں میں بھی جنگ کے خطرناک موجود رہیں گے۔ جنرل بپن نے پاکستان کے خلاف اس قسم کا دھمکی آمیز بیان پہلی دفعہ نہیں دیا۔ اپنا عہدہ سنبھالتے ہی انہوں نے لائن آف کنٹرول کا دورہ کیا تھا‘ اور بھارتی فوجی افسروں اور جوانوں کو مبینہ طور پر پاکستان کی جانب سے فائرنگ اور گولہ باری کا ایسا جواب دینے کی تاکید کی تھی کہ بقول ان کے ''دشمن اس کا درد محسوس کرے‘‘۔ جنرل بپن کے علاوہ بھارتی فوج کے دیگر سربراہ بھی اس قسم کے بیانات دیتے رہے ہیں۔ خصوصاً 2014ء میں پارلیمانی انتخابات میں نریندر مودی کی کامیابی کے بعد اس قسم کی دھمکیوں میں تواتر کے ساتھ اضافہ ہوا تھا۔ یہ بیانات اور دھمکیاں دراصل وزیر اعظم مودی کے اپنے بیانات اور دھمکیوں کا عکس تھیں‘ کیونکہ مودی نے انتخابی مہم میں نہ صرف پاکستان اور چین کو سبق سکھانے کی دھمکی دی تھی‘ بلکہ اپنی پیشرو کانگرس کی حکومت کی لائن آف کنٹرول کے بارے میں پالیسی کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے، سرحد پار ''دشمن‘‘ پر کاری ضرب لگانے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ جونہی مودی نے اقتدار سنبھالا، لائن آف کنٹرول پر پاکستانی اور بھارتی محافظ دستوں میں فائرنگ اور گولہ باری کے تبادلے میں تیزی آ گئی۔ ایک دوسرے کو نشانہ بنانے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف فریقین کے جوانوں اور افسروں کو جان سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں، بلکہ لائن آف کنٹرول کے ساتھ ساتھ دونوں طرف رہنے والے کشمیریوں کا وسیع پیمانے پر جانی اور مالی نقصان بھی ہو رہا ہے۔
جب پاک بھارت وزرائے خارجہ کے مابین ملاقات کا اعلان کیا گیا تھا‘ تو جنوبی ایشیا کے عوام خصوصاً روزانہ فائرنگ اور گولہ باری کی زد میں آنے والے لائن آف کنٹرول کے ساتھ ساتھ آباد کشمیری لوگوں میں خوشی اور اطمینان کی لہر دوڑ گئی تھی‘ کیونکہ امید کی جا رہی تھی کہ وزرائے خارجہ پاک بھارت تعلقات کی ٹرین کو امن اور خیر سگالی کی پٹڑی پر ڈالنے کے لیے سب سے پہلے لائن آف کنٹرول پر قیامِ امن کے بارے میں فیصلہ کریں گے‘ کیونکہ پاکستان اور بھارت میں موجودہ کشیدگی کا سب سے بڑا سبب لائن آف کنٹرول کے آر پار سے ایک دوسرے کو چھوٹے ہتھیاروں سے لے کر دور مار توپوں تک کا نشانہ بنانے کا سلسلہ ہے۔ پوری دنیا پاکستان اور بھارت کو کہہ رہی ہے کہ وہ یہ سلسلہ بند کر دیں اور 2003ء میں دونوں ملکوں نے لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کا جو معاہدہ کیا تھا‘ اُس پر سختی سے عمل کریں؛ تاہم یہ بد قسمتی ہے کہ پاک بھارت وزرائے خارجہ کی ملاقات نہ ہو سکی اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے اور امن کے قیام کے سلسلے میں جن اقدامات کی امید کی جا رہی تھی‘ وہ نہیں کیے جا سکے۔ لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان آئندہ بات چیت یا قیامِ امن کا امکان معدوم ہو گیا ہے۔ ہمیں یہ حقیقت پیشِ نظر رکھنی چاہئے کہ جنرل بپن راوت جیسی سوچ اور زبان رکھنے والے لوگ سرحد کے دونوں طرف موجود ہیں۔ اُن کی پوری پوری کوشش ہے کہ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کی طرف امن، تعاون اور دوستی کی خاطر قدم نہ بڑھائیں‘ بلکہ وہ ایسے موقعہ کی تلاش میں رہتے ہیں جسے استعمال کر کے وہ دونوں ملکوں میں نفرت، بد اعتمادی اور دشمنی کے جذبات بھڑکاتے ہیں۔ جنرل بپن راوت بھارت میں اسی قسم کے مہم جو اور انتہا پسند عناصر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ لیکن پاک، بھارت تعلقات کی گزشتہ تقریباً سات دہائیوں کی تاریخ واضح طور پر بتاتی ہے کہ پاکستان دھمکیوں سے نہ کبھی مرعوب ہوا ہے اور نہ ہی اسے آئندہ مرعوب کیا جا سکتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال 2001ء میں پیدا ہونے والا وہ خطرناک بحران ہے، جس میں دونوں ملکوں کی فوجیں کیل کانٹے سے لیس سرحدوں پر بالکل ایک دوسرے کے مد مقابل آ کھڑی ہوئی تھیں۔ تعداد اور ساز و سامان میں اپنے حریف سے کم تر ہونے کے باوجود، پاکستان نے اپنی فوجوں کو پیچھے ہٹانے سے انکار کر دیا تھا، اور آخر کار سمجھداری اور دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے دونوں ملکوں نے اپنی فوجوں کو اگلے مورچوں سے واپس بلا لیا۔ یہ فیصلہ دونوں میں سے کسی ایک کی فتح نہیں تھی، بلکہ عقل اور فہم و فراست کی کامیابی تھی۔ اب بھی ایسی ہی سپرٹ کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جنرل بپن جیسے دیگر بھارتی رہنمائوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان کے خلاف بھارت کی طرف سے دبائو ڈالنے یا دھمکی کے ذریعے کوئی مقصد حاصل کرنے کی پالیسی کبھی کامیاب نہیں ہوئی اور نہ ہی آئندہ ہو گی۔ اس وقت ہمارے خطے اور اس کے ارد گرد جو حالات ہیں‘ وہ اس امر کے متقاضی ہیں کہ دھمکی آمیز رویہ اور مہم جوئیانہ روش ترک کر کے نرم اور ٹھنڈے مزاج کا مظاہرہ کیا جائے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے وزرائے خارجہ کی ملاقات پر پہلے اتفاق اور پھر 24 گھنٹے کے اندر اسے منسوخ کر کے ایسی غلطی کی ہے، جسے پوری دنیا اور خود بھارت کے اندر اعتدال پسند اور امن کے خواہش مند عناصر، مودی حکومت کے ایک غلط اقدام کے طور پر تسلیم کر رہی ہے۔ لیکن ایک غلط اقدام سے آئندہ کے روابط اور مذاکرات کے امکانات خیم نہیں ہوتے۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات اس سے بھی زیادہ خطرناک اور غیر یقینی ادوار سے گزرے ہیں۔ لیکن امن کی حامی قوتیں ہمیشہ غالب آئیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جذباتیت اور کوتاہ نظری پر مبنی رویے کو ترک کر کے پیچھے کی بجائے آگے کی طرف دیکھا جائے کیونکہ پاکستان اور بھارت دونوں کو ایسے مسائل کا سامنا ہے جنہیں حل کرنے کیلئے خطے میں امن ضروری ہے۔ دونوں طرف سے یہ برملا اعتراف کیا جا رہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو باہمی تنازعات طے کرنے کیلئے بات چیت اور مذاکرات کا راستہ اپنانا چاہئے‘ کیونکہ جنگ مسائل کا حل نہیں‘ لیکن اس کے لیے بھی ایک پُر امن اور کشیدگی سے پاک ماحول چاہئے۔ وزرائے خارجہ کی ملاقات کا مقصد ہی یہ تھا کہ باہمی تنازعات‘ جن میں بنیادی مسئلہ کشمیر بھی شامل ہے، کو حل کرنے کے لیے ایسے اقدامات پر اتفاق پیدا کیا جائے جن کے نتیجے میں فریقین کے خدشات دور ہو جائیں اور ایسا ماحول پیدا ہو جائے کہ پاکستان اور بھارت بغیر کسی دبائو یا کشیدگی کے مذاکرات کا سلسلہ نہ صرف دوبارہ شروع کر سکیں‘ بلکہ اسے آگے بھی بڑھایا جا سکے۔ وزرائے خارجہ کی ملاقات کی منسوخی سے پاکستان اور بھارت دونوں اس مقصد سے پرے ہٹ گئے ہیں‘ مگر دونوں میں سے کسی نے بھی اس مقصد کو خدا حافظ نہیں کہا۔ بلکہ اب بھی اس عظیم مقصد کے ساتھ اُن کی وابستگی موجود ہے۔ کیونکہ دونوں کا مفاد اسی میں ہے۔ وزرائے خارجہ کی ملاقات کی تنسیخ ایک سفارتی ناکامی ہے‘ لیکن ایک سفارتی ناکامی آگے بڑھنے کا راستہ نہیں روک سکتی۔ دونوں حکومتیں اس ناکامی سے پیدا ہونے والے حالات کا یقینا جائزہ لے رہی ہوں گی‘ اور ساتھ ہی ساتھ اس سے پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرنے کیلئے ضروری اقدامات پر غور کر رہی ہوں گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت خطے اور اس کے ارد گرد پائے جانے والے حالات میں زیادہ دیر تک ایک دوسرے سے بات چیت کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔