پاکستان میں حکومتی تبدیلی سے قبل‘ پاک- بھارت تعلقات میں بہتری کی اگر کچھ اُمید پیدا ہوئی تھی ‘تو وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور اُن کی ہم منصب سشما سوراج کی تقاریر کے بعد بظاہر ختم ہوتی نظر آ رہی ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ نے اپنی تقریر میں پاکستان پر بھارت میں دہشت گردی کا الزام لگایا اور کہا کہ اُن کا ملک؛ اگرچہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کا حامی ہے‘ لیکن یہ اُسی وقت ممکن ہے جب اُن کے بقول پاکستان اپنی سرزمین کو بھارت کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے سے روکے گا۔
اپنی جوابی تقریر میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دعویٰ کیا کہ بھارت شرپسندوں کو فنڈز مہیا کر کے پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔ کلبھوشن یادیو کی مثال دیتے ہوئے‘ اُنہوں نے الزام عائد کیا کہ بھارتی حکومت پاکستان میں حاضر سروس اہلکاروں کو پاکستان میں دہشت گردی کے فروغ کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ شا ہ محمود قریشی کی تقریر کا ایک بڑا حصہ کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں بنیادی انسانی حقوق کی صریحاً خلاف ورزیوں کے ذکر پر مشتمل تھا۔ لائن آف کنٹرول کے آرپار دونوں ملکوں کی سرحدی افواج ایک دوسرے کے مورچوں کو فائرنگ کا نشانہ بنا رہی ہیں‘جس کی وجہ سے دونوں طرف جانی اور مالی نقصان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ توقع تھی کہ پاکستانی اور بھارتی وزرائے خارجہ اپنی ملاقات میں (جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کی سائڈ لائن پر ہونا طے پائی تھی‘ مگرجسے بھارتی حکومت نے یک طرفہ طورپر منسوخ کر دیا تھا) سب سے پہلے لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کا سلسلہ بند کرنے پر اتفاق کریں گے‘ لیکن کی بارڈر سکیورٹی فورس کے ڈائریکٹر جنرل کا دعویٰ ہے کہ 25جولائی کے انتخابات کے بعد عمران خان کی سرکردگی میں تشکیل پانے والی حکومت کے دور میں کراس ایل او سی فائرنگ میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے‘ بلکہ پاکستان کا رویہ بقول بھارتی کمانڈر کے‘ پہلے کے مقابلے میں زیادہ جارحانہ ہوا ہے؛ حالانکہ توقع کی جا رہی تھی کہ عمران خان کے وزیراعظم بننے سے پاک- بھارت تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگا‘ کیونکہ کرکٹ کے حوالے سے عمران خان کے بارے میں بھارت میں بہت خیرسگالی پائی جاتی ہے۔
خود وزیراعظم عمران خان نے قوم کے نام اپنے پہلے خطاب میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان سے باہر اگر کسی جگہ اُن کے سب سے زیادہ دوست ہیں‘ تو وہ بھارت ہے‘ اسی خطاب میں انہوں نے بھارت کو مذاکرات کی دعوت بھی دی تھی اور کہا تھا کہ اگر بھارت پاکستان کے ساتھ دوستی کی خاطر ایک قدم آگے بڑھتا ہے ‘تو پاکستان اس کے جواب میں دو قدم آگے بڑھے گا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے عمران خان کو انتخابات میں کامیابی مبارک باد کا فون بھی اس سلسلے کی ایک کڑی تھا اور جب پاکستان کی تجویز پر بھارت نے نیو یارک میں وزراء خارجہ کی ملاقات پر رضامندی ظاہر کی تو اس امید کو تقویت حاصل ہوئی کہ تین سال سے معطل چلے آنے والا دوطرفہ مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو جائے گا۔ یہ ایک جرأت مندانہ فیصلہ تھا ‘جسے نہ صرف پاکستان اور بھارت‘ بلکہ دنیا بھر میں سراہا گیا‘ کیونکہ ماحول دونوں ملکوں میں مذاکرات کے لئے سازگار نہ تھا۔ بھارت کی طرف سے پاکستان پر کشمیر میں مداخلت کے علاوہ تسلسل کے سا تھ ممبئی‘ پٹھانکوٹ اور اُوڑی کے حملوں میں ملوث پاکستانی ''نان سٹیٹ ایکٹرز‘‘ کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرنے کا الزام عائد کیا جا رہا تھا‘ تاہم وزرائے خارجہ کی ملاقات کی تنسیخ کے بعد دونوں ملکوں کے موقف جو سخت گیری آئی ہے‘ اُس سے جنوبی ایشیا کے خطے کے سیاسی افق پر خطرات کے گہرے بادل چھا گئے ہیں۔
بھارت نے مقبوضہ جموں کشمیر میں شوپیاں کے علاقے میں ریاستی پولیس کے تین افسروں کے اغوا اور قتل اور ایک بھارتی فوجی کی لاش کی بے حرمتی کو بہانہ بنا کر وزرائے خارجہ کی ملاقات کو منسوخ کیا تھا‘ مگر بھارتی میڈیا نے ان واقعات کو جس طرح اُچھالا ہے اور بھارتی چیف آف آرمی سٹاف نے جو دھمکی آمیز بیان دیئے ہیں۔ اُن کے پیش نظر دونوں ملکوں میں کشیدگی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو گئی ہے۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی سرحدی افواج نے وزیراعظم آزاد کشمیر کے ہیلی کاپٹر پر فائرنگ سے احتراز نہیں کیا؛ حالانکہ یہ ایک سویلن ہیلی کاپٹر تھا‘ جو پاکستانی علاقے کے اندر پرواز کر رہا تھا۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ کی تقاریر سے یہ صاف نظر آتا ہے کہ دونوں ملکوں میں دوطرفہ مذاکرات کے احیاء کا کم از کم ماضیء قریب میں کوئی امکان نہیں۔ اس کی بجائے دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف الزامات پر مشتمل سخت بیانات کی توقع زیادہ کی جا سکتی ہے‘ کیونکہ بھارت نے واضح کر دیا ہے کہ دہشت گردی اُس کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور جب تک پاکستان اس بارے میں اُس کے خدشات دُور نہیں کرتا‘ بھارت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھے گا۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کا موقف یہ ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ مذاکرات پر تیار ہے‘ لیکن یہ برابری اور باہمی احترام کی بن یاد پر ہی ہو سکتے ہیں اور ان سے مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب اقدامات کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں طرف سے مذاکرات پر آمادگی غیر مشروط نہیں‘ چونکہ دونوں ممالک پر کشیدگی کم کرنے اور مذاکرات شروع کرنے کے لئے بین الاقوامی برادری کا سخت دباؤ ہے۔ اس لئے وہ کم از کم بیانات کی حد تک مذاکرات سے پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں‘ لیکن عملی طور پر کوئی جرأت مندانہ قدم اُٹھانے سے احتراز کر رہے ہیں۔ اس رویہ کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔ اندرونی سیاسی دباؤ اور باہمی اعتماد کا فقدان دونوں اہم اسباب ہو سکتے ہیں‘ لیکن دونوں ملکوں کی حکومتوں کو یہ احساس کرنا چاہئے کہ خطے میں امن استحکام اور خیرسگالی کو اندرونی سیاسی مصلحتوں کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہئے۔ نہ ہی اسے انا کا مسئلہ بنانا چاہئے‘ کیونکہ یہ تقریباً ڈیڑھ ارب سے زیادہ انسانوں کی زندگیوں کا مسئلہ ہے ‘جو کہ کسی بھی غیر ذمہ دارانہ اور مہم جوقسم کے اقدام سے خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی موجودہ صورتحال پر دنیا بھر میں تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
اگر اسے کم کرنے کیلئے اقدامات نہ کئے گئے اور معاملات سیاسی قیادت کی بجائے‘ فیلڈ کمانڈرز کے ہاتھ میں دے دیئے گئے تو کوئی بھی بڑا واقعہ رونما ہو سکتا ہے‘ جو کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتا ہے‘ کیونکہ وادیٔ کشمیر میں حالات بھارت کے کنٹرول سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر بھارت کشمیر میں بڑھتی ہوئی تحریک کو بزور طاقت کچلنے کی کوشش کرے گا ‘تو اس کا پاکستان میں ردعمل کا پیدا ہونا لازمی ہے۔ یہ بھی ڈر ہے کہ بھارت کشمیر میں ناکامی کی ساری ذمہ داری پاکستان پر ڈال کر پاکستان کے خلاف کوئی سرحد پار اقدام کرے۔ اگر ایسی نوبت آئی تو یہ تباہ کن اقدام ہوگا‘ کیونکہ پاکستان نے بھی بھارت پر واضح کر دیا ہے کہ وہ اس کی طرف سے سرحد پار کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے گا۔ کیا پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر چھائے ہوئے گہرے بادلوں کے باوجود روشنی کی کوئی کرن ہے؟ اور دونوں ملکوں میں کسی مرحلے پر بات چیت کا امکان ہے؟ اگر ہم گزشتہ تقریباً ایک دہائی میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات کا جائزہ لیں اور اس وقت عالمی سطح پر جو رحجانات پائے جاتے ہیں‘ اُن کو پیشِ نظر رکھیں تو بے شک محتاط طریقے سے سہی‘ مگر اس سوال کا جواب ''ہاں‘‘ میں دیا جا سکتا ہے‘ کیونکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جب بھی مذاکرات ہوئے ہیں‘ وہ غیر مشروط ہوئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ا س میں کتنی دیر ہو سکتی ہے۔ اس سوال کا بھی حوصلہ افزا انداز میں جواب دیا جا سکتا ہے کہ زیادہ دیر نہیں لگے گی‘ کیونکہ پاکستان اور بھارت زیادہ دیر تک باہمی کشیدگی کا ماحول برقرار نہیں رکھ سکتے۔ خصوصاً پاکستان کیلئے یہ تو بہت مشکل ہے۔ دوسرے بین الاقوامی برادری کا بڑھتا ہوا پریشر اس کے علاوہ ہے۔ خوش قسمتی سے دونوں ملکوں میں عوام کی منتخب جمہوری حکومتیں قائم ہیں۔ ان کی اولین ترجیح عوام کی ترقی اور خوشحالی ہے اور یہ تبھی ممکن ہے‘ جب محاذ آرائی کی بجائے اسلام آباد اور نئی دہلی امن اور تعاون کیلئے ایک دوسرے کی طرف قدم بڑھائیں۔