وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی حال ہی میں امریکہ کا دورہ کر کے آئے ہیں۔ اس دورے کا اصل مقصد تو نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کرنا تھا‘ مگر اس دوران میں انہوں نے واشنگٹن میں امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو اور نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جان بولٹن سے ملاقاتیں بھی کیں۔ جنرل اسمبلی میں اُن کی تقریر کے مقابلے میں امریکی حکام سے اُن کی ملاقاتوں پر پاکستانی میڈیا کا فوکس زیادہ رہا‘ اور اُس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات ایک سخت بحرانی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔ امریکہ نے پاکستان کو ملنے والی فوجی امداد روک رکھی ہے اور دوطرفہ بنیادوں پر مختلف شعبوں مثلاً توانائی، تعلیم، صحت، صنعت، زراعت، آب پاشی اور ماحولیات میں سٹریٹیجک ڈائیلاگ کے تحت گزشتہ کئی برسوں سے جو تعاون جاری تھا، وہ تقریباً رُکا ہوا ہے۔ اس کے مقابلے میں امریکہ کی طرف سے افغانستان کے حوالے سے ''ڈومور‘‘ کا مطالبہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے‘ اور بھارت کے ساتھ امریکی تعلقات اور تعاون میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چونکہ پاکستان کے لئے امریکہ کے ساتھ تعلقات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں‘ اس لئے ملک میں وزیر خارجہ کی واشنگٹن میں ملاقاتوں کے نتائج کا بڑی بے چینی سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ یہ ملاقاتیں اس لئے بھی خصوصی دلچسپی کی حامل تھیں کہ پاکستان میں حال ہی میں ایک نئی حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے۔ اس کے وزیرخارجہ کا یہ پہلا دورۂ امریکہ تھا‘ اور ایک مہینے میں امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ سے اُن کی یہ دوسری ملاقات تھی۔ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ اس سے قبل ستمبر کے پہلے ہفتے میں پاکستان آئے تھے اور اُن کی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے علاوہ وزیراعظم عمران خان سے بھی ملاقات ہوئی تھی۔ پاکستان کے بعد وہ بھارت گئے تھے‘ جہاں اُن کے ہمراہ امریکی سیکرٹری آف ڈیفنس جم میٹس بھی تھے۔ بھارت میں انہوں نے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج اور وزیر دفاع نرملا سیتارام سے امریکہ اور بھارت کے درمیان سٹریٹیجک معاملات پر قریبی اور گہرے تعاون پر مبنی ایک نئے معاہدے پر دستخط کئے۔ بھارت میں اپنے ہم منصبوں سے ملاقات کے بعد امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ اور سیکرٹری ڈیفنس نے جس مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کئے تھے، اُس میں افغانستان، جنوبی ایشیا اور دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہ صورت حال پاکستان کیلئے بجاطور پر باعث تشویش ہے اور اسی کی بنا پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی واشنگٹن میں امریکی حکام کے ساتھ ملاقات کے نتائج کا بے تابی سے انتظار کیا جا رہا تھا۔
واشنگٹن سے پاکستان روانہ ہوئے وقت میڈیا کے لوگوں سے بات چیت کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے ان ملاقاتوں کے نتائج کو مثبت قرار دیا۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ مہینوں کے دوران امریکہ کی طرف سے پاکستان پر سخت تنقید کے بعد اب امریکی رویے اور لہجے میں مثبت تبدیلی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے افغانستان میں امن کے قیام اور مصالحت کے عمل کو آگے بڑھانے میں پاکستان کے تعمیری کردار کی تعریف کی ہے‘ بلکہ اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کے تعاون کے بغیر افغانستان میں مستقل امن قائم نہیں ہو سکتا۔ مگر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے دعوے سے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ امریکی اور پاکستانی نقطہ ہائے نظر میں جو بنیادی اختلافات پہلے تھے‘ وہ بدستور موجود ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی واشنگٹن میں ملاقاتوں کے باوجود دونوں ملکوں کے تعلقات میں کوئی ڈرامائی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ اس کی تصدیق اس ا مر سے ہوتی ہے کہ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو کے ساتھ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی ملاقات صرف 20منٹ جاری رہی اور ان ملاقاتوں کے بعد کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا‘ بلکہ واشنگٹن اور اسلام آباد سے علیحدہ علیحدہ جاری ہونے والے بیانات میں فریقین نے قومی اور علاقائی سلامتی کے مسائل پر اپنے اپنے مؤقف کا اظہار کیا۔ مثلاً پاکستان کی وزارت خارجہ نے جو بیان جاری کیا‘ اس میں جنوبی ایشیا میں مستقل اور پائیدار امن کے قیام کیلئے پاک بھارت تنازعات بشمول کشمیر کے مسئلے کے حل کو ضروری قرار دیا گیا۔ اس کے مقابلے میں واشنگٹن میں امریکی ڈیپارٹمنٹ آف سٹیٹ نے جو بیان جاری کیا‘ اُس میں افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں پاکستانی کردار کی اہمیت اور ضرورت پر تو زور دیا گیا‘ مگر کشمیر‘ جہاں بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ میں بھی تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے، کا کوئی ذکر نہیں۔ اس کے مقابلے میں امریکہ کی طرف سے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے پاکستان پر مدد فراہم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ امریکی اعلامیہ کے مطابق جن امور پر ملاقاتوں میں بحث کی گئی اُن کا تعلق باہمی مفاد کے علاوہ علاقائی سلامتی سے بھی ہے لیکن بنیادی طور پر امریکہ کی طرف سے وہی مسائل اٹھائے گئے جو امریکہ کیلئے اہم اور دلچسپی کے حامل ہیں۔ افغانستان اور جنوبی ایشیا میں پاکستان کے جو خدشات ہیں، وہ امریکی ترجیحات میں شامل نہیں۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان موجودہ اختلافات کا یہی سب سے اہم سبب ہے۔ امریکہ کے لئے افغانستان میں طالبان کے حملوں میں اضافہ اور صدر اشرف غنی کی حکومت کی ناکامی سب سے بڑا مسئلہ ہے اور وہ اسے اپنی مرضی کے مطابق حل کرنے کیلئے پاکستان کی مدد اور تعاون کا خواہاں ہے۔ اس کے لئے پاکستان پر افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے پر اصرار کر رہا ہے اور اگر افغان طالبان، پاکستان کے اثر و رسوخ کو خاطر میں نہ لائیں اور مذاکرات میں شرکت سے انکار کر دیں تو پاکستان سے امریکہ کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ پھر‘ طالبان جن میں حقانی نیٹ ورک کے جنگجو بھی شامل ہیں‘ کے خلاف مؤثر اقدام کرے۔ ان میں طالبان کو مالی امداد اور اسلحہ کی فراہمی کا روکنا اور مبینہ طور پر پاکستانی علاقوں میں طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے محفوظ ٹھکانوں کا خاتمہ شامل ہے۔
مذاکرات میں شرکت کیلئے تو پاکستان امریکہ کی آوازمیں آواز ملانے کو تیار ہے اور پاکستان کے فارن آفس کے جاری کردہ اعلامیہ میں بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے کہ پاکستان اور امریکہ‘ دونوں ملکوں نے مشترکہ طورپر طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ افغان حکومت کی طرف سے طالبان کو غیر مشروط مذاکرات کی پیشکش سے فائدہ اٹھائیں لیکن پاکستان اس بات سے انکار کرتا ہے کہ طالبان اُس کے زیر اثر ہیں یا وہ اُن پر دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں ہے۔ اسی طرح پاکستان کی سرزمین پر افغان طالبان یا حقانی نیٹ ورک کی محفوظ ٹھکانوں کی موجودگی کو بھی پاکستان مکمل طور پر مسترد کرتا ہے اور اس کا موقف ہے کہ اگر یہ محفوظ ٹھکانے موجود تھے بھی، تو شمالی اور جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف پاکستانی فوج کے آپریشنز ''ضرب عضب‘‘ اور ''رد الفساد‘‘ کے بعد ختم ہو چکے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو کی واشنگٹن میں ملاقات سے پہلے بعض امریکی حکام‘ جن میں پرنسپل ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ فار ساؤتھ اینڈ سنٹرل ایشین افیئرز ایلس ویلز بھی شامل ہیں، کی طرف سے اس ملاقات میں زیر بحث آنے والے امور کے بارے میں جو بیانات دیئے گئے‘ ان میں بھی کہا گیا تھا کہ افغانستان میں قیامِ امن‘ خصوصاً افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے پاکستان کو مزید اقدام اور نتیجہ خیز کردار ادا کرنے کیلئے کہا جائے گا۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان موجودہ اختلافات کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ امریکہ پاکستان کے تعلقات کو افغانستان میں اپنے مفادات کی کسوٹی پر پرکھتا ہے جبکہ پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے دوطرفہ تعلقات کو افغانستان سے نتھی کرنے کی بجائے ایک وسیع تر تناظر میں آگے بڑھانا چاہتا ہے۔ لیکن ان اختلافات کے باوجود دونوں ممالک اپنے باہمی تعلقات کو نہ صرف برقرار رکھنا بلکہ انہیں مزید فروغ دینا چاہتے ہیں کیونکہ ایسا کرنا دونوں کے با ہمی مفاد میں ہے۔ اس حقیقت کو امریکی اعلامیہ میں تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کی بنیاد پر دونوں ملکوں نے نہ صرف باہمی روابط برقرار رکھے بلکہ انہیں مزید مضبوط بنانے پر اتفاق کیا۔ اس لئے وزیر خارجہ کی امریکی حکام کی واشنگٹن میں بات چیت سے اگرچہ کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہوا؛ تاہم اختلافات کم کرنے اور کم از کم افغانستان میں قیام امن اور مصالحت کے عمل کو آگے بڑھانے کے لئے مل کر کام کرنے پر اتفاق رائے کیا گیا ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان مزید رابطے پیدا ہوں گے اور مختلف امور پر اختلافات کم کرنے کیلئے دونوں ملکوں کے حکام کے درمیان گفت و شنید ہو سکتی ہے۔