"DRA" (space) message & send to 7575

ضمنی انتخابات کے نتائج اور ان کے مضمرات

ضمنی اور عام انتخابات میں ایک واضح اور اہم فرق ہوتا ہے۔ عام انتخابات میں سیاسی پارٹیاں بھر پور انتخابی مہم چلاتی ہیں‘ ان کے تمام چھوٹے بڑے رہنما میدان میں ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے جلسوں اور ریلیوں سے لے کر کارنر میٹنگز میں اور ڈور ٹو ڈور انتخابی مہم چلائی جاتی ہے۔ ان سب کا مقصد ووٹرز کو حرکت میں لانا ہوتا ہے۔ لوگ بھی غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح یعنی ٹرن آئوٹ زیادہ ہوتا ہے‘ اس کے مقابلے میں ضمنی انتخابات میں انتخابی مہم محدود ہوتی ہے اور زیادہ تر کارنر میٹنگز میں یا امیدوار ڈور ٹو ڈور جا کر ووٹ مانگنے تک اکتفا کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے پارٹی سربراہان اور وزرا پر کسی بھی امیدوار کے حق میں انتخابی مہم میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر رکھی ہے‘ اس لئے ضمنی انتخابات کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو کہ عام طور پر عام انتخابات کے حصہ میں آتی ہے‘ نتیجتاً ضمنی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح بھی کم ہوتی ہے اور ان کے نتائج کے اثرات بھی اتنے دور رس نہیں ہوتے۔ لیکن پاکستان میں حالیہ ضمنی انتخابات کو غیر معمولی اہمیت حاصل تھی اور ان کے نتائج کا بڑی بے چینی سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ یہ انتخابات ملک کے ان 35 قومی اور صوبائی حلقوں میں ہوئے جنہیں ایک سے زیادہ حلقوں میں کھڑے ہونے والے امیدواروں نے ایک نشست اپنے پاس رکھتے ہوئے خالی کیا تھا‘ یا کسی وجہ سے ان میں عام انتخابات کے دوران میں پولنگ نہ ہوسکی تھی۔ یہ حلقے ملک کے چاروں صوبوں میں پھیلے ہوئے تھے اس لئے انہیں ایک چھوٹے انتخاب سے بھی تعبیر کیا جا رہا تھا‘ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جن خالی نشستوں پر پولنگ ہونے جا رہی تھی‘ ان میں وزیراعظم عمران خان کی چھوڑی ہوئی چار نشستیں بھی تھیں۔ ان میں دو پنجاب‘ ایک کے پی (بنوں) اور ایک کراچی میں تھی۔ ان میں سب سے زیادہ توجہ اور دلچسپی کا مرکز لاہور کی این اے 131 لاہور 9 تھی جو عمران خان نے پاکستان مسلم لیگ کے امیدوار خواجہ سعد رفیق کو عام انتخابات میں صرف چند سو ووٹوں کے فرق سے شکست دے کر جیتی تھی۔ پاکستان تحریک انصاف اس سیٹ کو ہر صورت اپنے پاس رکھنا چاہتی تھی کیونکہ یہ عمران خان نے خالی کی تھی اور وہ اسے دوبارہ جیت کر ثابت کرنا چاہتی تھی کہ لاہور اب مسلم لیگ (ن) کا قلعہ نہیں رہا۔ مسلم لیگ (ن) کیلئے بھی یہ نشست بہت اہم تھی اسی لئے انہوں نے خواجہ سعد رفیق کو دوبارہ ٹکٹ دے کر اس حلقے سے کھڑا کر دیا۔ تحریک انصاف نے خواجہ سعد رفیق کے مقابلے میں ہمایوں اختر خان کو ایک مضبوط امیدوار سمجھ کر کھڑا کیا۔ ان انتخابات کی اہمیت اور ان میں عوام اور میڈیا کی غیر معمولی دلچسپی کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستان تحریک انصاف کے اقتدار سنبھالنے کے تقریباً دو ماہ بعد یہ انتخابات ہو رہے تھے۔ اس لئے یہ انتخابات حکمران پارٹی کے لئے اپنی ہر دلعزیزی ثابت کرنے کے لئے ایک ٹیسٹ تھی۔ خصوصاً ایک ایسے موقعہ پر جب کہ حکومت کے چند اقدامات کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس بڑھتے ہوئے مہنگائی کے بوجھ کو عوام پر منتقل کیا جا رہا ہے۔
اگر ہم ان ضمنی انتخابات کا مجموعی طور پر جائزہ لیں تو میدان میں کودنے والی دو بڑی سیاسی پارٹیوں یعنی پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کی مرکز اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنی اپنی پوزیشن میں کوئی ڈرامائی فرق نہیں پڑا مثلاً قومی اسمبلی کی گیارہ نشستیں جن پر پولنگ ہوئی، ان میں سے چھ نشستوں پر پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعت کے امیدوار کامیاب ہوئے‘ مگر تین نشستیں ان کے ہاتھ سے نکل گئیں۔ ان میں لاہور اور بنوں میں قومی اسمبلی کے وہ حلقے بھی شامل ہیں جو عمران خان نے خالی کئے تھے۔ان انتخابات کے نتائج کی روشنی میں قومی اسمبلی میں حکمران
جماعت کی کل نشستوں میں چھ کا اضافہ ہوا ہے۔ ان میں چار پی ٹی آئی نے حاصل کی ہیں جبکہ دو نشستیں وہ ہیں جوپاکستان مسلم لیگ قائداعظم (پی ایم ایل ق) کے امیدواروں نے خالی کی تھیں اور پارٹی نے دوبارہ حاصل کرلی ہیں۔ اس کے مقابلے میں اپوزیشن کی کل نشستوں کی تعداد میں پانچ کا اضافہ ہوا ہے۔ ان میں چار مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں نے جیتی ہیں اور ایک ایم ایم اے نے۔اس طرح مرکز میں حکمران جماعت اور اپوزیشن کی نشستوں کے درمیان تعداد کے لحاظ سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑا؛چنانچہ حکومت کی تبدیلی کا بھی کوئی امکان نہیں۔ یہی صورتحال صوبوں میں ہے۔ وہاں بھی کسی ڈرامائی تبدیلی یا اپ سیٹ کا امکان نہیں‘ البتہ بلوچستان میں صورتحال نے ایک دلچسپ موڑ لیا ہے۔ بلوچ قوم پرست جماعت بی این پی (مینگل) نے حکمران پارٹی سے ایک نشست جیتی ہے اور یہ کامیابی اس نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کی حمایت سے حاصل کی ہے۔ مبصرین کی نظر میں اگر پی این پی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے درمیان تعاون کو فروغ حاصل ہوتا ہے‘ جس کا کافی حد تک امکان موجود ہے‘ تو دونوں پارٹیاں صوبائی اسمبلی میں اپنے ارکان کی تعداد کی بنیاد پر بلوچستان کی موجودہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا سکتی ہیں۔ اور اگر بلوچستان سے حکومتی تبدیلی کا یہ سلسلہ شروع ہوا تو یہ دوسرے صوبوں خصوصاً پنجاب تک پہنچ سکتا ہے ‘ جہاں حکمران پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی پارٹیوں کے مقابلے میں اپوزیشن کافی مضبوط ہے۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والے امیدوار کی حمایت سے قائم ہے۔ اگر یہ امیدوار اپنی وفاداریاں بدلتے ہیں اور پیپلزپارٹی کے اراکین مسلم لیگ (ن) سے مل جاتے ہیں تو پی ٹی آئی کی حکومت کی چھٹی ہوسکتی ہے۔ ضمنی انتخابات کے دوران عوام کی نظریں لاہور خصوصاً لاہور کے حلقہ 131 پر لگی ہوئی تھیں۔ یہ نشست عمران خان نے خالی کی تھی اور مسلم لیگ (ن) نے اسے حاصل کرنے کیلئے خواجہ سعد رفیق کو میدان میں اتارا تھا۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کی تاحیات نااہلی اور نیب کے ہاتھوں پارٹی کے صدر شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد خواجہ سعد رفیق ہی مسلم لیگ (ن) کے ان چند رہنمائوں میں سے بچے ہیں جو آزادانہ طور پر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی پوزیشن میں ہیں۔ حالانکہ ان پر بھی نیب کی طرف سے گرفتاری کا خطرہ موجود ہے‘ جس سے بچنے کیلئے وہ ضمانت کی خاطر عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں۔ اس دبائو کے باوجود خواجہ سعد رفیق نے اپنے حریف کو 10 ہزار ووٹوں کے مارجن سے شکست دے کر ایک غیر معمولی کارنامہ سرانجام دیا ہے ۔ پی ٹی آئی کے لوگ اس سیٹ بیک پر پردہ ڈالنے کیلئے جو مرضی کہیں‘ حقیقت یہ ہے کہ یہ مسلم لیگ (ن) کی ایک بڑی کامیابی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے حق میں جو لہر پیدا ہوئی تھی اس کی شدت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ اسی طرح بنوں جو کہ صوبہ خیبرپختونخوا میں واقع ہے اورجہاں پی ٹی آئی کی اپنی حکومت قائم ہے‘ عمران خان کی خالی کردہ قومی نشست پر متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے امیدوار کی کامیابی نہ صرف مرکز اور صوبے میں حکمران جماعت کے لئے ایک نمایاں سیٹ بیک ہے بلکہ یہ ایم ایم اے کی قومی سیاست میں دوبارہ آمد کی نوید بھی ہے۔ ضمنی انتخابات کے نتائج کا سب سے نمایاں پہلو لاہور جسے ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کا دل کہا تھا‘ میں پی ٹی آئی کا صفایا ہے۔ صوبائی دارالحکومت میں خالی ہونے والی چاروں نشستوں جن میں دو قومی اور دو صوبائی نشستیں شامل ہیں، میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ حلقہ این اے 131 میں خواجہ سعد رفیق کے علاوہ حلقہ این اے 124 میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی کامیابی بھی بہت اہم ہے ۔ ان کامیابیوں سے مسلم لیگ نے ثابت کر دیا ہے کہ لاہور اب بھی اس کا قلعہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں