امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو نے ایک دفعہ پھر اپنے ملک کا دیرینہ موقف دہراتے ہوئے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے مبینہ اڈوں اور پناہ گاہوں کو فوراً ختم کر دے۔ امریکی حکام کی طرف سے اس قسم کے مطالبات پر مبنی بیانات ایک عرصے سے جاری کئے جا رہے ہیں۔ صدر بش کے زمانے میں بھی امریکہ کو پاکستان سے شکایت تھی کہ وہ ایک مخلص اتحادی کا کردار ادا کرنے کی بجائے‘ خفیہ طور پر افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے جنگجوؤں کو اپنے ہاں پناہ دے رہا ہے۔ مائیک پومپیو کا تازہ ترین بیان بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے‘ لیکن اپنے سیاق و سباق اور مواد کے لحاظ سے امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ کا یہ بیان خصوصی نوعیت اور اہمیت کا حامل ہے۔ پہلی غور طلب بات یہ ہے کہ یہ بیان اُس وقت جاری کیا گیا ہے جب افغانستان میںجنگ شدید اور خونریز شکل اختیار کر چکی ہے۔ طالبان افغانستان کی سکیورٹی فورسز اور اُن کے اڈوں پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں اور صدر اشرف غنی کی حکومت بے بس نظر آتی ہے۔ قندھار میں ایک حملے میں نہ صرف صوبے کا گورنر اور علاقے کا انٹیلی جنس چیف مارا گیا‘ بلکہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق افغانستان میں امریکی افواج کے نئے کمانڈر جنرل مِلر زخمی بھی ہوئے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے مقابلے میں طالبان کس حد تک افغان سکیورٹی فورسز کے ڈھانچے میں سرایت کر چکے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ افغانستان میں 20اکتوبر کو پارلیمانی انتخابات منعقد ہوئے تھے۔ ان انتخابات کے انعقاد کے دوران بھی سکیورٹی کی صورتحال انتہائی ابتر تھی۔ پولنگ سٹیشنز پر حملے ہوئے اور درجنوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ نے ان انتخابات کو پھر بھی افغان حکومت کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا اور کہا کہ مخدوش سکیورٹی صورتحال کے باوجود پولنگ سٹیشنز پر لوگوں کی بڑی تعداد میں آمد ایک حوصلہ افزا رجحان ہے۔ لیکن پاکستان کیلئے نئی بلکہ تشویشناک خبر یہ ہے کہ مائیک پومپیو نے پاکستان پر نہ صرف افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے پر زور دیا ‘ بلکہ یہ بھی مطالبہ کیا کہ ان کے علاوہ ملک کے اندر موجود مزید دہشت گرد گروہوں اور گروپوں کو بھی افغانستان میں طالبان کے ساتھ مل کر سرکاری اور امریکی افواج پر حملوں سے روکا جائے۔ مزید برآں پومپیو نے دھمکی دی کہ اگر پاکستان ایسا کرنے میں ناکام رہا تو اسے اپنے کئے کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ پاکستان سے ''ڈومور‘‘ کے امریکی مطالبات کی فہرست نہ صرف طویل ہوتی جا رہی ہے‘ بلکہ اس میں دھمکی کا عنصر بھی شامل ہو رہا ہے۔
اس سے قبل امریکہ کی طرف سے پاکستان سے مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ وہ اپنی سرزمین سے نہ صرف افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرے بلکہ خطے کے دیگر ممالک (اور یہاں مراد بھارت ہوا کرتی ہے) کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال ہونے سے بھی روکے۔ لیکن اب امریکہ نے ایک اور مطالبے کا اضافہ کر دیا ہے ‘ یہ کہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے جنگجوؤں کے علاوہ پاکستان میں دیگر ایسے گروپ اور تنظیمیں ہیں جو پاکستان سے افغانستان میں داخل ہو کر اور افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے ساتھ مل کر افغانستان کی سرکاری افواج اور امریکی فوجی دستوں پر حملے کر رہے ہیں۔ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ ایسے عناصر کی سرگرمیوں کو روکنے کیلئے پاکستان کو جلد اقدام کرنا ہوں گے۔ کیونکہ امریکہ ایسی کارروائیوں کو مزید برداشت نہیں کر سکتا۔ اس کے ساتھ ہی امریکی رہنما نے یہ بھی کہا کہ اُن کا ملک جنوبی ایشیا‘ جن میں پاکستان اور افغانستان بھی شامل ہیں‘ کے بارے میں اپنی اعلان کردہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کرے گا۔ یہ پالیسی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگست 2017ء میں جاری کی تھی‘ اور اس کے اہم خدوخال ہی افغان طالبان کو مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلے کے حل پر مجبور کرنا اور بھارت کو افغانستان میں زیادہ وسیع کردار ادا کرنے کا موقعہ فراہم کرنا تھا۔ اس پالیسی میں صدر ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ قیام امن کے بعد بھی افغانستان میں اپنی موجودگی برقرار رکھے گا‘ کیونکہ اب جنوبی ایشیا کے ساتھ اُس کے طویل المیعاد مفادات وابستہ ہو چکے ہیں۔ ان مفادات کے تحفظ کیلئے امریکہ کو جنوبی ایشیا (بشمول بحر ہند) میں اپنی پوزیشن مضبوط بنانا ہوگی۔ مبصرین نے اس کو امریکہ کی طرف سے جنوبی ایشیا اور اردگرد کے خطوں میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے آگے بند باندھنے کی پالیسی سے تعبیر کیا تھا۔ وقت نے ثابت کر دکھایا کہ مبصرین کی یہ رائے درست تھی‘ کیونکہ امریکہ کی طرف سے بھارت کے ساتھ قریبی دفاعی تعلقات کے قیام اور پاک چین اقتصادی راہ داری کے منصوبے یعنی ''سی پیک‘‘ کی مخالفت کا مقصد یہی ہے۔ مگر پاکستانی نقطہ نظر سے جنوبی ایشیا کے بارے میں جس پالیسی کا ذکر مائیک پومپیو نے کیا ہے‘ اس لحاظ سے باعث تشویش ہے کہ اس میں بھارت کو پورے خطے بشمول افغانستان میں ایک فعال اور نمایاں کردار ادا کرنے کی بات کی گئی تھی۔ اس پالیسی کے اعلان کے بعد پاکستان نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا‘ اور امریکی حکومت پر واضح کیا تھا کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں بھارت کی بالادستی کو قبول نہیں کرے گا۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ تشویشناک بات افغانستان میں بھارت کا ایک ایسا فعال کردار ہوگا جسے وہ پاکستان کی آزادی اور سالمیت کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔پاکستان نے بلوچستان میں جاری شورش کا حوالہ بھی دیا تھا‘ جو کہ پاکستانی دعوے کے مطابق بھارت کی مالی امداد سے چلائی جا رہی ہے۔
امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ نے یہ کہہ کر کہ گزشتہ برس اگست میں اعلان کردہ امریکہ کی جنوبی ایشیا کے بارے پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی‘ پاکستان پر واضح کر دیا ہے کہ وہ نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ افغانستان میں ایک فعال اور موثر کردار ادا کرنے کے قابل بنانے کیلئے بھارت کو ہر قسم کی مدد اور تعاون پیش کرے گا۔ اس سمت امریکہ پہلے ہی بہت کچھ کر چکا ہے۔ امریکہ نے بھارت کے ساتھ سول نیو کلیئر ڈیل کر کے بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کو مضبوط کیا ہے۔ سابق صدر بارک اوباما اور صدر ٹرمپ کی موجودہ انتظامیہ نے بھارت کے ساتھ تقریباً تمام اہم شعبوں‘ جن میں دفاع‘ سائنس‘ صنعت اور سکیورٹی بھی شامل ہیں‘ میں قریبی تعاون پر مبنی معاہدات کئے ہیں۔ اس سے بھارت کو پورے خطے میں ایک بالادست طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آنے میں مدد مل رہی ہے۔ اسی طرح امریکہ نے جاپان کے ساتھ مل کر بھارتی بحریہ کو مضبوط کرنے کیلئے بحرہند میں مشترکہ بحری مشقیں کرنے کے لئے بھی معاہدات کئے ہیں۔ بھارت کے بارے میں امریکہ کے مصالحانہ رویے کا یہ حال ہے کہ روس سے فضائی دفاع کے ایک جدید ترین سسٹم S-400 خریدنے کے باوجود امریکہ نے بھارت پر پابندیاں عائد نہیں کیں‘ حالانکہ اسی قسم کی خریداری پر امریکہ چین اور ترکی کے خلاف پابندیوں کا اعلان کر چکا ہے۔ اسی طرح امریکہ ساری دنیا کو ایران سے تیل خریدنے سے منع کر رہا ہے‘ مگر بھارت نے ایران سے تیل درآمد کرنے کی پالیسی جاری رکھنے کا اعلان کیا تو امریکہ نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ بھارت جن ممالک سے اپنی افواج کیلئے اسلحہ خرید رہا ہے‘ اُن میں روس کے بعد امریکہ کا دوسرا نمبر ہے۔ اسی طرح امریکہ اور بھارت کے درمیان دوطرفہ تجارت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکہ کی جنوبی ایشیا کے بارے میں نئی پالیسی اور حکمت عملی نے ایک ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے‘ جو پاکستان کیلئے بالکل نئی اور ایک اہم چیلنج بھی ہے۔ چونکہ امریکہ نے اسے جاری رکھنے اور اس میں کوئی تبدیلی نہ کرنے کا اعلان کیا ہے؛چنانچہ پاکستان کو اس تمام صورت حال کا سنجیدگی سے جائزہ لینا ہوگا اور اپنے آپشنز پوری احتیاط اور مہارت سے استعمال کرنا ہوں گے‘ کیونکہ پاکستان اس خطے کا ایک اہم ملک ہے اور امریکہ سمیت کوئی بھی ملک جو جنوبی ایشیا میں اپنے مفادات کے تحفظ کا خواہشمند ہے اسے نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اس حقیقت کی بنیاد پر پاکستان کو ایک ایسی پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو خود پاکستان اور خطے کے تمام ممالک کے مفادات کے مطابق ہوگی۔