وزیراعظم عمران خان نے سعودی عرب کے دورے سے واپسی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ پاکستان یمن کی جنگ میں حوثی قبائل اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے جا رہا ہے۔ اس بیان کی وضاحت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ سے مسلم دنیا کے اتحاد کا حامی اور برادر اسلامی ملکوں کے درمیان جنگ کا مخالف رہا ہے‘ اس جذبہ کے تحت پاکستان نے یمن میں تین سال سے جاری جنگ بند کروانے کیلئے ثالث بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم کے اس اعلان کے بعد ملک میں یمن کی جنگ‘ اس میں سعودی عرب کے کردار اور پاکستان کی طرف سے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی صلاحیت کے بارے میں دلچسپ بحث چھڑ گئی ہے۔
سب سے پہلے یہ سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ ثالثی کی پیشگی شرط متحارب فریقین کی طرف سے ایسا کردار ادا کرنے کی درخواست ہوتی ہے‘ لیکن پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی طرف سے ابھی تک ایسا کوئی بیان نہیں آیا‘ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ یمن میں برسرپیکار گروپوں نے پاکستان سے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی ہے‘ بلکہ جس دن وزیراعظم نے اپنے خطاب میں قوم کو یہ ''خوش خبری‘‘ سنائی‘ اُسی دن شام کو ایک نجی ٹی وی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اعتراف کیا کہ پاکستان کو یمن کی جنگ میں اُلجھے ہوئے کسی فریق کی طرف سے کوئی باضابطہ درخواست موصول نہیں ہوئی؛ البتہ انہوں نے یہ کہا کہ پاکستان کی خواہش ہے کہ یہ جنگ جلد بند ہو اور اس مقصد کے حصول کیلئے پاکستان ثالثی کا کردار ادا کرنے کیلئے آمادہ ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کا اس سلسلے میں کردار ایک مددگار (Facilitator) کا ہوگا‘ مگر اس کا انحصار فریقین کی طرف سے باقاعدہ درخواست پر ہوگا‘ جو کہ ظاہر ہوتا ہے ابھی تک کسی طرف سے موصول نہیں ہوئی۔ دوسری بات یہ ہے کہ ثالثی کے بارے میں بیان دیتے ہوئے یمن میں جنگ سے متعلق چند بنیادی حقائق کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ یہ جنگ (بلکہ خانہ جنگی) حوثی قبائل اور یمن کی حکومت کے درمیان لڑی جا رہی ہے۔ سعودی عرب نے پانچ عرب اور دو افریقی ممالک پر مشتمل کولیشن کی سربراہی کرتے ہوئے اس میں مداخلت کی ہے اور برطانیہ اور فرانس کو ساتھ ملا کر امریکہ نہ صرف اس کولیشن کو اسلحہ سپلائی کر رہا ہے‘ بلکہ القاعدہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے بہانے یمن کے غریب‘ نادار اور غیر مسلح لوگوں کو فضائی حملوں کا نشانہ بھی بنا رہا ہے۔ اگر حکومت پاکستان کو یمن کے مظلوم لوگوں سے کوئی ہمدردی ہے تو سعودی عرب کی حکومت کو مشورہ دیں کہ مداخلت کے ذریعے خانہ جنگی کی آگ کو مزید بھڑکانے کی بجائے‘ فوراً جنگی بندی کا اعلان کریں اور یمن کے متحارب گروپوں کے درمیان مصالحت یا ثالثی کا کردار ا دا کریں‘ کیونکہ تاریخی‘ جغرافیائی‘ نسلی اور لسانی اعتبار سے یمن میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کیلئے سعودی عرب سے بہتر اور کوئی ملک نہیں ہو سکتا۔ یہ نیک کام جتنی جلدی انجام پائے‘ اتنا ہی بہتر ہے‘ کیونکہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین( یو این ایچ سی آر)کے مطابق یمن میں آج تک جتنی شہری ہلاکتیں ہوئی ہیں اُن کا دوتہائی حصہ سعودی عرب کی قیادت کے تحت اور امریکی اسلحہ کی مدد سے تشکیل پانے والی کولیشن کی بمباری سے ہوئی ہیں۔
یمن کی خانہ جنگی میں فریقین سے تعلق رکھنے والے دس ہزارمسلح افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ عالم اسلام کے اس غریب ترین ملک کی بدقسمتی کا یہ حال ہے کہ صرف گزشتہ برس یعنی 2017ء میں 50,000بچے خوراک اور علاج کی سہولیات کی عدم دستیابی یا متحارب گروپوں کے درمیان جھڑپوں کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ تیس لاکھ کے قریب لوگ بے گھر ہو چکے ہیں اور ان میں سے 280,000 ‘یعنی تقریباً ایک تہائی افراد ہمسایہ ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ غالباً اسی تباہی سے متاثر ہو کروزیراعظم نے یمن میں ثالثی کے بارے میں اپنے ارادے کا اظہار کیا ہے۔ مگر اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کیلئے جو بنیادی شرائط درکارہیں‘ اُن میں فریقین کی باہمی رضامندی کے علاوہ ثالث کا مکمل طور پر غیر جانبدار ہونا بھی ضروری ہے‘ لیکن پاکستان نے سعودی عرب کی قیادت میں 34اسلامی ملکوں کی مشترکہ فوجی کمانڈ میں شمولیت اختیار کر کے اور حوثی قبائل کی طرف سے دفاعی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کر کے اپنی غیر جانبدار پوزیشن کو کمزور کر دیا ہے۔
ایک ایسی صورتحال میں جہاں ایک فریق کے مقابلے میں دوسرے فریق کے ساتھ مکمل یک جہتی اور حمایت کا اعلان کر چکے ہوں‘ آپ ایک غیر جانبدار ثالث کا کردار کیسے ادا کر سکتے ہیں؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ دو عرب ملکوں میں ثالثی کی پیش کش کا اعلان کرتے وقت وزیراعظم نے ماضی کے تجربات کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔ ایران اور عراق کی طویل جنگ میں ثالثی کا کردار ادا کر کے اُس وقت کے فوجی حکمران جنرل ضیا الحق نے نیک نامی حاصل کرنے کی بڑی کوشش کی‘ مگر بُری طرح ناکام رہے اور اس کی ایک بڑی وجہ عراق کو سعودی عرب کی مکمل پشت پناہی تھی۔ لیکن سعودی عرب کے ساتھ بڑے قریبی تعلقات باوجود‘ جنرل ضیا بُری طرح ناکام رہے‘ اسی طرح جنرل مشرف کو عرب‘ اسرائیل تنازع میں ثالث کا کردار ادا کرنے کی سوجھی۔ ان کا خیال تھا کہ عرب دنیا میں انہیں بڑی پذیرائی حاصل ہے‘ اور استنبول میں پاکستانی اور اسرائیلی وزرائے خارجہ کی ملاقات نے ان کا حوصلہ بڑھایا۔ اس مقصد کیلئے سب سے پہلے شام سے رابطہ قائم کیا گیا‘ مگر عرب ممالک میں سے کسی نے بھی جنرل مشرف کے مشورے کو سنجیدگی سے نہ لیا۔ ابھی ایک آدھ برس کی بات ہے سابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے ایران اور سعودی عرب میں مصالحت کی کوشش کی‘ کیونکہ یمن کی خوفناک خانہ جنگی کو طول دینے میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان ایک مصنوعی اور بے بنیاد علاقائی چپقلش کا بڑا ہاتھ ہے‘ لیکن سب نے دیکھ لیا کہ نواز شریف کی کوشش کا کیا حشر ہوا۔ ایران نے تو رضامندی ظاہر کر دی‘ مگر سعودی عرب کی طرف سے جواب نفی میں تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عرب ممالک آپس میں یا ہمسایہ ممالک کے ساتھ جھگڑوں میں کسی غیر عرب ملک کی مداخلت پسند نہیں کرتے‘اس لیے اس خطے میں تنازعات یا جھگڑوں کو نمٹانے کی کوشش میں ایسے ممالک اور شخصیتیں بھی ناکام رہی ہیں‘ جو پاکستان یا عمران خاں سے کہیں زیادہ بااثر تھیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ شروع ہی سے خصوصاً دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے مشرق وسطیٰ کے سیاسی محرکات مخصوص اہمیت کے اور دوسرے خطوں سے الگ ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان نے ان کو سمجھنے اور ان کی بنیاد پر پالیسی تشکیل دینے کی کبھی کوشش نہیں کی‘ جس زمانے میں مشرقِ وسطیٰ میں عرب نیشنلزم کا طوطی بولتا تھا‘ پاکستان نے پین اسلام ازم اور مسلم اتحاد کا نعرہ لگایا‘ نتیجے میں فلسطینیوں کی حمایت کر کے عربوں کی جو خیرسگالی کمائی تھی‘ وہ بھی گنوا دی۔ رہی سہی کسر 1955ء میں معاہدہ بغداد میں شمولیت اور 1956ء میں نہر سویز کے بحران اور مصر پر برطانوی اور فرانسیسی حملے کی مذمت کرنے میں ناکامی نے پوری کر دی۔ ایوب خاں نے بڑی محنت کے ساتھ عرب ملکوں سے علیحدہ علیحدہ بنیادوں پر تعلقات استوار کر کے پاکستان کا مشرقِ وسطیٰ میں کھویا ہوا مقام بحال کیا۔ یہ سب کچھ اُس کے نوجوان وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے ویژن کا نتیجہ تھا‘ مگر 1970ء میں ضیا الحق نے ‘جو اُردن میں پاکستان کے ملٹری مشن کے سربراہ تھے‘ فلسطینیوں کا قتل عام کر کے یہ مقام پھر کھو دیا‘ تاہم ذوالفقار علی بھٹو کا دورِ حکومت 1972-1971ء پاکستان اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کا سنہری دور تھا۔ مشرقِ وسطیٰ میں لاکھوں پاکستانی ورکرز کی موجودگی اور ملک کو بھیجی گئی ان کی اربوں ڈالر کی کمائی‘ اُسی دور کی پیداوار ہے‘ مگر ضیا الحق کی کوتاہ نظری‘ خود غرضی اور شخصی مفاد پرستی پر مبنی پالیسی نے مشرقِ وسطیٰ میں پاکستان کے دوست ممالک کی تعداد کو بہت محدود کر دیا۔ مجھے یقین ہے کہ وزیراعظم عمران خان اگر ثالثی کا اعلان کرنے اور قوم کو ''خوش خبری‘‘ سنانے سے قبل ملک کی وزارت خارجہ سے مشورہ کر لیتے‘ تو ایک نان سٹارٹر کوشش کی نوبت نہ آتی۔