حال ہی میں میں ماسکو میں افغانستان کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے ایک اہم کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں روس کی دعوت پر پاکستان، چین اور ایران کے علاوہ متعدد ممالک نے شرکت کی تھی ۔ اس کانفرنس کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ اس میں پہلی مرتبہ، افغان طالبان کے ایک وفد نے باقاعدہ طور پر حصہ لیا تھا۔ لیکن یہ کانفرنس بے نتیجہ رہی اور شرکاء کے درمیان کسی فارمولے پر سمجھوتہ نہ طے پا سکا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ افغان طالبان کے وفد نے واضح طور پر اعلان کر دیا تھا کہ وہ کابل میں صدر غنی کی حکومت کو افغانستان کی جائز اور قانونی حکومت تسلیم نہیں کرتے۔ اُن کا واحد مطالبہ افغانستان سے بیرونی (امریکی) افواج کا انخلا ہے اور اس کیلئے وہ صرف اور صرف امریکہ سے مذاکرات کریں گے۔ اور یہ کہ جب افغانستان سے غیر ملکی فوجیں نکل جائیں گی تو افغان طالبان ملک میں موجود تمام گروپوں کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کرنے میں مدد فراہم کریں گے۔ اگرچہ ماسکو کانفرنس اپنے مقصد میں ناکام رہی اور وہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر افغان حکومت کے ساتھ بیٹھنے پر آمادہ نہیں کر سکی؛ تاہم افغان مسئلے کے حل کیلئے کوششیں جاری ہیں اور آنے والے دنوں میں ان کوششوں میں تیزی آ سکتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اپنے اعلان کردہ مقصد میں ناکام ہونے کے باوجود، ماسکو کانفرنس افغان مسئلے کو سلجھانے کی ایک اہم کوشش تھی کیونکہ اس میں افغان طالبان کے ایک وفد نے پہلی مرتبہ شرکت کی تھی۔ اس کے علاوہ روس، چین اور وسطی ایشیاء کی ریاستوں کی شرکت سے ثابت ہوتا ہے کہ افغانستان میں جنگ کے خاتمے اور امن کے قیام کیلئے کوششوں میں اب علاقائی ممالک بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ یہ تمام افغانستان کے ہمسایہ ممالک ہیں‘ اور افغانستان کا کوئی بھی دھڑا، خواہ اُس کا تعلق حکومت سے ہے یا طالبان سے، اپنے ہمسایہ ممالک کے خدشات اور مفادات کو نظر انداز نہیں کر سکتا کیونکہ افغانستان ایک ایسا ملک ہے جو ہر طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ہے۔ اسے دنیا سے رابطے قائم کرنے کیلئے اپنے ہمسایہ ممالک کے ذریعے سمندری راستے کی ضرورت ہے‘ خواہ یہ ایران ہو‘ پاکستان ہو یا وسطی ایشیا کی آزاد ریاستیں۔
اسی طرح اس خطے میں روس اور چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو افغانستان میں موجود کوئی بھی سیاسی قوت نظر انداز نہیں کر سکتی۔ جن ممالک نے ماسکو کانفرنس میں شرکت کی، وہ نہ صرف افغانستان کی حکومت بلکہ افغان طالبان کیلئے بھی اہم ہیں اور اُن کی خواہشات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے علاوہ خود امریکہ بھی افغان مسئلے کے حل میں پہلے کے مقابلے میں زیادہ دلچسپی اور مستعدی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ ماسکو کانفرنس سے پہلے اس کے خصوصی نمائندے برائے افغانستان، زلمے خلیل زاد نے دوہا (قطر) میں افغان طالبان کے ایک وفد سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے نتیجے میں اگرچہ افغان مسئلے کے حل کی طرف کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی؛ تاہم فریقین نے بات چیت جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان آئندہ مہینوں میں مزید مذاکرات ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی خلیل زاد نے علاقائی سطح پر اپنی سفارتی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کے تحت خلیل زاد، افغانستان کے ہمسایہ ممالک کا دورہ کر رہے ہیں۔ ان دوروں کا مقصد پاکستان، ایران، سعودی عرب اور دیگر ممالک کی افغانستان کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے سلسلے میں حمایت حاصل کرنا ہے۔ خلیل زاد کو افغانستان کے مسئلے کا وسیع علم اور تجربہ حاصل ہے۔ صدر ٹرمپ نے اُنہیں انہی وجوہ کی بنا پر اس مشن کے لیے چُنا ہے۔ اس لئے اُمید کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی کوششوں میں کسی نہ کسی حد تک کامیاب رہیں گے۔ افغانستان کے مسئلے کے حل کے متعلق مزید پرامید اور حوصلہ افزا پیش رفت پاکستان کی پالیسی اور رویے میں ٹھوس اور مثبت تبدیلی ہے۔ اگرچہ پاکستان شروع سے ہی افغانستان مسئلے کے ایک ایسے حل کا حامی رہا ہے جو افغان حکومت اور عوام کی نگرانی میں ہوا اور پرامن بات چیت پر مبنی ہو، لیکن حال ہی میں پاکستان کی طرف سے چند ایسے اقدام کئے گئے ‘ جن سے افغانستان کے مسئلے کے حل کے بارے اُمید بڑھی ہے۔ ان میں افغان طالبان تحریک کے بانی ملا عمر کے دست راست ملا برادر اور ان کے دو ساتھیوں کی پاکستانی جیل سے رہائی بھی شامل ہے۔ پاکستان کے اس اقدام کا افغان حکومت نے خیرمقدم کیا‘ اور امریکہ نے اس عمل کو سراہا۔ عام خیال ہے کہ اس سے مذاکرات میں افغان طالبان کی شرکت کی راہ ہموار ہوگی۔
یہ درست ہے کہ اس مسئلے پر افغان طالبان کا موقف بدستور غیر لچک دار ہے اور وہ کسی قسم کے مذاکرات سے پہلے امریکی اور نیٹو افواج کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں‘ لیکن اُن کا مطالبہ صرف اُسی صورت پورا ہو سکتا ہے اگر امریکی افواج، افغان طالبان کے ہاتھوں مکمل طور پر فوجی شکست کھا جائیں۔ اس کا امکان کم نظر آتا ہے کیونکہ ابھی تک افغان طالبان نے نہ تو امریکی اور نہ ہی افغان فوج کے ساتھ لڑائی میں کوئی بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ اُن کا اثر و رسوخ اور موجودگی وسیع علاقوں میں ہو سکتی ہے، مگر ابھی تک وہ کسی بڑے شہر پر قبضے کو دیر تک قائم رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ افغانستان کی جنگ کے بارے میں متفقہ رائے یہی ہے کہ اس میں فریقین یعنی طالبان اور امریکی افواج ایک دوسرے کو فوجی لحاظ سے شکست نہیں دے سکتے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ طالبان کے اس مؤقف کو کہ کسی قسم کے مذاکرات سے قبل ا مریکی افغانستان سے نکل جائیں، کسی بھی ملک کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ خود پاکستان نے اس مطالبے کی مخالفت کی ہے۔ 1989ء میں افغانستان سے روسی افواج کی واپسی اور اس کے بعد افغانستان میں ایک عرصہ تک جاری رہنے والی خونریز خانہ جنگی کا حوالہ دیتے ہوئے، پاکستان کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں حتمی فیصلے سے قبل ا مریکی اور نیٹو افواج کی واپسی سے افغانستان میں ایک خلا پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ اندیشہ ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج کی غیر موجودگی میں افغانستان ایک خطرناک خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا۔ پاکستان کو ڈر ہے کہ افغانستان میں اگر حالات مزید خراب ہوئے تو اس کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑے گا‘ جہاں پہلے ہی لاکھوں افغان مہاجرین موجود ہیں۔ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کی واپسی کے بعد ممکنہ خانہ جنگی سے مزید افغان باشندے پاکستان کا رُخ کریں گے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مینڈیٹ کے تحت مقیم ہیں۔ اس لیے ان کی واپسی کے مطالبے کو بین الاقوامی برادری کی حمایت حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس لئے ا فغان طالبان کو اپنے موقف میں لچک پیدا کرنا پڑے گی۔ اگر افغان طالبان اپنے موقف میں لچک پیدا کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور افغانستان میں موجود ڈیڈ لاک برقرار رہتا ہے تو سوال یہ ہے کہ ملک کے حالات اور جنگ کی صورتحال کیا رخ اختیار کرے گی؟ اس صورت میں فوری طور پر تو جنگ میں تیزی آئے گی۔ سردیوں کی آمد سے لڑائی میں شدت کم ہو سکتی ہے‘ مگر افغان نیشنل آرمی اور طالبان کے درمیان جنگ جاری رہے گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ طالبان کو مغلوب کرنے کے لیے امریکی بری اور ہوائی افواج، افغان نیشنل آرمی کی مدد میں اضافہ کر دیں۔ اس سے افغان طالبان کے ٹھکانوں اور قافلوں پر امریکی ہوائی حملوں میں اضافہ ہوگا۔ جنگ نہ صرف شدید ہوگی بلکہ اس کا دائرہ بھی وسیع ہو سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے افغانستان میں جنگ بندی اور مذاکرات کے ذریعے اسے ختم کرنے کی کوششوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ 17سال کی جنگ کے بعد، فریقین کو یقین ہو چکا ہے کہ افغانستان کا مسئلہ طاقت اور قوت کے بل پر حل نہیں ہو سکتا‘ اور اسے حل کرنے کے لئے آخر کار مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا‘ لیکن مذاکرات کی میز پر اپنی اپنی پوزیشن بہتر بنانے کیلئے افغان طالبان اور امریکی ایک دوسرے کو زیر کرنے کیلئے پورا پورا زور لگائیں گے۔ نتیجہ، مزید جنگ۔ مزید خوں ریزی۔